غزہ:غزہ پٹی اور اسرائیل کی سرحد پر حالیہ ہفتوں میں قریب سوا سو فلسطینی مظاہرین کی ہلاکت کے تناظر میں فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں کی درخواست پر بدھ تیرہ جون کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک ہنگامی اجلاس بلا لیا گیا ہے۔
فلسطینی خود مختار علاقوں میں غزہ پٹی کے شہر غزہ سٹی سے ہفتہ نو جون کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس سلسلے میں جنرل اسمبلی کے صدر میروسلاو لائٹشاک نے جمعہ آٹھ جون کی رات یہ باضابطہ خط جاری کر دیا کہ غزہ پٹی کی صورت حال سے متعلق جنرل اسمبلی کا ایک ہنگامی اجلاس آئندہ بدھ کے روز مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے ہو گا۔
جنرل اسمبلی کا یہ ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے فلسطینیوں اور ان کی اتحادی عرب ریاستوں کی طرف سے دباو¿ ڈالا گیا تھا۔ غزہ میں بیسیوں فلسطینی مظاہرین کی ہلاکتوں ہی کے تناظر میں گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بھی ایک اجلاس ہوا تھا۔
اس اجلاس میں جس مسودے پر رائے شماری ہوئی تھی، وہ کویت کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی دستوں کی فائرنگ اور آنسو گیس کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے سو سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت اور ہزاروں دیگر کے زخمی ہو جانے کی مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ پٹی کی فلسطینی آبادی کے تحفظ کے لیے کوئی طریقہ کار طے کیا جائے۔اس قرارداد کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی اکثریت نے تو حمایت کر دی تھی تاہم امریکا نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ تب اس عالمی ادارے میں امریکی خاتون سفیر نکی ہیلی نے ویٹو کی جانے والی قرارداد کو ’انتہائی یکطرفہ‘ قرار دیا تھا۔
اب غزہ پٹی کی اسرائیل کے ساتھ سرحد پر 30 مارچ سے لے کر اب تک کے عرصے میں مجموعی طور پر 124 فلسطینیوں کی ہلاکت اور ہزاروں فلسطینی مظاہرین کے زخمی ہو جانے کے تناظر میں تیرہ جون کو جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہو گا، اس میں اور سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایک فرق بہرحال ضرور ہو گا۔
وہ فرق یہ ہو گا کہ سلامتی کونسل کی منظور کردہ کسی بھی قرارداد پر عمل درآمد قانونا لازمی ہوتا ہے جبکہ جنرل اسمبلی کی منظورہ کردہ کسی بھی قرارداد کی اخلاقی اہمیت تو بہت زیادہ ہوتی ہے تاہم اس پر عمل درآمد قانونا لازمی نہیں ہوتا۔ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ جنرل اسمبلی میں غزہ میں فلسطینی ہلاکتوں سے متعلق جس قراداد پر رائے شماری متوقع ہے، اس کا متن بھی تقریباویسا ہی ہو گا جیسا سلامتی کونسل میں رائے شماری کے لیے پیش کیا گیا تھا، اور جسے امریکا نے ویٹو کر دیا تھا۔
جنرل اسمبلی میں منظوری کے لیے جو مسودہ قرارداد جع کرایا گیا ہے، اس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں قرارداد کی منظوری کے بعد ساٹھ دنوں کے اندر اندر ایسے انتظامات کے لیے سفارشات مرتب کریں، جن کی مدد سے فلسطینیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان انتظامات میں فلسطینیوں کے لیے عالمی ادارے کے ایک بین الاقوامی حفاظتی مشن کا قیام بھی شامل ہے۔