نایاب حسن
بعض افرادکومبدأفیاض ایسی روحانی،ذہنی و نفسیاتی قوتوں اور صلاحیتوں سے نوازتاہے کہ ہم جیسے معمولی انسان کے لیے ان کا اندازہ لگانابھی مشکل؛ بلکہ ناممکن ہے،ایسے لوگ ہزاروں میں ایک ہوتے ہیں اورہزاروں افراد کے حصے کاکام اکیلے نپٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ایسے لوگ جس کام کے لیے پرعزم ہوجائیں،قدرت بھی ان کے ساتھ ہوجاتی اور راہ کی تمام تر مشکلیں پایاب ہوکران کی رفیق و معاون بن جاتی ہیں،انسانی زندگی کی ہزارہاسالہ تاریخ میں مختلف علمی و عملی شعبوں میں ایسے مردانِ کاربہت سارے ہوئے ہیں،سب کے دائرہ ہاے کارمختلف تھے،زمانی و مکانی حدودالگ الگ تھیں،انھیں الگ الگ اَدوارمیں الگ الگ حالات کاسامناکرناپڑااورہر قسم کی مشکلات و موانع پرقابوپاتے ہوئے انھوں نے عالمِ انسانیت کے لیے وہ کارنامے انجام دیے جن کی بدولت وہ پسِ مرگ بھی زندہ ہیں،زبانوں پر ان کا تذکرہ ہے،تاریخ کے ابواب و اوراق میں ان کی قربانیوں اور جاں فشانیوں کی داستانیں مرقوم ہیں، ان کے بعد کتنی نسلیں آچکیں اور جاچکیں؛لیکن ایسے اولوالعزم افرادکاذکروتذکار تاہنوزتازہ و شاداب ہے۔
اِس وقت ہمارے زیرِ تذکرہ ایک ایسی ہی تاریخ سازشخصیت ہے،جس کی زندگی کی ہر ساعت،ہر لمحہ اور ہرگھڑی عمل و کردار،جدوجہداور سعی و کوشش کا محسوس پیکرتھی،اس شخص کے اندربلاکی خوداعتمادی تھی،قوتِ ارادی تھی،اپنے مقصداور ہدف کوپانے کی للک اور چاہت تھی،ایسا شخص کہ جس نے اپنی کم و بیش چالیس سالہ عملی زندگی میں راحت و آرام اورسکون سے نہ صرف منہ موڑے رکھا؛بلکہ اس کے نزدیک زندگی کے کسی بھی مرحلے میں تھک کر بیٹھنااور راحت و چین کی سانس لیناگویاحرام تھا،جوہمہ دم گرم دمِ جستجورہتاتھا،جس کی قربانیوں نے صوبۂ بہارکے ایک بہت بڑے خطے کوجہالت،بے دینی،بداخلاقی اور سماجی و معاشرتی بے راہ روی سے دورکرکے دین و علم کی رہبانی قندیل روشن کی،شمالی بہار میں واقع علم و دانش کے عظیم الشان مینار’’جامعہ اسلامیہ قاسمیہ، بالاساتھ‘‘ سے پھوٹنے والی روشنیوں میں اس شخص کاخون پسینہ شامل ہے،اس ادارے کی تاسیس کا سہرااگر حضرت مولاناعبدالحنان قاسمیؒ کے سر جاتا ہے، تو اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہونی چاہیے کہ اسے ایک بہت چھوٹے سے مکتب سے ایک عظیم اور مرکزی تعلیمی و تربیتی ادارے کی شکل دینے میں مولانامحمد مرتضی قاسمیؒ (وفات:۴؍مئی ۲۰۱۶ء)کے جہدوعمل کا وافرحصہ ہے،افرادسازی،تربیتِ اخلاق،طالبانِ علومِ نبوت کی صحیح نہج پرعلمی،عملی و فکری تشکیل میں ان کوملکہ حاصل تھا،راقم الحروف نے اپنی تعلیمی و تربیتی زندگی کے چھ نہایت ہی اہم اورقیمتی ترین سال جامعہ اسلامیہ قاسمیہ کے احاطے میں گزارے ہیں،اس طویل عرصے میں اپنے نہایت ہی قابل و فاضل،مخلص،شفیق و مہربان اساتذہ سے پڑھنے اوربہت کچھ سیکھنے اورسمجھنے کے ساتھ مولانامحمد مرتضیٰ قاسمیؒ کی انتظامی وتربیتی صلاحیتوں کوبھی بہت قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کابھی موقع حاصل ہوا،ساڑھے پانچ،چھ سوطلبہ کے درمیان ان کاتن تنہاوجودایک غیر معمولی معنویت کاحامل ہوتاتھا،شروع میں کچھ دنوں تک تدریسی ذمے داریاں بھی ان کے سپردرہیں،مگر بعدمیں ان کے ذمہ صرف جامعہ کے انتظامی امورتھے،جنھیں وہ اس خوبی سے نبھاتے تھے کہ ہمہ شمااس کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔چوں کہ مدارسِ اسلامیہ دین کے قلعے ہیں اور ان سے فارغ ہوکرعملی میدان میں آنے والے فضلادین کے داعی،معلم اور مصلح ہوتے ہیں؛اس لیے نہایت ضروری ہوتاہے کہ ان طلبہ کی نہ صرف تعلیمی و علمی صلاحیت سازی پرزوردیاجائے؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے عمل و کردار کی صیقل گری بھی واجب اور لازم ہوتی ہے؛تاکہ جب وہ عملی میدان میں قدم رکھیں،تولوگ نہ صرف ان کے علوم سے مستفیض ہوں؛بلکہ ان کے عمل و کردار سے بھی متاثرہوں اورعوام اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح میں بھی انھیں نمونہ بنائیں۔اس سلسلے میں حضرت مولاناؒ بہت ہی حساس واقع ہوئے تھے، وہ جب تک مدرسے کے احاطے کے میں رہتے،طالبِ علم کی ہرحرکت وعمل پران کی گہری نظررہتی،بسااوقات طالبِ علم یہ جان بھی نہیں پاتاکہ حضرت ناظم صاحب اسے دیکھ رہے ہیں اورجوں ہی اس سے کوئی غیر اخلاقی یا نازیباحرکت کاصدورہوتا،فوراً ناظم صاحب کی تادیبی آوازاس کے کانوں سے ٹکراتی اوروہ کوئی بھی خلافِ ادب واخلاق حرکت کاارتکاب کرنے سے رک جاتا،ذاتی طورپرمجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ حضرت ناظم صاحب بسااوقات اپنے کمرے کے برآمدے یامرکزی دفترکے سامنے بچھی ہوئی کرسی پربیٹھے ہوئے کس طرح تمام درس گاہوں،مسجدکے چاروں طرف لگنے والی درجاتِ حفظ کی کلاسوں اوروہاں موجودطلبہ و اساتذہ پرنگاہ رکھتے تھے،ان کے نزدیک طالبِ علم کامفاددوسرے ہر شخص ،یہاں تک کہ اساتذہ کے مفادات سے بھی عزیز ہوتاتھا،کئی بارایساہواکہ میں دورانِ کلاس کسی اہم ضرورت سے باہر جارہا ہوں اور مجھ پر ان کی نگاہ پڑجاتی ہے،میں انھیں دیکھتے ہی اندرسے کچھ گھبراساجاتاہوں،وہ دریافت کرتے ہیں کہ درس کے وقت میں آپ کہاں جارہے ہیں؟میں جواب دیتاہوں کہ فلاں ضرورت سے جارہا ہوں، وہ جواب میں کچھ کہتے نہیں ہیں،مگران کے چہرے کے خطوط سے عیاں ہوجاتاہے کہ وہ دورانِ درس کسی طالبِ علم کوغیر درسی عمل میں مشغول نہیں دیکھنا چاہتے،اسی طرح جامعہ کے ابتدائی سالوں کے علاوہ کبھی بھی حضرت ناظم صاحب سے درسیات متعلق نہیں رہیں،مگرکئی بار جب انھوں نے سال کے کسی حصے میں مجھ سے یہ دریافت کیاکہ فلاں کتاب کاسبق کہاں تک پہنچا؟اور فلاں کتاب نصاب تک پہنچی یا نہیں؟ تو اس وقت مجھے احساس ہواکہ ناظم صاحب بظاہرتوصرف مدرسے کے انتظامی امورکے ذمے دارہیں؛لیکن وہ نصابی کتب اور ان کے درس و تدریس پربھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔۲۰۰۲ء میں جامعہ میں میراداخلہ عربی اول کے سال میں ہواتھا،اس وقت تک ناظم صاحب جامعہ کے مجموعی ماحول پربہ تمام و کمال چھائے ہوئے تھے،ان کی ایک آوازسے پورے احاطے میں ایک سناٹاساچھاجاتا،جہاں کہیں بھی بدنظمی و بے ترتیبی ہوتی،وہاں فوراً نظم و ترتیب قائم ہوجاتی،اس زمانے میں جامعہ میں صبح کی کلاس شروع ہونے سے پہلے ترانہ پڑھاجاتاتھا،جامعہ کاترانہ استاذِ گرامی قدرحضرت مولاناوقاضی محمد عمران قاسمی کانتیجۂ فکرہے اوراس کے بول،الفاظ،آہنگ اور لے میں ایک خاص قسم کی چاشنی و شیرینی ہے۔ہرصبح ناشتے سے فراغت کے بعددوخوش آوازطالبِ علم پہلے ترانہ پڑھتے، اس دوران حضرت ناظم صاحب بسااوقات ’نئی بلڈنگ‘(جامعہ کے دارالاقامہ)کے بالائی حصے میں واقع اپنے کمرے کے باہرگیلری میں اور کبھی طلبہ کی صفوں کے سامنے میدان میں کھڑے رہتے اور تمام طلبہ کی حرکات و سکنات پران کی نگاہ رہتی،کوئی بھی طالبِ علم ناشتے کے بعدبغیرترانہ پڑھے ہوئے اِدھراُدھرنہیں ہوسکتاتھا،جوں ہی اس کے قدم کسی اورسمت کواٹھتے،فوراً ناظم صاحب کی آوازاس کے قدموں کارخ موڑدیتی،ترانے کے بعدمرحلہ ہوتاتھاکلمہ خوانی،دعاے قنوت،درودشریف وغیرہ اورمخصوص نمازوں مثلاً نمازِجنازہ،عیدین،وتروغیرہ کی ادائیگی کے طریقوں کوبیان کرنے کااوراس کام کے لیے کوئی طالبِ علم مخصوص نہیں ہوتاتھا،کسی بھی صف سے کسی بھی طالب علم کے ذمے یہ کام سپردکیاجاسکتاتھا،یہ مرحلہ کم ازکم میرے لیے توکسی عظیم امتحان سے کم نہیں ہوتاتھا،ایک عجیب ساخوف اور گھبراہٹ ذہن و دماغ پرطاری رہتی کہ پتہ نہیں کیاحکم ہوجائے؛لیکن بہر حال اس کے بے شمارفائدے بھی تھے،سب سے بڑافائدہ یہ تھاکہ حصولِ علم کے ابتدائی ایام میں ہی بچوں کودین کے بنیادی مسائل اور اسلامی تشخص سے متعلق امورذہن نشیں ہوجاتے تھے ، اسی طرح نمازکے معاملے میں بھی حضرت ناظم صاحب کارویہ بالکل نبویﷺارشادکے مطابق تھا،اس معاملے میں وہ کسی بھی قسم کی عذرخواہی کے قائل نہ تھے،خاص طورسے فجراورظہرکی نمازوں کے اوقات میں جبکہ طلبہ محوِخواب ہوتے ہیں،ان کی ایک آوازسے سارادارالاقامہ خالی ہوجاتاتھا،میں نے انھیں کبھی بھی کسی کمرے میں جاکرطلبہ کوبیدارکرتے ہوئے نہیں دیکھا،بس وہ اپنی پاٹ دارآوازمیں طلبہ کونمازکاوقت ہونے کی اطلاع دیتے اور سارے طالبِ علم اپنے اپنے کمرے سے نکل کرمسجدکارخ کرلیتے،وہ طالبِ علموں پربہت شفیق بھی تھے،جب معاملہ تربیت کاہوتایاکسی طالبِ علم کی نازیبااور غیراخلاقی حرکت کاہوتا،تووہ سخت تادیبی موڈمیں آجاتے؛لیکن عام حالات میں وہ طلبہ سے نہایت ہی نرم گوئی اور شفقت کے ساتھ ملتے،اس کی مشکلات اور پریشانیوں کوسنتے اورانھیں دورکرنے کی فوری تدبیربھی کرتے۔الغرض حضرت ناظم صاحب کی ذات جامعہ اسلامیہ قاسمیہ کے طلبہ اور پورے جامعہ کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ اور گنجِ گراں مایہ تھی،جامعہ کے ذرات اور اس کی آب و ہوامیں ان کی سانسوں کی خوشبوئیں رچی ہوئی ہیں،جامعہ کی تاریخ اور اس کے کارنامے ان کی ذات کے بغیرایسے ہی ہیں،جیسے جسم بغیرروح کے،جیسے درخت بغیر شادابی کے،جیسے دھڑبغیرسرکے۔
مولاناکاتعلق ایک باوقاراور شریف خاندان سے تھا،ان کے والد کانام محمدمسلم تھااوران کی پیدایش ضلع سیتامڑھی میں واقع ایک مشہوربستی’’بوکھڑا‘‘میںیکم جنوری ۱۹۶۰ء کوہوئی تھی،تعلیم کاآغاز اردوپرائمری اسکول،بوکھڑاسے کیا،باقاعدہ تعلیمی سلسلہ صوبۂ بہارکی عظیم و قدیم دینی درس گاہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں سے شروع ہوااور وہاں عربی چہارم تک کی تعلیم حاصل کی،اس کے بعدجامعہ عربیہ ہتھوڑا،باندہ تشریف لے گئے اور وہاں دوسال زیرتعلیم رہے، اس ادارے میں طالبِ علمی کے دوران جامعہ کے روحِ رواں اور صوفیِ باصفاعارف باللہ حضرت مولاناقاری صدیق احمدباندویؒ سے خصوصی تعلق قائم ہوا،حتی کہ آپ حضرت قاری صاحب ؒ کے خاص خادم اورہروقت کے حاضرباشوں میں شامل ہوگئے،طالب علمی ہی کے زمانے میں ان کی درخواست پرحضرت قاری صدیق صاحبؒ نے دوباربوکھڑاکاسفربھی کیا اور ان کی بافیض ذات سے بہت سارے مسلمانوں نے استفادہ کیا،ہفتم عربی اور دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کے لیے ازہرِ ہنددارالعلوم دیوبندتشریف لے گئے اور وہاں سے۱۹۷۹ء میں فضیلت کی تکمیل کی،دیوبندکی طالبِ علمی کے دوران عظیم محدثین حضرت مولانافخرالحسن گنگوہیؒ اور حضرت مولاناعبدالاحدؒ سے خصوصی تعلق رہا،فراغت کے بعددیوبندکے پاس ہی واقع ایک قصبہ ’’پٹیالی‘‘ میں چار پانچ ماہ تک تدریسی خدمات انجام دیں،اس کے بعدجب حضرت مولاناعبدالحنان قاسمیؒ (جنھیں شمالی بہارکے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب کاامام کہاجائے تو بے جانہیں ہوگا)کو علاقے میں ایک دینی تعلیمی ادارے کے قیام کی فکرہوئی،توان کی نگاہِ انتخاب مولانامحمد مرتضیٰ قاسمی ؒ پرپڑی،مشورے ہوئے اورطے پایاکہ یہ مدرسہ بوکھڑاہی میں قائم ہوگا،مگربعض وجوہ سے ایسانہ ہوسکا،توپھر۱۹۸۰ء میں بالاساتھ کے اس وقت کے مکھیا مظفرامام صاحبؒ کے دروازے پرتعلیمی سلسلہ شروع کردیاگیا،حضرت ناظم صاحب مدرسِ اول؛بلکہ حضرت مولاناعبدالحنان صاحبؒ کی غیر موجودگی میں سب کچھ وہی تھے،پھراگلے سال موجودہ مقام پرمدرسے کی عارضی عمارت کھڑی کی گئی اوراس عمارت کوبنانے اورجامعہ اسلامیہ قاسمیہ کومحسوس پیکرعطاکرنے میں حضرت ناظم صاحب نے جس قدرصبرآزمامراحل کوجھیلا،وہ مناظراورمراحل آج بھی جب علاقے کے عمررسیدہ لوگ اپنی زبانوں سے بیان کرتے ہیں،تودل اورزبان بے ساختہ یہ گواہی دیتے ہیں کہ حضرت ناظم صاحب کی ذات واقعتاً عظیم تھی اورجولوگ عظیم ہوتے ہیں،انھیں کبھی موت نہیں آتی ،دل ،دماغ واذہان انھیں یاد رکھتے ہیں اور زبانیں ان کی قربانیوں،حوصلہ مندیوں اورکارناموں کوسلام کرتی ہیں،بقول ساحرلدھیانوی:
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے
جسم مرجانے سے انسان نہیں مرجاتے
دھڑکنیں رُکنے سے ارمان نہیں مرجاتے
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مرجاتے
جسم کی موت کوئی مو ت نہیں ہوتی ہے
میری نظرمیں حضرت مولانامحمد مرتضی قاسمیؒ ان لوگوں میں سے تھے،جوموجِ حوادث سے بھی ہنستے کھیلتے ہوئے گزرجاتے ہیں،جواپنے آشیانے کو جلا کر زمانے کوروشن و منورکرنے کاحوصلہ رکھتے ہیں، جو دوسروں پر چلنے والے خنجرکادردوکرب اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں،جواپنے لیے نہیں،اوروں کے لیے جیتے ہیں،ایسے لوگ ہمارے صارفیت زدہ عہدمیں کم یاب نہیں؛نایاب ہیں،ہم نے اگرایسے لوگوں کواپنے درمیان دیکھاہے توہم بڑے نصیبہ ورہیں اوراگرنہیں دیکھ سکے ،تویہ ہماری حرماں نصیبی ہے۔(ملت ٹائمز)