سبریما مالا مندر کے معاملے کو لیکر شدت پسند ہندو عناصر،تجزیہ نگار اور بی جے پی کے ساتھ ٹی وی اینکرس اور سوشل میڈیا یوزرس کا رویہ بھی بدلا ہوا نظر آرہاہے۔ حاجی علی ،تین طلاق اور مسلمانوں سے متعلق دیگر معاملے میں یہ سب چیخ چیخ کر مسلم خواتین کی برابری اور ان کے حقوق کی باتیں کررہے تھے لیکن سبریما لامندر کے سلسلے میں ان کی زبانیں خاموش ہیں۔ ہندو خواتین کو مندر میں جانے کا حق ملنے پر ان کی حمایت نہیں کررہے ہیں
خبر در خبر (574)
شمس تبریز قاسمی
سبری مالامندر ہندﺅوں کی معروف مذہبی عبادت گاہ ہے جس کا شمار دنیا کے بڑ ے مندروں میں ہوتاہے ،یہ ریاست کیرالہ کے Perunad ضلع میں واقع ہے ۔بارہویں صدی میں پنڈلم بادشاہت کے شہزادہ منیکا نند کے ذریعہ اس کی ایک پہاڑ پر دریافت ہوئی تھی۔ یہ مندر سال کے شب روز نہیں کھلتی ہے بلکہ کچھ مخصوص ایا م ہیں جن دنوں میں زائرین کو جانے کی اجازت ہوتی ہے ۔جیسے 15 نومبر سے 26 دسمبر تک چالیس دن یہاں ہندوزائرین آتے ہیں ،اسی طرح 14 جنوری کو مکراسنکرانتی کے موقع پر ۔ 14 اپریل کو مہا وشوا سنسکرانی کے موقع اور ہر ماہ کے پہلے پانچ دنوں میں پوجا کیلئے اس مندر کے دروازے کھولے ہیں۔
انٹر نیٹ پر دستیا معلومات کے مطابق اس مندر میں شروع سے مرد خواتین کے جانے کا رواج رہاہے ،ایسی کوئی تاریخ اور نظیر نہیں ملتی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہاجاسکے کہ یہاں ہندﺅوں کے مذہبی نقطہ نظر سے خواتین کا جانا ممنوع رہاہے ۔31 مئی 1940 میں یہا ں کے راجہ تران ونکور نے اپنی بیوی کے ساتھ اس مندر کی زیارت کی تھی ۔تنازع کی شروعات اس وقت ہوئی جب 1991 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے ترا ن ونکور بادشاہت اور اس سے پہلے سے جاری سلسلہ کی مخالفت کرتے ہوئے 10 سے 50 سال تک کی عمر کی خواتین کے داخلہ پر پابندی عائد کردی ۔کیرالہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چینلنج کیا گیا جسے سپریم کورٹ نے 28 ستمبر 2018 کو مسترد کرتے ہوئے ہر عمر کی خواتین کیلئے سبریما لا مندر کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا ۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کیرالہ کی ریاستی سرکار نے 17 اکتوبر کی شام کو مندر کا دروازہ کھول کر فیصلہ نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیںر ہی ۔لیفٹ اور رائٹ کی جنگ کے درمیان پولس بھی تشدد پر قابو نہیں پاسکی۔مندر میں جانے والی عورتوں کو زبردستی روکا گیا ،ان پر حملہ کیاگیا یعنی سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں اورپرتشدد مظاہرین کی بی جے پی نے بھی بھر پور حمایت کی ۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک کی ہندوتنظیموں کو تسلیم نہیں ہے ،تقریبا 30 سے زائد ہندو تنظیمیں متحدہوکر مسلسل اس کے خلاف احتجاج کررہی ہیں ،ہندو خواتین بھی اس فیصلے کی مخالفت کررہی ہیں۔ اسے آستھا کے خلاف بتایا جارہاہے ۔سرعام سپریم کورٹ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ،مذہب میں مداخلت کے نام پر سپریم کورٹ کا فیصلہ انہیں منظور نہیں ہے ۔ساڑھے چار سالوں کے دوران ہر لمحہ خواتین کو یکساں حقوق دینے اور ان کی برابری کی بات کرنے والی بی جے پی بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی واضح لفظوں میں مخالفت کرتے ہوئے یہ کہ رہی ہے کہ عدالت عظمی کا فیصلہ ہندو پرسنل لاءمیں مداخلت ہے ، برسوں سے چلی آرہی ہے روایت کو ختم کرنے کا عدلیہ کو کوئی حق نہیں ہے ۔ہندوستان جیسے ملک میں مذہبی جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
یہ تمام پندٹ ،بجرنگ دل ،وشوہند وپریشد اور دیگر تنظیموں نے اس وقت دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجائی تھیں جب بامبے ہائی کورٹ نے اگست 2016 میں ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہاتھا کہ حاجی علی درگاہ میں عورتوں کو جانے سے روکنا آئین کی دفعہ 14/15 اور 25 کی خلاف ورزی ہے ،خواتین کی توہین اور انہیں یکساں حق سے محروم کرنا ہے ۔ اس کے بعد اکتوبر میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا جہاں د رگاہ ٹرسٹ نے یقین دہانی کرائی کہ ہماری کمیٹی نے تجویز پاس کرکے عورتوں پر عائد پابندی ختم کردی ہے ۔اس موقع پر بی جے پی نے بھی خوب جشن منایا ۔ مسلم خواتین کی جیت قرار دیتے ہوئے علماءاورصوفیاءکے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی ۔
مسلم خواتین کو یکساں حقوق دینے اور مردوں کے برابر کرنے کے نام پر طلاق کے معاملے میں بھی بی جے پی نے بھر پور مداخلت کی ،سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت کو سرے سے اسلام کا نظام طلاق ہی منظور نہیں ہے ۔22 اگست 2017 کو سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو سرے کالعدم قرار دے دیا ۔یہ فیصلہ اسلامی شریعت اور مسلم پرسنل لاءکے خلاف تھا ،کسی بھی مسلک کے کے موافق نہیں تھا ،ہندوستان کے دو سو سے زائد شہروں میں مسلم خواتین نے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کراس کے خلاف احتجاج بھی کیا ،تقریبا دس سرکاری مسلمان مردو خواتین کے علاوہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے اسے شریعت میں مداخلت پر مبنی فیصلہ قرار دیا تاہم شدت پسند ہندوتنظیموں،آر ایس ایس اور کمیونسٹوں نے خیر مقدم کیا۔ بی جے پی نے دس قدم آ گے بڑھ کر یہاں تک کہ دیا کہ مسلم خواتین کو جوحق گذشتہ چودہ سوسال میں نہیں مل سکاتھا وہ مودی سرکار نے دے دیا۔چند ماہ بعد شریعت اور مسلم خواتین کے حقوق کے خلاف بی جے پی سرکار ایک بل بھی لوک سبھا سے پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی ۔ راجیہ سبھا میں ناکامی کا سامنا کرناپڑ ا تو اس نے تین طلاق آر ڈیننس پاس کردیا ۔ بی جے پی اور اس کی ہمنواتنظیموں نے ہمیشہ یہی کہاکہ ہماری اس جدوجہد کا مقصد مسلم خواتین کویکساں حق دینا ،مردوں کی غلامی سے نجات دلانا ،تین طلاق سے چھٹکار ا دلانا اور انہیں شریعت کی قیدسے آزاد کرانا ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیا ،مسلمانوں کے سراپا احتجاج کے باوجود آرڈیننس نافذ کیاگیا اور کہاگیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سرکار کام کررہی ہے ۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک اور اکیسوی صدی میں مسلم خواتین کو آزادی اور مساوات سے محروم نہیں رکھاجاسکتاہے۔
آج یہی سرکار ،یہی پارٹی اور مودی اینڈ کمپنی سبریما مالا مندر کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے آئے فیصلے کی مخالفت کررہی ہے ،تمل ناڈو ،کرناٹک اور دیگر کئی مقامات سے خواتین کو کیرلا پہونچاکر احتجاج کرارہی ہے ،مندر جانی والی خواتین پر حملہ کرارہی ہے ،صحافیوں کے ساتھ تشدد برتا جارہاہے ،آئی ڈی کارڈ چیک ہورہے ہیں ،ریاستی سرکا راس فیصلے کو نافذ کرنے کیلئے پوری کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن دوسر ی طرف مرکزی سرکار ،بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیمیں ہندو خواتین کو اکیسوی صدی میں بھی مندر جانے نہیں دینا چاہتی ہے ، جانے والی عورتوں کا راستہ روکا جارہاہے ۔بسوں اور گاڑیوں کو واپس کیا جارہاہے ،پولس کو کام کرنے نہیں دیا جارہاہے ۔برسوں پرانی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تنقید کی جارہی ہے ۔
آخر یہ دوہری پالیسی کیوں ؟ مساوات کے نام پر ہندوخواتین کو مندر میں جانے سے روکنے کا کیا جواز بنتاہے ؟ کیا بی جے پی کیلئے سپریم کورٹ کی مخالفت درست ہے ؟ ۔مسلم خواتین کو یکساں حق دینے کیلئے جدوجہد کرنے والی بی جے پی خود ہندو خواتین کویکساں حق کیوں دینا نہیں چاہتی ہے ؟ ۔کیا ہندو خواتین کو مندر جانے اور پوجا پاٹ کرنے کا حق نہیں ہے ؟
سبریما مالا مندر کے معاملے کو لیکر شدت پسند ہندو عناصر،تجزیہ نگار اور بی جے پی کے ساتھ ٹی وی اینکرس اور سوشل میڈیا یوزرس کا رویہ بھی بدلا ہوا نظر آرہاہے۔ حاجی علی ،تین طلاق اور مسلمانوں سے متعلق دیگر معاملے میں یہ سب چیخ چیخ کر مسلم خواتین کی برابری اور ان کے حقوق کی باتیں کررہے تھے لیکن سبریما لامندر کے سلسلے میں ان کی زبانیں خاموش ہیں۔ ہندو خواتین کو مندر میں جانے کا حق ملنے پر ان کی حمایت نہیں کررہے ہیں ۔ سیکولر ملک میں مسلم خواتین کو یکساں حق دینے کی بات کرنے والے ہندو خواتین کو یکساں حق نہیں دینا چاہتے ہیں ۔حد یہ ہوگئی ہے کہ ٹی وی اینکرس بی جے پی اور ہندتوا تنظیموںکے اقداما ت پرتشدد احتجاج اور عدلیہ کی توہین پر ان کی تنقید ، مخالفت اور مذمت کرنے کے بجائے کیرل کی سرکار سے ہی سوال کررہے ہیں کہ یہ فیصلہ جب ہندﺅوں کے عقیدے کے خلا ف تھا تو پھر نظر ثانی کی درخواست عدالت میں کیوں دائر نہیں کی گئی۔ ریاستی کو یہ فیصلہ نافذ کرنے کیلئے اتنی جلد بازی کیوں ہے ؟۔
کچھ اینکرس،جرنلسٹ اور سوشل میڈیا صارفین پرتشدد احتجاج کو منظر عام پر لانے اور بی جے پی کادوہرا چہرہ بے نقاب کرنے کے بجائے یہاں بھی مسلمانوں کا سہارا لیکر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجدوں میں بھی خواتین کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ آخر اس کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ کیوں نہیں آتاہے ،مسجدوں میں عورتوں کے عدم دخول پر آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی ہے، صرف مندر میں ہی عورتوں کے داخلہ کی فکر کیوں ہے ،ہمیشہ ہند و مذہب میں ہی مداخلت کیوں کی جاتی ہے ۔ایسے بھکتوں اور ٹی وی اینکرس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ بنیادی جانکاری حاصل کرلیں یا جو لوگ وہاں جاتے ہیں انہیں بتادیں کہ اسلام میں مسجد کے اندر خواتین کا نماز پڑھنا اور داخل ہونا کبھی ممنوع نہیں رہاہے ،دنیا بھر کی متعدد مساجد میں خواتین نماز پڑھتی ہیں،ہندوستان کی بھی بہت ساری مساجد میں خواتین کیلئے نماز کا اہتمام ہوتاہے ۔خانہ کعبہ میں مردو خواتین ساتھ نماز پڑھتے ہیں ۔ یہ خواتین پر انحصار کرتاہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے یا مسجد کا انتخاب کرے ۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیئے کہ اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے ۔مسلم معاشرہ اور سوسائٹی میں خرابی ہوسکتی ہے لیکن اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
( کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹراور تجزیہ نگار ہیں )
stqasmi@gmail.com