کاشف شکیل
لکھ دیجیے گا یہ میری لوح مزار پر
انسانیت کے درد کو انسان لے گیا
زندگی کی کتاب کا ہر صفحہ اپنے چہرے پر مختلف نقوش رکھتا ہے۔ کتاب زیست کے بعض صفحات کے نقوش اس قدر جاذب ہوتے ہیں کہ وہ آئندہ صفحات پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔
سن 2018 کے ستمبر کی بات ہے۔ ایک دن میں مہاراشٹر کالج میں اپنے کلاس روم میں تھا۔ پروفیسر اظفر صاحب کا اردو کا لکچر تھا۔ سر نے کلاس سے روانہ ہوتے وقت ہم لوگوں سے کہا کہ گھر جانے سے قبل ایک بار آپ سب لوگ آڈیٹوریم ضرور جاؤ۔ وہاں خطاطی پر محاضرہ ہو رہا ہے۔
یہ سن کر میں سیدھا آڈیٹوریم پہنچا۔ سب سے پہلے محاضر کا چہرہ دیکھا تو فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ بزرگ نما جوان ہیں یا جوان نما بزرگ۔ سنجیدہ شخصیت، چہرے پر علمی وقار، نگاہوں میں خود اعتمادی، میانہ قد، صحتمند جسم کہ پچاس پچپن برس کی عمر میں بھی آثار شباب ہویدا، مجسم سادگی، پیکر خلوص، پینٹ شرٹ زیب تن کیے ہوئے، تراشیدہ ریش، ہونٹوں پر ہلکی مونچھوں کا غلاف، لبوں کے گلاب بوئے تبسم سے معطر، آنکھوں پر عینک۔ بالوں کا رنگ ایسا کہ شب جانے کو ہے اور صبح آنے کو، نہ کامل سیاہ نہ بالکل سفید، سر کے بال قدرے خزاں آلود ہوگیے تھے اس لیے پیشانی نے سر پر اپنا قبضہ بڑھا لیا تھا۔ سجدوں کے نور سے روشن جبین۔
ڈاکٹر صاحب اپنے محاضرے میں مگن تھے۔ بڑی خوش اسلوبی سے خوش نویسی کے گر سکھلا رہے تھے۔
میں تھوڑی دیر آڈیٹوریم میں رہا اور لکچر سے مستفید ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔
کچھ دنوں بعد یکم اکتوبر کو اچانک ناسازی طبع کی بنا پر مجھے ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونا پڑا۔ اسی دن میں نے اپنے معالج ڈاکٹر کے رویے سے متاثر ہوکر ایک تحریر لکھی جس کا عنوان تھا “ڈاکٹروں کی ڈکیتی”. میں نے اسے فیسبک پر اپنی ٹائم لائن پر نشر کیا۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس پر ڈاکٹر ریحان انصاری صاحب کا ایک طویل تبصرہ ہے جس میں بہت سی اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ بعدہ میسینجر کال کے ذریعے آپ سے لمبی گفتگو ہوئی اور آپ نے بھیونڈی میں اپنی کلینک پر آنے کی دعوت دی۔
دعوت میں خلوص تھا سو طبیعت بے ساختہ تیار ہوگئی اور قدم شوق کی منزل طے کرنے لگے۔
اگلے روز جب میں آپ کی کلینک پہنچا تو آپ نے بڑے تپاک سے مجھے گلے لگا لیا۔ ایسا لگا کہ ساری محبتیں سینہ بسینہ انڈیل رہے ہوں۔
گفتگو کا مشفقانہ انداز بڑا من موہنا تھا۔ چائے نمکین سے ضیافت کی۔ کلینک ہونے کی بنا پر بیماروں کی ایک لمبی قطار تھی۔ اس بنا پر میں نے مختصر سی گفتگو کے بعد رخصت چاہی تاکہ مریضوں کو پریشانی نہ ہو۔ مگر آپ نے باصرار مجھے روکے رکھا اور کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ بات بھی ہوتی رہے اور مریضوں سے بھی نمٹتے رہیں۔
ڈیڑھ دو گھنٹے ملاقات کا دورانیہ رہا۔ اس میں ڈھیر ساری باتیں ہوئیں۔ آپ نے اپنے تجربات کا حاصل بتایا۔ میدان طب کے پیچ و خم سمجھائے۔ حالات حاضرہ کو بھی موضوع سخن بنایا۔ اپنے مشاہدات، تجزیات اور تجربات کے بیکراں سمندر کے ساحل کا نظارہ کروایا۔
تذکرۃ الرجال چھیڑا تو مجاہد تعلیم مولانا مختار احمد ندوی بانی جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کا ذکر خیر کیا۔ ان کی زیر ادارت نکلنے والے مجلہ “البلاغ” میں طب و صحت کے تحت آپ کا جو مستقل کالم تھا اس سلسلے میں بھی آپ نے بتایا۔ ادبا و شعراء کے تذکرے ہوئے۔ آپ نے ایک نیا انکشاف کیا کہ آپ اردو رسم الخط اور خطاطی پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ (شاید آپ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے دنیا کے پہلے فرد ہیں۔)
آپ نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔ خامیوں کی اصلاح کے ساتھ عمدہ نصیحتوں سے بھی نوازا۔
ہمہ صفت موصوف کسے کہتے ہیں یہ ڈاکٹر ریحان انصاری صاحب سے ملاقات پر پتہ چلا۔
اس پہلی باقاعدہ ملاقات کے بعد تعلقات پختہ تر ہوتے گیے۔ فیسبک کے ذریعے لگ بھگ روزآنہ اس تعلق کی تجدید ہوتی رہی۔ میری فیسبک پوسٹوں پر آپ کے حوصلہ افزا تبصرے مجھے ناقابل بیان خوشی دے جاتے۔
میری والدہ کی طبیعت خراب تھی۔ کئی ڈاکٹرس سے رجوع کیا مگر فائدہ نہ ہوا۔ آپ کی کلینک پہنچا آپ نے انھیں دواؤں کے ساتھ کچھ اذکار بھی بتائے اور تقریبا بیس منٹ تک صحت کے حوالے سے نصیحت بھی کی۔ الحمدللہ کافی افاقہ ہوا۔ بعدہ والدہ کی صحت کا جب بھی کوئی مسئلہ ہوا میں نے آپ کو فون کیا اور آپ نے اس کا حل بتایا۔ ابھی دس پندرہ روز قبل ہی میری اور والدہ کی ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور آپ نے حکیمانہ مشورے بھی دیے۔ میں آپ کا یہ احسان بطور خاص کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
بارہ جنوری 2019 کی شام پانچ بجے اچانک خبر موصول ہوئی کہ ڈاکٹر ریحان انصاری ہمارے درمیان نہیں رہے۔ خبر تھی یا ہزاروں واٹ کا کرنٹ۔ عجیب سا جھٹکا محسوس ہوا۔ دل نے کان کو جھٹلایا۔ دماغ نے مزید تصدیق چاہی۔ کئی افراد سے رابطہ کیا۔ فیسبک اور واٹساپ دیکھا۔ بالآخر اس تلخ حقیقت کو قبول کرنا پڑا کہ واقعی ڈاکٹر ریحان انصاری نے جہان فانی کو الوداع کہہ دیا ہے۔ حواس پر قابو پاتے ہوئے اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھی۔
اب میں تھا اور مرے آنسو۔ حلق خشک اور اشک رواں، دھڑکن تیز اور آہ بلب۔
اک روشنی تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔
گھر والوں کو خبر دی تو پورے گھر پر افسردگی کا عالم طاری ہوگیا اور ان کی تازہ یادیں ذہن کے پردے پر نمودار ہوگئیں۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
لاریب آپ اپنے عہد کے منفرد شخص تھے۔ آپ ایک اچھے صحافی، بہترین ادیب ، حاذق طبیب ، دانا مصنف ، ماہر خطاط، خوش نویس کاتب ، با بصیرت حکیم ، غیر جانبدار تجزیہ نگار اور بے لوث مجاہد اردو ہونے کے ساتھ کامل معنوں میں انسان تھے۔ اس حیثیت سے کہ بشمول تواضع و انکساری، شفقت و محبت، ہمدردی و غمگساری اور اخوت و بھائی چارگی جملہ اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ صوم و صلاۃ کے پابند اور باشرع ہونے کے ساتھ انسانی اقدار کا بے حد پاس و لحاظ کرتے تھے۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
آپ کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ فیض نستعلیق فونٹ کے خالق ہیں۔ آپ نے چار سالہ شبانہ روز جہد مسلسل کے بعد اس فونٹ کو تخلیق کیا۔ اور اس کا نام اپنے کیلی گرافی کے استاد خطاط الہند فیض مجدد لاہوری صاحب کے نام پر “فیض لاہوری نستعلیق فونٹ” رکھا۔ اس طرح سے آپ نے عروس اردو کو ایک نیا جامہ عطا کیا۔
آپ نے ہر ممکن سطح پر مذہب، قوم اور اردو کی خدمت کی۔ کتابیں تصنیف کیں، کالمز لکھے، تدریس کی، محاضرے دیے، وقت کا صحیح ترین استعمال کیا۔
شانتی نگر بھیونڈی میں آپ کا مطب تھا جہاں گزشتہ 27 سالوں سے خدمت خلق کر رہے تھے۔ حق گوئی و بےباکی کو اپنا آئین بنا رکھا تھا۔ حکومت وقت پر سخت تنقید کرتے تھے۔ جو دیکھتے تھے وہی بولنے کے عادی تھے۔
آپ کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
بلاشبہ علم و ادب کی مجلسیں آپ کو کبھی فراموش نہ کر سکیں گی، آپ ہمیشہ یاد رہیں گے، آپ ہمیشہ یاد آتے رہیں گے۔
جب بھی خطاطی اور رسم الخط کا نام آئے گا آپ کا ذکر ضرور ہوگا۔
اللہ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
ورق تمام ہوا مدح اب بھی باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے