شیخ گلاب صفِ اول کے مجاہد آزادی اور چمپارن ستیہ گرہ کے بانی

محمد انعام الحق قاسمی
جائے پیدائش :
شیخ گلاب کی پیدائش 1857ء گاؤں چاند بروا ساٹھی بلوک ، مغربی چمپارن۔ بہار میں ہوئی۔ یہ گاؤں بتیا (مغربی چمپارن کا ہیڈ کوارٹر) سے تقریباً 35 کیلومٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع ہے۔ آپ کا تعلق ایک خوشحال اور متمول خاندان سے تھا۔ آپ کے خاندان والے نسبتاً دینی مزاج کے حامل تھے لیکن سماجی طور پر اِس خاندان کے افراد اُس پورے علاقے میں مشہور و معروف تھے۔ آپ کی نشو و نما ایسے ماحول میں ہوئی جس وقت ہرطرف انگریزوں کا ظلم و استبداد بھارتیوں کے تئیں شباب پر تھا۔ اسی ماحول میں آپ نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ شیخ گلاب کی حیثیت ایسی تھی کہ ہر کوئی آپ کی بات پر لبیک کہنے کو تیار رہتا تھا۔ آپ طبعی طور پر ایک انصاف پسند و نرم خو انسان تھے وہ کبھی بھی ظالموں کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔
قریہ چاندبروا آج بھی نسبتاً علم و دانش کا گہوارہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اِس چھوٹے سے گاؤں میں کافی تعداد میں سرکاری اسکول کے اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ علمائے دین و حفاظ کی بھی یہاں ایک اچھی خاصی تعداد یہاں پر پائی جاتی ہے۔علاوہ ازیں چند ریسرچ اسکالر بھی اِس گاؤں میں پیدا ہوئے ہیں جو آج بھی بھارت کی بڑی بڑی یونیورسیٹیوں اور کالجوں میں علمی و تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
شیخ گلاب کے ورثاء :
شیخ گلاب کے ورثاء کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہیں ۔ وے لوگ شیخ صاحب کی آزادی ء ہند کی جد و جہد، عظیم چمپارن ستیہ گرہ کی تحریک اور جان و مال کی قربانی کے کارناموں کی حفاظت کرنے اور اسے اپنی نسل میں باقی رکھنے اور حکومتی سطح تک اس کی نمائندگی کرانے میں بری ناکام رہے ہیں۔ البتہ ان کے ایک پڑپوتے نے ان کے نام پر (گلاب میموریل کالج) بیتیا شہر میں قائم کیا ہے جو ایک حد تک اپنے تعلیمی مشن میں کامیاب لگتا ہے۔
چمپارن میں نیل کی زراعت اور انگریزی سامراج کے مظالم:
19 ویں صدی کے دوران ضلع چمپارن کے کسانوں کو برطانوی سامراج نےنیل کی کاشتکاری کرنے پر مجبور کردیا بناء بریں ان کی زمینیں بانجھ ہوگئیں۔ اُن کو پیداوار کا کافی کم حصہ دیا جاتا تھا، علاوہ ازیں 66 قسم کے مختلف ٹیکس اُن پر عائد کئے گئے تھے۔ نوآبادی طاقتور ظالم حاکم اُن پر طرح طرح کے مظالم ڈھایا کرتے تھے۔
شیخ گلاب 1905-1909ء کے دوران چمپارن میں نیل کی زراعت کے خلاف تحریک کے اہم شخصیت اور اسی کے ساتھ چمپارن ستیہ گرہ کے بانی تھے۔
جب انگریزی سامراج کے مظالم انتہاء کو پہنچ گئے تو سنہ 1905ء میں شیخ گلاب نے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کو متحرک کرنے کے بعد برطانوی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگئے اور بعد میں اس تحریک کو چمپارن کے دوسرے حصوں میں پھیلایا۔ جیل میں انہیں سخت تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی بہت ساری زمینیں قرق کرلی گئیں۔اس تحریک میں پیر محمد مونس اپنے مشوروں اور ہدایات کے ساتھ ان کے ہمسفر ہوگئے۔ شیخ گلاب نے گاندھی کو چمپارن بلاکر اپنا ستیہ گرہ شروع کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
شہخ گلاب کی کوششوں و شکایات کے نتیجے میں سنہ 1908ء ڈبلیو آر گورلے کمیٹی قائم کی گئی تاکہ ان مظالم و تشدد اور زیادتیوں کی رپورٹ تیار کی جائے جو بھارتی کسانوں پر نیل کی زراعت کے سلسلے میں روا رکھی جاتی تھی۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ رپورٹ منظرعام پر نہ آسکی۔
آزادیِ ہند و ستیہ گرہ کی جد و جہد:
آزادیِ ہند کی تاریخ میں ’’ چمپارن ستیہ گرہ ‘‘ کی تحریک کو ایک نمایاں ترین مقام حاصل ہے، اور آزاد بھارت کا تقریباً ہر پڑھا لکھا انسان اس سے واقفیت رکھتا ہے، البتہ اس پوری تحریک کو صرف ایک شخص کے دائرہ میں سمیٹ دیاگیا ہے، اور یہ کام بھارت کےنام نہاد دانشوران و مؤرخین نے کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب بھی چمپارن ستیہ گرہ کا ذکر آتاہے تو زبانوں پر صرف کرم چند گاندھی یا دوچار اور لوگوں کا ہی نام آتاہے، حقیقت تو یہ ہے کہ دوچار لوگ بھی وہ ہیں، جو یا تو اس تحریک سے وابستہ ہی نہیں تھے یا انھیں ان کے حقیقی کردار سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چمپارن ستیہ گرہ تحریک گاندھی کی ملک گیر قیادت کا نقطۂ آغاز تھی اور وہیں سے انھیں وہ شروعات ملی۔ چمپارن ستیہ گرہ کے بغیر گاندھی کی تحریک آزادی ہند مکمل طور پر بے معنی ہے کیونکہ اسی تحریک سے وہ آگے چل کر گاندھی مہاتما سے ملقب ہوئے۔ یہ بھی انصاف پسندی نہیں ہے کہ ایک پوری تحریک کو محض ایک یا چند ایک شخصیتوں کے گرد سمیٹ کر رکھ دیا جائے، نہ یہ چمپارن ستیہ گرہ تحریک کے ساتھ انصاف ہے، نہ وہاں کے ان لوگوں کے ساتھ جنھوں نے انگریزی حکومت کے دوران ناجائز ٹیکس وصولی سے لے کر اپنی زمین جائیداد تک گنوائی اور سالہا سال کال کوٹھریوں میں بند رہے۔ چمپارن ستیہ گرہ کی اس تحریک سے متعلق ایک اہم ترین نام شیخ گلاب کا ہے، بعد کے دنوں میں نہ تو خود ان کے ورثا و اہلِ خاندان نے ان کی قربانیوں اور کارناموں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی، اور نہ چمپارن ستیہ گرہ پر لکھنے والے مؤرخین نے ان کے ساتھ انصاف کیا؛ حالانکہ اس تحریک سے متعلق جو اصل حقائق ہیں، انھیں جاننے اور پڑھنے کے بعد پتا لگتا ہے کہ گاندھی جی کا چمپارن میں ورود تو بہت بعد میں ہوا، اس سے پہلے کم از کم دو دہائیوں سے وہاں کے اصلی باشندے اپنے عزم و حوصلے اور جذبۂ قربانی کی بدولت انگریزی حکومت سے برسرِ پیکار تھے. شیخ گلاب وہاں کے ہندو مسلم تمام کسانوں کے متفقہ نمائندہ اور رہنما تھے، اور ان کے ساتھ کئی دیگر ہندو و مسلم مقامی لیڈران شریکِ عمل تھے، ان لوگوں نے گاندھی کی ستیہ گرہ تحریک سے پہلے ہی نیل کی کھیتی کے نام پر انگریز ی حکومت کے جبر سہے، ناحق ظلم و زیادتی کو برداشت کیا، ناجائز ٹیکس وصولی کی مار سہی، کھیتی کرنے کے لیے پانی تک کا ٹیکس ان سے وصول کیا گیا، جب ان لوگوں نے حکومت کی مخالفت کی، تو اکیلے شیخ گلاب کی 60؍ بیگھہ زمین قرق کرلی گئی، انھیں پانچ سال تک سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا، اکیلے انھیں ہی نہیں؛ بلکہ ان کے گھر کے دیگر افراد بھی سخت ترین سرکاری مظالم کا شکار ہوئے، گاندھی تو ان تمام سانحات کے گزرنے کے بعد چمپارن پہنچے تھے، ان کے لیے زمین بھی شیخ گلاب اور ان کے ساتھیوں نے ہی ہموار کی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ گاندھی جی کی چمپارن ستیہ گرہ تحریک کے بعدچمپارن کے کسانوں پر سے اس جبر و ظلم کا سلسلہ تھما، جو لمبے عرصے سے جاری تھا، مگر اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے شیخ گلاب، خود چمپارن کے لوگو ں اور وہاں کے مقامی رہنماؤں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ آزادی کے بعد بہار یا مرکز میں برسرِ اقتدار آنے والی مختلف حکومتوں نے چمپارن ستیہ گرہ تحریک سے جڑی چیزوں، افراد و شخصیات سے متعلق کچھ نہ کچھ کام کیا ہے، مگر افسوس ہے کہ اس پورے منظرنامے پر شیخ گلاب کا کہیں نام تک نہیں ہے، اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے یا کیا تھی، اس کی وضاحت چنداں ضروری نہیں، کہ اب تو آزادیِ ہند کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی پوری تاریخ ہی دوبارہ لکھی جا رہی ہے، جس میں مسلمان مجاہدینِ آزادی اُسی طرح حاشیے پر رکھے جا رہے ہیں، جس طرح موجودہ وقت میں مسلمان اس ملک کے حاشیائی شہری بنا دیے گئے ہیں۔
چمپارن ستیہ گرہ اور تعصب کا عینک:
جب بھی چمپارن کی تاریخ کا تذکرہ آتاہے تو راج کمار شکلا کے نام کو نیل کی کھیتی کے خلاف تحریک کے ساتھ جوڑ دیاجاتاہے ، حالانکہ اِس شخص کا اس تحر یک سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔یہ تو شیخ گلاب ہی تھے جنہوں نیل کی زراعت کی مکمل طور پر مخالفت کی ۔
شیخ گلاب کی طرح بہت زیادہ لوگ ہیں جیسے شیتل رائے ، پیر محمد مونس، ہرونس سہائے، حافظ دین محمد، سنت راوت، حافظ محمد ثانی، را دھے مل موتانی اور خینھر رائے جنہوں فعال طورپر ان تحریکوں کے حصہ رہے لیکں تعصب کا عینک پہن کر انہیں اِن تار یخی کارناموں سے خارج کردیا گیا، چمپارن کے لوگ جن کے لئے شیخ گلاب اور اُن کے رفقاء نے برطانوی سامراج کے خلاف لڑا ہے اسے بھول گئے۔
جو قوم اپنے اکابرین کو بھلا دیتی ہے تاریخ کے اوراق سے اس کا بھی نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے۔ ملک کی آزادی میں سرزمین چمپارن کے باشندگان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور چمپارن کی سرزمین انقلابی سرزمین ہے۔جس نے ملک کو ہزاروں قیمتی لال و گوہر عطا کیا ہے۔
ضلع چمپارن (مغربی و مشرقی)
جغرافیائی محل وقوع (چوحدی):
صوبہ چمپارن (مغربی و مشرقی) ریاستِ بہار کا ایک زرخیز ضلع ہے جو 1866 میں ایک ضلع کی شکل میں وجود میں آیا۔ اس کے شمال میں نیپال کے پہاڑی سلسلے، جنوب میں ضلع مظفر پور اور گوپال گنج، مشرق میں شیوہر و سیتامڑھی، مغرب میں اتر پردیش کا پڑرونا اور دیوریا ضلع واقع ہیں۔ اِن دونوں ضلعوں کا ٹوٹل رقبہ 9196 مربع کیلومٹر ہے۔
چمپارن کا انٹرنیشنل بارڈر نیپال سے لگتا ہے جو تجارتی کا اہمیت کا حامل ہے۔ بھارتیوں کی فری انٹری کیلئے کئی بارڈر پوائنٹس کھلے ہوئے ہیں جن میں رکسول (بیرگنج)، سکٹا، بگہا- 2 ، رام نگر، گوناہا، مینا ٹانڈ ، والمیکی نگر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آج سے تقریباً 35 – 40 سال قبل اِن بارڈر پوائنٹس کی بڑی اہمیت تھی، کیونکہ غریب اور امیر سبھی لوگ یکساں طور پر اپنی شادیوں اور خاص تقریبات کیلئے مارکٹنگ یہیں سے کرتے تھے اور عام خیال تھا کہ یہاں سامان سستے ملتے ہیں۔ لیکن اب رجحان کلی طور پر بدل گیاہے اور لوگوں کا خیال ہے یہاں بھارت ہی کے بنے سامانوں کا لیبل بدل کر چیٹنگ کی جاتی ہے۔ یہ انٹرنیشنل بارڈر مجرمین، ڈاکوؤں، قاتلوں اور ڈرگ مافیا کیلئے محفوظ جگہ تصور کیا جاتا ہے۔
ہیڈ کوارٹر: مغربی چمپارن کا ہیڈ کوارٹر ۔۔ بیتیا جس کا فاصلہ پٹنہ سے 210 کیلو ہے اور مشرقی کا موتیہاری جو پٹنہ سے 175 کیلو کی دوری پر واقع ہے۔
دریائیں: گنڈک، سِکرہنا، باگمتی، لال بیگیا، تِلاوی ، کچنا، موتیا، تیور، دھنوتی وغیرہ اس کے علاوہ اور بہت ساری چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جو ہمالیا کی گود سے نکلتی ہیں اور عام دنوں میں خشک رہتی ہیں لیکن برسات کے موسم میں باڑھ آنے کی وجہ سے خطرناک اور جان لیوا ہوجاتی ہیں۔