ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
آپ کو کیا اب بھی لگتا ہے کہ الیکشن میں ملک کے بنیادی ایشوز پر بات ہوگی، جبکہ حکومت کی ناکامی، وعدہ خلافی اور نااہلی کی وجہ سے ملک میں جو ماحول بن رہا تھا۔ پلوامہ حملہ سے وہ یکایک بدل گیا ۔ بھاجپا اور مودی نے اپنے تابعدار ٹی وی چینلس کی مدد سے عوام کی توجہ پلوامہ اور بالاکوٹ کی طرف منتقل کر دی ۔ لیکن بی جے پی کا پورا دھیان اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے پر رہا ۔ جس وقت پلوامہ حملہ کی خبر نے پورے ملک کو صدمہ میں لا دیا تھا اس وقت وزیر اعظم جم کاربیٹ پارک میں فوٹو شوٹ کرا رہے تھے ۔ اس کے بعد ناشتہ کیا پھر موبائل سے ردرپور کی ریلی سے خطاب کیا ۔ بتایا یہ گیا کہ نیٹ ورک کی خرابی کی وجہ سے وزیر اعظم نریندرمودی کو اس واقع کی اطلاع تاخیر سے ملی ۔ سوال یہ ہے کہ خراب نیٹ ورک میں موبائل کے ذریعہ ریلی کو خطاب کرنا کیسے ممکن ہوا ۔ وہیں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور دہلی ریاست کے صدر منوج تیواری اسی دن ایک کلچرل پروگرام میں رات آٹھ بجے تک ناچتے گاتے دکھائی دیئے ۔
پلوامہ پر بی جے پی کی سنجیدگی دیکھنے لائق رہی ہے ۔ فوجیوں کی چتا کی راکھ ٹھنڈی کیا کئی جنازے گھر بھی نہیں پہنچے تھے کہ پارٹی صدر جھانسی میں ووٹ مانگ رہے تھے ۔ بھاجپا کے جو ممبران فوجیوں کی میت میں شریک ہوئے ان کا حال میڈیا دکھا چکا ہے ۔ رہا سوال انتہائی حساس مانے جانے والے نریندرمودی جی کا تو انہوں نے اپنا کوئی پروگرام اس واقعہ کی وجہ سے رد نہیں کیا ۔
اسی بیچ انہوں نے تمل ناڈو میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کیا ۔ ساوتھ کوریا سیول امن انعام حاصل کیا، انعام کے ساتھ ملی ایک کروڑ تیس لاکھ کی رقم کو گنگا ندی کی صفائی کے لئے دیا ۔ اسکان ٹیمپل جا کر گیتا کا رسم اجراء کیا اور نہ جانے کتنی اسکیموں اور پروجیکٹوں کا ربن کاٹا۔ یہاں تک کہ اس مسئلہ پر بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں شریک ہونا انہوں نے گوارہ نہیں کیا ۔ جبکہ ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں نے دہشت گردی سے نبٹنے کیلئے سرکار کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ۔ کانگریس کی پرینکا گاندھی نے اپنی پریس کانفرنس رد کردی تھی اور پارٹی نے گجرات میں ہونے والی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کو اس واقعہ کی وجہ سے پیدا ہوئی بحرانی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ملتوی کر دیا ۔
نیم فوجی دستوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے فوراً بعد این ڈی ٹی وی کے رویش کمار سے بات کرتے ہوئے جموں کشمیر کے گورنر ست پال ملک نے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ دہشت گردانہ واقعہ ہونے کے بارے میں متنبہ کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے فوجیوں کی نقل مکانی میں حفاظتی چوک ہونے کی بات مانی تھی ۔ حکومت نے اس کی جانچ کر کسی کی ذمہ داری طے نہیں کی اور نہ ہی کسی سیاسی رہنما نے اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ۔ جبکہ 26/11 کو ممبئی میں ہوئے دہشت گرد حملہ کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ نے اخلاقی طور پر استعفیٰ دیا تھا ۔ اس کے برعکس بی جے پی نے ملک میں جو ماحول بنایا اس سے جہاں تہاں کشمیریوں پر حملے ہوئے ۔ کئی کالجوں اور ہوٹلوں میں” ڈاگ اینڈ کشمیری ناٹ الاوڈ” کے بورڈ تک لگا دیئے گئے ۔ خود وزیر اعظم کو کشمیریوں کو نشانہ بنانے کے خلاف بیان دینا پڑا ۔ لیکن عوامی جلسوں میں ان کا یہ کہنا کہ جو آگ تمہارے سینے میں لگی ہے وہ آگ میرے سینے میں ہے، چھوڑیں گے نہیں گھر میں گھس کر ماریں گے، فوج کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے وغیرہ ان کے وقار سے میل نہیں کھاتا ۔ اسی طرح کی زبان کا استعمال بی جے پی کے اراکین بھی کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان لوگوں کے خیال کو تقویت ملتی ہے جن کا کہنا ہے کہ عوام کے بی جے پی مخالف جذبات کا رخ موڑنے کے لئے پلوامہ اور بالاکوٹ کے واقعات کا اہتمام کیا گیا ۔
سینئر صحافی اورملیش کا یہ کہنا کافی حد تک حقیقت پر مبنی لگتا ہے کہ بر سر اقتدار بی جے پی خاص طور سے مودی اور شاہ کا تین طرح کے مدوں کے استعمال میں کوئی جوڑ نہیں ہے ۔ پہلا کوئی واقعہ چاہے حادثہ ہی کیوں نہ ہو اگر اس میں مذہب یا ذات کا اینگل آجاتا ہے تو یہ برسر اقتدار پارٹی اس کا اپنے حق میں فوراً استعمال شروع کر دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر گودھرا جسے کمشنر نے حادثہ بتایا تھا ۔ اس کا پورے گجرات میں کس طرح استعمال ہوا یہ چھپا نہیں ہے ۔ دوسرا یہ اپنی ناکامیوں کو کامیابی کا اسمارک بنا کر پیش کرتی ہے ۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور تمام آئنی اداروں کا مفلوج ہو جانا اس کا ثبوت ہے ۔ تیسرے تشدد اور دہشت گردی جس کی تازہ مثال پلوامہ ہے ۔ جس کے بعد ایئر اسٹرائک کے بہانے راشٹرواد راشٹرواد کرتے ہوئے مودی شاہ الیکشن میں سیٹیں نکال لینے کا منصوبہ بنا چکے ہیں ۔ اس لئے وہ نہ روزگار کی بات کر رہے ہیں ۔ نہ کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کے بارے اب انہیں کچھ کہنا ہے ۔ فصل بیمہ کے نام پر بنکوں کے ذریعہ کسانوں کے لٹنے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوگا ۔ مودی حکومت کے پانچ سال میں تعلیمی شعبہ کا جو کباڑا ہوا ہے ۔ اس کی کوئی سدھ لینے والا نہیں ہے ۔ کالج بغیر اساتذہ کے چلتے رہے یا پھر لیکچر کی بنیاد پر یا ٹھیکہ کے اساتذہ سے کام لیا جاتا رہا ۔ 13 پوانٹ روسٹر سسٹم کے خلاف ایک سال پہلے بھی فرمان لایا جا سکتا تھا ۔ ایسا کرنے پر یونیورسٹیوں، کالجوں میں حکومت کو نوکری دینی پڑتی جس سے وہ بچ گئی ۔
یہ حکومت پانچ سال میں نئی تعلیمی پالیسی نہیں لا سکی ۔ امیر لوگوں کے لئے انسٹی ٹیوٹ آف امی ننس کا ڈرامہ کیا لیکن غریب بچوں کو اچھا کالج ملے اس کے لئے وزیراعظم نے کوئی کوشش نہیں کی ۔ زرعی شعبہ کا بھی برا حال ہے ۔ انڈین کاونسل آف ایگریکلچر ریسرچ کے ملک بھر میں 103 ادارے ہیں ان میں سے 63 کے پاس 2سے 4سالوں سے باقاعدہ ڈائرکٹر نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ دہلی کے پوسا انسٹی ٹیوٹ میں پچھلے چار سال سے ڈائرکٹر کی تقری نہیں ہو سکی ہے ۔ 23 لاکھ آدی واسیوں کی جنگل سے بے دخلی، اس پر سرکار کی خاموشی آدی واسیوں اور کارپوریٹ کے بیچ کے دنگل کی کہانی بیان کرتی ہے ۔ کارپوریٹ کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ سپریم کورٹ کے جس فیصلہ سے آدی واسیوں پر بے دخلی کی تلوار لٹکی تھی ۔مرکزی حکومت اس معاملہ کی چار سماعتوں سے پر اسرار طریقہ سے غائب تھی ۔ لیکن انتخاب سے عین پہلے آدی واسیوں کے اجڑنے سے ان کے ووٹ سے بے دخل ہونے کے امکان کو سونگھتے ہوئے وہ 27 فروری کو سپریم کورٹ میں نمودار ہو گئی ۔ اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ پر چار ماہ کے لئے روک لگا دی ۔ جبکہ پہلا حکم 2016 میں جاری کیا گیا تھا ۔
کانگریس سمیت اپوزیشن رفائیل کے مدے کو تو زور شور سے اٹھا رہی ہے لیکن عوام سے جڑے بنیادی مسائل الیکشن کی بحث سے غائب ہیں ۔ مثلاً بے روزگاری اپنی انتہا پر ہے ۔ جانوروں، گوشت، ہڈی اور چمڑے کے کاروباریوں کی حالت بہت خراب ہے ۔ جبکہ گزشتہ پانچ سال میں گوشت کے ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے ۔ تعلیمی نظام چرمرا گیا ہے ۔ قانون، انتظامیہ کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے ۔ برسراقتدار جماعت کے لوگ قانون شکنی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ انہیں قانون کا کوئی خوف نہیں ہے ۔ زراعت میں اصلاح کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ اس کی وجہ سے کسانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔ دلت، اقلیت اور آدی واسی طبقہ کے لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں ۔ بنکوں سے لوگوں کا بھروسہ اٹھ رہا ہے ۔ ہر کام کے لئے بنک کو فیس ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔جہاں سرکار کا دخل ہے ان شعبوں میں مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ۔ جس کا اثر ہر چیز پر پڑ رہا ہے ۔ ملک غیر ملکی قرضوں میں ڈوبتا جا رہا ہے ۔ یہ سال در سال بڑھ رہا ہے ۔ بد عنوانی اور گھوٹالے ملک کا مقدر بن گئے ہیں ۔ جس سے نجات کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ برسراقتدار پارٹی نے سچ سے بھاگنے اور ووٹ پانے کے لئے وکاس کے بجائے راشٹرواد کا راستہ تلاش کر لیا ہے ۔ جس کا مقابلہ عوام کے بنیادی مسائل کو الیکشن میں بحث کا موضوع بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے اس پر اپوزیشن کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔