دور حاضر میں امت مسلمہ پر بیتے ہوئے ایام

عبد الرزاق بنگلوری

گزشتہ دو تین صدی سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کرنے کی جو مہم چلائی جارہی ہے، اس میں روز افزوں ترقی ہوتی جارہی ہے، اس میں سب سے بڑی سازش یہ رچی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو دین حق سے دور کیا جائے اور جب دین سے محبت کا خاتمہ ہوجائے گا تو پھر باطل طاقتوں کے جال میں انسان بہت ہی آسانی کے ساتھ پھنس جائے گا بالخصوص عوام الناس کے اندر سے جذبۂ اخلاص ومحبت و عقیدت اور شعبۂ اخلاق و جذبۂ اخوۃ کو برطرف کیا جارہا ہے
ہم کون ہیں اور ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ہم تو وہ ہیں جس کا ایک سرا براہ راست نبوت محمدی سے اور دوسرا سرا آپ (صلعم) کی زندگی سے ملتا ہے، ہم تو صفہ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے علم حاصل کرنے والے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیروکار ہیں، جنہوں نے بھٹکتی انسانیت کو ھدایت کی راہ دکھلائی اور سسکتی انسانیت کو تسکینِ قلب عطاء کی، اور اخلاق و کردار کے وہ اعلی ترین روایات قائم کئے جنہیں آج تک کسی انسان نے سوچا بھی نہ تھا –
ہم مسلمان ہیں، دین اسلام پر چلنا ہمارے لئے فلاح دارین ہے، لیکن ہم نے مدارس سے رشتہ توڑلیا اور ہماری مساجد سے وابستگی ختم ہوگئی اور علماء کرام سے ہم نے کنارہ کشی اختیار کر لی، حالانکہ انہیں علماء کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ( ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ترجمہ : کیا جاننے والے اور نہ نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں؟ اس کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے جاہلوں اور نادانوں میں نئی زندگی بخش دی اور ان بوریہ نشینوں کے مقام ومرتبہ کا ڈنکا بجادیا ( وَیَرْفَعِ اللّهُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوتُوا الًعِلْمَ دَرَجَاتٍ ) ترجمہ : اللہ تعالٰی ایمان والوں اور علم والوں کا درجہ بلند کرتا ہے،، اس آیت کے ذریعہ ان کی رفعتوں اور بلندیوں میں چار چاند لگا دیئے، ( وَجَلْنَاھُمْ اَئِمَّةً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ) ترجمہ : اور ہم نے ان کو امام بنایا کہ وہ ہمارے حکم سے لوگوں کو راہ دکھلاتے ہیں،، اس کے ذریعہ انہیں امامت و رہبری کی سند عطاء کردی گئی، اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ (من سلک طریقا یلتمس فیه علما سھل الله له طریقا إلی الجنة) ترجمہ : جو آدمی علم کی تلاش میں کوئی راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اسکے لئے جنت کا راستہ آسان کردیتے ہیں،، اس حدیث پاک کے ذریعہ ہادی دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی سفرِ علم کو جنت کا راستہ قرار دیدیا گیا، آج ہم انہیں علماء کی شان میں گالیاں بک رہے ہیں اور انہیں علماء کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے، پھر کہاں سے ہمیں علم حاصل ہوگا، جب ہمارے اندر علم ہی نہیں تو پھر ہم دین کے ایک بنیادی شعبہ سے ہم محروم رہیں گے، پھر ہماری زندگیوں میں دین کہاں باقی رہے گا؟ حالانکہ آج ضرورت ہے ضلالت و گمراہی سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں داخل ہونے کی، آج ضرورت ہے اپنے باطل فکری اعتقاد کو دینی حمیت وجذبہ اخوۃ کی طرف پھیرنے کی۔
انسانیت کیا ہے؟
آج پوری امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے، خود پرستی کا جنون سب پر سوار ہے، انسان کی جان و مال عزت وآبرو کا احترام تیزی کے ساتھ رخصت ہورہا ہے، آج اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کی زبردست مہم چلائی جارہی ہے، الغرض : ہمیں خوف کس چیز کا رہ گیا ہے؟ ہماری غیرت و حمیت کو کس نے لوٹ لیا ہے؟ اور ہمارا جوش ایمانی کہاں دفن ہوگیا ہے؟ دین اسلام لٹتا جارہا ہے، ہمیں نیند کیسے آرہی ہے؟ کیا ہم اپنی عظیم دینی درسگاہوں اور خانقاہوں کی آہ و فغاں کو سن نہیں رہے ہیں؟ ہم اپنے اکابرین و اسلاف کے کردار کو بھول کیسے گئے ہیں؟ کیا اپنے اساتذہ کی دل کی دھڑکنیں ہمیں تڑپا نہیں رہی ہیں؟ کیا ہمیں اپنے وطن کے مظلوم ومجبور لوگوں کی آہیں رُلا نہیں رہی ہیں؟ کیا ہم اپنی کتابوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بے چینی واضطراب کو پڑھ نہیں رہے ہیں؟ کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دینی حمیت وخود داری ہمارے سامنے نہیں ہے؟ جب ہمارے مدارس ومکاتب تباہ وبرباد ہوجائیں گے تو اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی پیاری پیاری باتیں کہاں سنیں گے؟ کیا جب پوری امت مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر ارتداد کے گڑھے میں جاگرے کی تب ہم اٹھیں گے؟ آخر ہمیں کس چیز کا انتظار ہے؟
میدانِ محشر
اگر کل میدان حشر میں باری تعالٰی ہم سے پوچھ ڈالے کہ بتاؤ! جس دین کے خاطر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گلے میں چادریں ڈال کر صحنِ کعبہ میں گھسیٹا گیا، اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فاقہ کشی کرکے راتوں کی راتیں گزار دی مگر اپنی رعایا اور نبی کی امت کو تکلیف نہ پہنچنے دیا، اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو گھر میں بند کرکے بھوک وپیاس سے تڑپا تڑپا کر خارجیوں نے شہید کرڈالا، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ إعلاء کلمۃ اللہ کے خاطر اپنے تن من دھن کی بازی لگادی، اور ستر جان نثار صحابہ کرام نے غزوہ احد میں اپنی جانیں قربان کردیں، اور بالآخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے وطن عزیز مکہ مکرمہ سے نکلنے پر مجبور کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری زندگی امت کی فکر اور دین کے تحفظ اور اسلام کے بقاء کے لئے بے چینی وبے قراری میں گزاری، بتاؤ! تم نے اس دین کی کیا خدمت کی ہے؟ تو اس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا؟

*حرف آخر*
اسی لئے کل کی رسوائی سے بچنے کے لیے آج ہی ہمیں اپنی آنکھیں اس نرگس بے دار کی طرح کھولنی چاہیے جس کی آنکھیں کبھی جھپکتی نہیں، جسے کبھی نیند آتی نہیں، الغرض! ہمارے آپسی خلفشار اور تنازعات نے ہمارے مستقر پر حملہ کیا، اور خواہ مخواہ ہمیں ب باد کرکے رکھ دیا –
لیکن یاد رکھیں کہ ہم ہی اس دینِ متین کے محافظ ہیں، اور نبی اُمی کی تعلیمات کے مبلغ ہیں، اور امت مسلمہ کے وجود وبقاء کا مدار دین کے تحفظ پر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (ترکت فیکم امرین لن تضلو ما تمسکتم بھما : کتاب الله وسنة رسوله) ترجمہ : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو گے کبھی گمراہی تمہارا پیچھا نہیں کرسکتی (اور وہ دو چیزیں) قرآن مجید اور احادیث نبویہ ہیں،، جب تک ہم احکاماتِ الہیہ اور سنت نبویہ پر گامزن رہیں گے، زیغ وضلالت سے محفوظ رہیں گے،، اسی لئے آج ہمیں پھر سے دین کے تحفظ وبقاء کے لئے ایک ہوکر کھڑے ہونا ضروری ہے، اور اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہونا لازم ہے، آج تو مسئلہ کسی ایک مدرسہ یا کسی ایک جامعہ کا نہیں ہے، بلکہ مسئلہ تو علوم ایمانی کے باقی رکھنے اور اسلامی تحفظ کا ہے، آج پوری انسانیت گمراہی کی طرف جارہی ہے، وہ بد اخلاقی کے دَل دَل میں ڈوب رہی ہے، ایسے نازک وقت میں ڈوبتی کشتی کا ملاح بھی ہم ہی ہیں، اور امت کی شکستہ حالی کو خوش حالی میں تبدیل کرنا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے، اسی لئے آج کے اس تعطل کو ہر حال میں توڑنا ہوگا اور اس دَل دَل سے ہر حال میں نلنا ہوگا، اور اپنے اندر برداشت کی وہ اٹل قوت اور ہمت کا وہ پہاڑ پیدا کرنا ہوگا جس پر نہ دنیا کی کوئی شہنشاہیت غالب آسکے اور نہ ہی اس پر ملک کی کوئی بادشاہت فتح یاب ہوسکے –
ہم دعا گو ہیں کہ اے اللہ امت مسلمہ کی حفاظت فرما اور شہیدوں کی مغفرت فرما اور پس ماندہ گان کو صبر جمیل عطا فرما (آمین)