جمیل اختر شفیق
عام طور پر کسی بڑی شخصیت کی کار کردگی کے حوالے سے اگر سوالات قائم کیے جاتے ہیں، تو اُن کے فکر و نظر سے عاری معتقدین کی جانب سے بھدّیاں گالیاں، غیر اخلاقی جملے یا پھر جان سے مارنے تک کی دھمکیاں تک مل جاتی ہیں جبکہ اُنہیں یہ سوچنا چاہیے کہ دنیا کے ہر مہذب تعلیم یافتہ سماج کا دُستور ہے کہ کوئی بھی عام انسان جب تک وہ اپنی ذات کے خول میں بند رہتا ہے، اُس کے اوپر بڑی ذمہ داریاں نہیں ہوتی ہیں یا پھر کسی بڑے عہدے پہ فائز نہیں ہوتا ہے تو لوگوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن جب وہی انسان کسی فلاحی یا مذہبی عہدوں پہ فائز ہو جاتا ہے، ذمہ داریاں اس کے کاندھے پہ آجاتی ہیں تو لازمی طور پر سینکڑوں ہزاروں نگاہیں اس کی زندگی کے شب و روز کی دربانی اور اس کے حرکت وعمل پہ گہری نظر رکھنے لگتی ہیں، اگر وہ اپنے فریضے کو عبادت سمجھ کر بحسن و خوبی انجام دیتا ہے تو ہر جانب اس کی ستائش ہوتی ہے، لوگ سر سرآنکھوں پہ بٹھاتے ہیں، لیکن جیسے ہی اس کے قدم لڑکھڑاتے ہیں، وہ قوم کی صحیح رہنمائی کرنے کے بجائے عوام الناس کے جذبات کا استعمال کرکے اپنے مفاد کی روٹی سینکنے لگتا ہے تو اس پہ سوالات کھڑے ہونے لگتے ہیں، اس کے خلاف صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں بالخصوص اس سلسلے میں اسلام کا نظریہ بہت صاف ہے جس پہ بہت سنجیدہ ہوکر غوروخوض کی ضرورت ہے آپ دیکھیں نماز جیسی مقدس عبادت جس میں خشوع و خضوع اولین شرط ہے، اس حالت میں بھی اگر امام دو سجدہ کے بجائے تین سجدہ کرلے تو مقتدی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ پیچھے سے شریعت نے جو مخصوص کلمہ سکھایا ہے اس کے ذریعے امام کو متنبہ کرے کہ آپ سے غلطی ہورہی ہے، اس کے بعد امام کی یہ مذہبی ذمہ داری ہے کہ پوری فراخدلی کے ساتھ حالتِ نماز میں ہی شرعی انداز میں اپنی غلطی یا بھول چوک کا ازالہ کرلے۔ یہاں ٹھہرکر ذرا سوچیں کہ اب ایسی صورت میں امام نماز سے فارغ ہوکر حالتِ نماز میں متنبہ کرنے والے شخص کے خلاف اگر محاذ کھول دے یا عقل سے عاری مقتدیوں کی ایک جماعت بولنے والے کو بےعزت کرنے لگ جائے، تو اسے پرلے درجے کی جہالت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر کسی بڑے عہدے پہ فائز شخص کی کار کردگی پہ سوالات قائم کیے جاتے ہیں یا ان کی غلطی پہ اُنہیں ٹوکا جاتا ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ٹوکنے والا اپنے قائد سے بدگمان ہے، یا اس کے خلاف محاذ کھول رہا ہے یا پھر اس کی شان میں گستاخی کررہا ہے وغیرہ وغیرہ …… بلکہ ہمیں ایسے لوگوں کو غنمیت جانتے ہوئے ان کی عزت کرنی چاہیے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہمارے درد کا حقیقی احساس ہوتا ہے، یہ ان کے اندر کا قومی جذبہ ہے، ملت کا درد ہے، جو اُنہیں زبان کھولنے پہ مجبور کرتا ہے، ورنہ آج کی اس مفاد پرست دنیا کی ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ انسان کو اپنے آپ سے فرصت نہیں ہے خود ہر انسان کی ذاتی زندگی اتنے مسائل سے گھِری ہوئی ہے کہ انہیں ہی حل کرتے کرتے انسان قبر کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ ؎
کس کو فرصت ہےکہ چہرے کی کہانی سمجھے
لوگ بس درد لیے آئینہ دکھا دیتے ہیں
خوبیوں کی پذیرائی اور خامیوں کی مذمت کسی بھی پڑھے لکھے سماج کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے ہمارے قائدین کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی کارکرگی پہ سوالات اس لیے قائم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی قوم کی مثبت قیادت کرسکیں، انہیں صحیح راہ کی رہنمائی کرسکیں کیونکہ اسلام بھی اسی کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اگر اس کے برعکس وہ آواز بلند کرنے والے کے خلاف اگر سازشیں کرنے لگتے ہیں تو ان کے اس سمت اٹھائے جانے والے ہر منفی عمل کو ان کی کم ظرفی پہ محمول کیا جائے گا۔
مسلم سماج کا المیہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے قائدین کی رفتار و گفتار کو الہامی تصور کرتے ہیں، ان کی غلطیوں پہ انہیں ٹوکنے، ان کی نشاندہی کرنے کے بجائے ہاں میں ہاں صرف اس لیے ملاتے ہیں تاکہ ان کے شانہ بشانہ نماز چھوڑ کر بھی اگر ساتھ چل رہے ہیں، تو جنت ان کے لیے رجسٹرڈ ہوجائے، جبکہ اللہ کی جنت اتنی بھی آسان نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ معاملہ ملی سرگرمیوں کا ہو یا مذہبی ہر جگہ سیاست کا عمل دخل ہے، لوگ قوم کے جذبوں کے کلیجے پہ پیر رکھ کر خود کو اکبرِ اعظم تصور کررہے ہیں، اُنہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ۔۔۔۔
(1) قوم کے اندر تعمیری شعور کیسے پیدا کیا جائے؟
(2) تعلیم کو کیسے فروغ حاصل ہو؟
(3) سسٹم میں مسلم بچوں کے داخلے کو کیسے یقینی بنایا جائے؟
(4) غربت کے دلدل سے نکالنے کا لائحہء عمل کیا ہو؟
(5) برسرِ اقتدار حکومت کے جبر سے مسلم نوجوانوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟
(6) ایک جمہوری ملک میں نئ نسل کے لیے ترقی کی نئ شاہراہ کیسے متعین کی جائے؟
اِن امور پہ سنجیدگی سے سوچنے اور مضبوط لائحۂ عمل تیار کرکے عملی اقدام کرنے کے بجائے مسلم مسائل سے آنکھیں موند کر جب ہمارا قائد صرف اپنے من کی کرنے لگتا ہے تو امت کے حصے میں صرف چند چکا چوند راتیں، نعروں کی گونج، جذباتی پل، اور بھیڑ میں عقل و خرد سے عاری چند خود ساختہ روحانی چہروں کے جلال کا عکس ….. کے سوا کچھ نہیں آتا ہے۔ جب میں بڑے بڑے بلند دعووں سے بھرے جملوں کے پیچھے قطار در قطار اپنی قوم کے افراد کو عالمِ وجد میں چینختا، چلاتا اور ایسے خوابوں کے پیچھے بھاگتا ہوا دیکھتا ہوں جس کی آج تک کوئی مثبت تعبیر نہیں نکالی جاسکی، تو مجھے راحت صاحب کا ایک شعر شدت سے یاد آتا ہے ؎
یہ لوگ جسم نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
اُدھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے