عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
روزے کا مقصد: روزہ کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ انسان کچھ دیر کے لئے تمام اہم لذا تِ مادی کی طرف سے بے توجہ ہوکر روح کو اپنی صفائی و پاکیزگی کی جانب متوجہ ہونے کا موقع دے۔ روزہ تعمیلِ ارشادِ خدا وندی میں تزکیہ ء نفس ، تربیتِ جسم دونوں کا ایک بہترین دستور العمل ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اسلوب میں روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دِلائی ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ مقصد سے ہٹ کر بھوکا پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں ۔ چناں چہ فرمایا : مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہ وَ شَرَابَہ۔جِس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑاتو اس کا کھانا اور پانی چھڑادینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔
دوسری حدیث میں ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کَمْ مِّنْ صاَءِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ صِیَامِہ اِلاَّ الظَّمَأُ وَکَمْ مِنْ قاَءِمٍ لَیْسَ لَہ مِنْ قِیَامِہ اِلاَّ السَّہَرُ۔
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اِس قیام سے رَت جگے کے سِوا اُن کے پلّے کچھ نہیں پڑتا۔
امام غزالی ؒ نے اپنے مخصوص اندازِ بیان میں اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے : ْ روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اخلاق الٰہیہ میں سے ایک اخلاق کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے جس کو 249249صمدیت،، کہتے ہیں وہ امکانی حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے خواہشات سے دست کش ہوجائے، اس لئے کہ فرشتے بھی خواہشات سے پاک ہیں، اور انسان کا مرتبہ بھی بہائم سے بلند ہے، نیز خواہشات کے مقابلہ کے لئے اس کو عقل و تمیز کی روشنی عطا کی گئی ہے، البتہ وہ فرشتوں سے اس لحاظ سے کم تر ہے کہ خواہشات اکثر اس پر غلبہ پالیتی ہیں، اور اس کو ان سے آزاد ہونے کے لئے سخت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، چناں چہ جب وہ اپنی خواہشات کی رو میں بہنے لگتا ہے تو اسفل سافلین تک جا پہونچتا ہے، اور جانوروں کے ریوڑ سے جاملتا ہے اور جب اپنی خواہشات پر غالب آتا ہے تو اعلیٰ علّیین اور فرشتوں کے آفاق تک پہونچ جاتاہے۔،
علامہ ابن القیم ؒ اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ْ روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو اور اس کے ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیاتِ ابدی کے حصول کے لئے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے، بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدّت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات یاد آئے کہ کتنے مسکین ہیں جو نانِ شبینہ کے محتاج ہیں، وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کردے، اور اعضاو جوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں اس کی دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے، اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال، اور ابرار و مقربین کی ریاضت ہے۔،
علامہ موصوف روزہ کے اسرارو مقاصد پر نہایت بلاغت کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:249 روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تاثیر رکھتا ہے، فاسد مادّہ کے جمع ہوجانے سے انسان میں جو خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں، اس سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو چیزیں مانع صحت ہیں ان کو خارج کردیتا ہے، اور اعضاو جوارح میں جو خرابیاں ہوَاو ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں ، وہ اس سے دفع ہوتی ہیں، وہ صحت کے لئے مفید اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے میں بہت ممد و معاون ہے۔(افادات از: ارکانِ اربعہ)۔
(ملت ٹائمز)