علم و عمل کا حسین سنگم مولانا نسیم احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

دنیا فانی ہے ہر ایک کو فنا کا شکار ہونا ہے، روئے زمین پر خالق کون و مکاں کی محبوب ترین مخلوق اشرف الانس و الجن انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام بھی رب قدیر کے اس اٹل فیصلہ سے مستثنیٰ نہیں، یہاں تک کہ امام المرسلین، سید الانبیاء ، جن کے بارے میں بجا کہا گیا کہ ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ” وہ بھی اس دار الفناء سے پردہ فرماگئے، اس مسلم حقیقت کا تجربہ آئے دن ہوتا ہے، اس کے باوجود کوئی انسان جب رخصت ہوتا ہے تو اردگرد والوں کی آنکھیں اشکبار و نمناک ہو کر دل کی بے چینی و بیقراری کا پتہ دیتی ہیں، مرنے والے پر افسوس کے اسباب پر غور کریں تو بنیادی طور پر پر دوچیزیں سامنے آتی ہیں، قربت اور افادیت، اکثر لوگوں کو جانے والے کی قربت رلاتی ہے لیکن اگر انسان اپنے گھر، سماج اور دوسروں کے لئے مفید ہو تو زخم ذرا گہرا ہوتا ہے، انسان جتنا مفید ہوتا ہے اس کے بچھڑنے کی ٹیس اتنی ہی شدید ہوتی ہے، ان دنوں ہمارا علاقہ بالخصوص علماء ایسے ہی بے ضرر اور مفید انسان کے بچھڑجانے کے غم سے دوچار ہیں، مدرسہ محمود العلوم دملہ کے سابق استاذ، سابق قاضی شریعت، حضرت مولانا نسیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اس دار فانی سے رخصت فرما گئے وہ اپنوں اور غیروں کیلئے یکساں طور پر مفید تھے، ایسا بے ضرر انسان جب بچھڑتا ہے تو دل تڑپتا ہے، آنکھیں آنسو بہاکر اس کی ترجمانی کرتی ہے، ان کی زندگی جد و جہد کا مجموعہ تھی، حصول علم سے لیکر عملی میدان تک کے ان کے سفر کو دیکھنے سے تجرباتی طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎  

 ایک جہد مسلسل ہے یہ کار گہہ دنیا   

ہم پھولوں کے بستر پر آرام نہیں کرتے 

ان کی زندگی کا مکمل سفر ” یقین محکم ” عمل پیہم ” محبت فاتح عالم ” کا آئینہ دار ہے، ایک بھرپور زندگی گزارنے کے ان زریں اصولوں کے نفاذ یا الفاظ بدل کر یوں کہیں کہ اس تھیوری کی پریکٹس میں انہوں نے اپنی عمر گذاردی، “جہاد زندگانی” میں مردوں کی ان ” شمشیر وں ” سے ہمہ وقت مسلح نظر آئے، یہی وجہ ہے کہ مشکلات کے تلاطم خیز تھپیڑے بھی ان کی خندہ پیشانی کو مات دینے میں ناکام رہے، عملی زندگی کے ابتدائی ایام میں نت نئے حالات بالخصوص معاشی مسائل کا طوفان بلاخیز اس تسلسل کے ساتھ سامنے آتا رہا کہ ان حالات میں انسان عموماً ٹوٹ جاتا ہے لیکن وہ چہرے پر تبسم سجائے اڑے رہے، ڈٹے رہے، قسمت کا رونا روئے بغیر آگے بڑھتے رہے ۔

حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ کی ولادت مدھوبنی کی ایک چھوٹی سی بستی کٹھیلا کے ایک کسان گھرانے میں ہوئی، گھرانہ دیندار تھا، علاقہ کے بڑے علماء سے خصوصی تعلق تھا، اور تعلیم کی طرف مولانا کا رجحان بھی خوب تھا، اس لئے والد محترم نے اپنے ہونہار فرزند کے شوق اور لگن کو دیکھتے ہوئے گاؤں میں ابتدائی تعلیم کے بعد قریبی گاؤں کی مشہور درس گاہ، مدرسہ محمود العلوم دملہ میں داخل کردیا، وہاں کے ذی استعداد اساتذہ کی نگرا نی میں شرح وقایہ تک کی تعلیم مکمل کرکے مدرسہ اشرف العلوم کنہواں گئے، وہاں جلالین کی تکمیل کی پھر آنکھوں میں ازہر ہند اور علوم دینیہ کے ہر متلاشی کی آخری آرزو دارالعلوم کا خواب سجائے دیوبند کا رخ کیا، وہاں علم کے پیاسے کو علم کی بہتے تیز اور شیریں دھارا تک پہوچ کر قرار آیا،

یہاں شیخ الحدیث حضرت مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ، اور اس وقت دارالعلوم میں موجود دوسرے سلاطین علوم کے چشمۂ حکمت و معرفت سے سیرابی کی کوشش میں تن من سے جٹے رہے، 1969 میں دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کے بعد مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا، اللہ نے محنت،شوق اور لگن کے ساتھ ذہانت و ذکاوت سے بھی خوب نوازا تھا، ان کے بعض شاگردوں نے بتایا کہ پہلے سال میں ہی ان کے درس کی شہرت علاقہ کے کبار علماء کو اپنی جانب مبذول کرنے لگی، نیز ان کی علمی صلاحیت کا چرچا دور دراز کی علمی درس گاہوں کے درو بام کا طواف کرنے لگا ، مدرسہ بشارت العلوم میں دو سال رہ کر مدرسہ حسینیہ رانچی گئے پھر وہاں سے اپنی مادر علمی اور ابتدائی درسگاہ، مدرسہ محمود العلوم دملہ آگئے، یہاں دس سال تک وارثان علوم نبوت میں علوم نبویہ کا خزانہ بانٹتے رہے، فقہ و فتاوی سے آپ کو خصوصی دلچسپی تھی لہذا امارت شرعیہ کی جانب سے آپ کو قاضی شریعت بنایا گیا، حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو انتظامی امور کے حوالے سے ہو یا دارالقضاء کے مسائل کے تعلق سے آپ پر بڑا اعتماد تھا آپ میں چونکہ اعلی انتظامی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی، اسلئے صدر المدرسین اور نائب مہتمم کی ذمہ داری دی گئی، چونکہ آپ خود ہی نظام کے بڑے پابند تھے اس لئے ماتحتوں کیلئے بھی سرمو انحراف کی گنجائش نہیں تھی، درسگاہ میں ذرہ برابر کوتاہی برداشت نہیں کرتے لیکن درس گاہ کے باہر باپ سے زیادہ شفیق نظر آتے، وہ ” نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ” کی جیتی جاگتی تصویر تھے، آپ کا درس بڑا مشہور تھا، جب تک ایک ایک طالب علم کو تشفی نہ ہو جاتی مسئلہ کی تہہ تک پہوچ کر سبق بار بار سمجھاتے، نئے اساتذہ جن میں اکثر ان کے شاگرد تھے، کی تربیت کا بڑا جذبہ تھا، وہ درس میں بیٹھ جاتے اور انہیں حوصلہ دیتے نیز تدریس کے نئے طریقے بتاتے، آپ قدیم درس گاہ کے قدیم فارغ ضرور تھے لیکن طریق تدریس میں نئے طریقے تلاشنے کے پرزور حامی تھے، روایت سے ہٹ کر چلنا انہیں پسند تھا، یہاں دس سال تدریسی اور انتظامی فرائض انجام دیتے رہے لیکن معاشی مسائل نے مزید کی اجازت نہیں دی، لہذا اپنے محبوب مشغلہ تعلیم و تعلم سے کنارہ کش ہوکر بغرض کاروبار ممبئی گئے، دل میں مدرسہ چھوڑنے کا بڑا صدمہ تھا کہ ایک طرف حالات کی ستم ظریفی جو مدرسہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی تھی دوسری طرف دل و دماغ پریشان آخر کار رب کریم کے کرم نے دستگیری کی اور سعودی عرب کے تجارتی شہر دمام میں امامت و خطابت کے ساتھ، تدریس کی ذمہ داری بھی مل گئی اس طرح کچھ عرصہ اپنے میدان سے دور رہنے کے بعد ایک بار پھر اپنے محبوب و مرغوب مشغلہ سے جڑ گئے، سعودی عرب میں آپ صرف امام نہیں مسلک احناف کے سفیر ثابت ہوئے، جس علاقہ میں گئے وہاں احناف کے خلاف تشدد بہت تھا، آپ جب وہاں گئے، علماء سے ملاقاتیں ہوئیں، تو کچھ ہی عرصہ میں یہ تبدیلی آئی کہ کئی علمی مجالس میں وہاں کے مقامی علماء نے منقبت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ پر محاضرے پیش کئے۔

مولانا رحمۃ اللہ علیہ نیک سیرت ہونے کے ساتھ پر وقار سراپا اور بارعب شخصیت کے مالک تھے، لمبا قد، چوڑی پیشانی گورا اور کھلتا رنگ، لمبی ناک بھرا پورا چہرہ، گھنی داڑھی گٹھیلا جسم، انتہا درجہ کے خوش پوشاک، اور تیز رو تھے، کسی طالب علم کو سست روی سے چلتے دیکھتے تو محبت بھرے لہجے میں ٹوکتے، حاضر جوابی بلا کی تھی، ظرافت فطرت کا حصہ تھی، لیکن ایسا مذاق کرتے جس سے اپنے یا مخاطب کے وقار کو ٹھیس نہ پہونچے ، چھوٹے بڑے کسی کو آتا دیکھ کر ” أهلا أهلا ” کی صدا لگاتے، اور اس طرح گلے لگاتے جیسے دیر سے اسی شخص کے انتظار میں نظریں بچھائے بیٹھے ہوں، غیبت سے انتہا درجہ کی چڑ تھی، مجلس میں اگر غیبت شروع ہوتی تو کبھی روک دیتے اور کبھی خاموشی سے اٹھ کے چلے جاتے، کچھ لوگ اپنے آپ میں ایک انجمن ہوتے ہیں لیکن ان کی سادگی ان کی خوبیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے، یا کہئے کہ سادگی کے لباس میں ان کی روشنی لوگوں کی نظروں سے بڑی حد تک اوجھل رہ جاتی ہے، اس کی نظیر تھی مولانا نسیم احمد قدس اللہ سرہ کی ذات، اللہ نے انہیں انیک خوبیوں سے نوازا تھا، وہ بڑے صاحب علم تھے لیکن علمی بڑائی کے زعم سے کوسوں دور، وہ بہترین منتظم تھے لیکن بردباری اور صبر و تحمل کے پہاڑ، وہ بڑے معلم تھے، ساتھ ہی طلبہ پر شفقت میں اپنی مثال آپ ۔ ایک مومن کو جن صفات کا حامل ہونا چاہیے بظاہر ( باطن کا حال تو عالم الغیب ہی جانتا ہے) ان سے خوب مزین تھے، عقائد میں اتنے پختہ کہ اپنے رب کے علاوہ سے لو لگانے کی کہیں کوئی گنجائش نہیں، عبادات کے اتنے پابند کہ مشکلات کی آہنی دیوار میں بھی ان کے سامنے حائل ہونے کی جرأت نہیں، معاملات میں اتنے کھرے کہ قول و قرار سے سر مو انحراف کی گنجائش نہیں، معاشرت اتنی خوبصورت کہ ” خیرکم خیرکم لاہلہ “ کا بہترین مصداق تھے، اور من سلم جارہ بوائقہ کی مجسم شکل،     

ان کی زندگی کا ایک ایک ورق سبق آموز ہے، چند اوراق تو ایسے ہیں کہ ایک صاف ستھری اور بے داغ زندگی کی چاہت رکھنے والوں کیلئے ان کا ایک ایک حرف خیر دلیل کی حیثیت رکھتا ہے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا بدترین حریف بھی انکے اخلاق کریمانہ کا انکار نہیں کرسکتا، وہ سب سے اسلامی اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے۔

اخیر کے چند ایام مجھے ان کی خدمت کی سعادت ملی، میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے ان ایام میں دیکھا کہ خود مرض الموت میں مبتلا ہیں، ہر طرف پریشانیوں کا بسیرا ہے، مشکلات کے احاطہ میں جکڑ چکے ہیں، خطرناک ترین مرض سے جھوجھ رہے ہیں لیکن پرواہ ہے تو اپنی نہیں بلکہ تیمار داروں کی، پتہ نہیں اتنا بڑا دل خلاق عالم نے کس نیکی کے بدلے نوازا تھا، حقیقت ہے کہ ان کی اس خاص صفت نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیا اور مجھے کف افسوس ملنے کیلئے چھوڑ دیا کہ کاش وہ کچھ اور رہ جاتے تو ان خدمت کے صلہ میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا، لیکن کیا کیجئے فرمان باری ہے ” اذا جاء أجلہم لایستأخرون ساعۃ و لا یستقدمون ” ۔

وہ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر بڑے بے چین رہتے عموماً کہتے سنے گئے کہ حیرت ہے دنیا کی دوسری تمام اقوام اپنے مذہب کے تئیں بیدار ہوتی جا رہی ہیں لیکن قوم مسلم اس کے برعکس دین سے دوری اختیار کرتی جاری ہے، حالت روز بروز بدتر ہوتے جارہے ہیں لیکن دین کی طرف رجوع کا کوئی رجحان نظر نہیں آتا، عربوں کے یہاں ترقی کے نام پر عوام کو بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دین سے دور کیا جارہا ہے، وطنیت کے نام پر امت کے ٹکڑے کئے گئے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے، ایسے حالات تیار ہورہے ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے کے مصائب و مشکلات پر آہ بھی نہ کر سکے، یہ سب کسی بڑے طوفان کی آہٹ ہے، اللہ خیر کرے۔   

حقیقت ہے کہ ہم دین کے ایک بے لوث اور سچے خادم سے محروم ہوگئے، ملت کا ایک ہمدرد ہم نے کھو دیا، دوسرے کے مشکلات میں خود کو گھلانے اور پگھلانے والا دل دردمند ہم سے دور ہوگیا، وہ دوسروں کےلئے بڑے مفید اور بے ضرر انسان تھے، اس لئے ہر شخص ان کے بچھڑنے پر رنجیدہ و نمدیدہ ہے، ہر شخص کی زبان پر ان کی خوبیوں کے تذکرے ہیں اور ساتھ ہی ہر کوئی دعا گو ہے کہ رب رحیم و کریم اپنی جوار رحمت میں مقام خاص عنایت کرے ؎

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا 

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا