سیکولر پارٹیوں کا کمیونل چہرہ

ذبیح اللہ آر بی آر 

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک سیکولر نامی پارٹیوں نے اقلیتوں کو ٹھگنے اور کمزور کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے اور ہمیں فرقہ پرست طاقتوں سے خوف دلاکر ہماری سیاسی قیادت کو ملک بھر میں ابھرنے نہ دیا اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو پچھلے صف میں رکھ کر اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کی کوشش، منصوبہ بندی، چالاکی اور منظم سازش کے تحت اس کام کو انجام دیا۔ مسلمانوں کو کہاں اور کب کمزور کیا گیا اس کو اپنی گذشتہ ایک تحریر میں واضح کر چکا ہوں اور ان تمام باتوں میں جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ہمیں سب سے زیادہ تعلیمی میدان میں نقصان پہونچایا گیا اور اس چیز میں پورے طور پر ہم ان سیکولر پارٹیوں کو کوس نہیں سکتے بلکہ ہم نے بھی بڑے آرام و سکون کی زندگی جینے کو ہی اپنا مشغلہ بنا یا ہے اور کبھی ان چیزوں کو لے کر اتنے فکر مند نہ ہوئے اور نہ ہی آنے والی نسل کے بارے میں غورو فکر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ تعلیم سے دور رہے اور پھر ہمیں ہر میدان میں بآسانی کمزور کیا جاتا رہا ۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں خصوصاً مسلم علاقوں کا سروے کرنے پر کہ ان کے علاقو ں میں کتنے اسکول، میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹیاں ان کو میسر ہیں یہ تو ہمارے چند اکابرین کی محنت کا نتیجہ اور ان کا احسان ہے کہ ہمارے پاس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے ادارے نصیب ہوپائے۔ اس کے علاوہ دوسری جگہ جہاں ہمیں اپاہج کیا گیا وہ سیاسی میدان ہے ہمارے ملک میں 543 لوک سبھا سیٹ ہے اور پارلیمنٹ میں ہماری تعداد کتنی ہے کبھی آپ نے غور کیا ہے ؟ تیس کروڑ کی آبادی والی قوم کے پاس صرف 23 ایم پی جبکہ آبادی کے تناسب سے 100 سے زائد مسلم ایم پی کو پارلیمنٹ میں ہونی چاہئے، دراصل مسلمان خود ہی اپنے پیڑوں پر کلہاڑی مارنے کو تیار ہیں، سیکولر پارٹیوں کی طرف سے جسے آر ایس ایس اور بھاجپا کا ایجنٹ بتلا دیا جائے، آنکھ بند کر کے ہم اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں اور پھر مسلم قیادت کو روندنے میں سیکولر پارٹیوں کو چھوٹ مل جاتی ہے۔ حالیہ عام انتخابات پر نظر اٹھا کر دیکھیں سیٹوں کے بنٹوارے پر غور کریں کہ کتنی جگہ سے ہماری جیت یقینی ہے اور کتنی جگہ پر ہمیں صرف اسلئے امیدوار بنایا گیا ہے کہ سیکولر نامی ٹیگ باقی رہے۔ بہت کچھ کھل کر بول نہیں سکتے لیکن سمجھنے کی صلاحیت تو ہے۔ آج یہ لوگ ہم سے انضمام کرنے کو تیار نہیں کہ کہیں مسلم قیادت مضبوط نہ ہوجائے اور ہماری آواز بننے کو بھی تیار نہیں کہ کہیں ہندو ووٹ آنا بند نہ ہوجائے ارے انصاف کی بات نہیں کر سکتے تو ہمیں کم سے کم اپنی بات بولنے تو دے سکتے ہو تم کیسے سیکولر ہو کہ تمہاری پارٹی کے مسلم نیتا بھی تسلیم انصاری، غفران، اور زینل انصاری کے قتل پر بولنے کیلئے آزاد نہیں ہیں؟ یہ کیسی انصاف پسندی ہے تمہارے اور کمیونل پارٹیوں میں کیا فرق رہ گیا ہے وہ ہم پر کھلے عام حملہ کرواتے ہیں اور تمہارے دور حکومت میں ہمارے قابل نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر چن چن کر اٹھا لیا جاتا ہے ؟ کیا تم بھی ہندوتوا کی سیاست کو قبول کرچکے ہو؟ کیا تمہارا بھی اس ملک کو ایک خاص راشٹر بنانے کا ارادہ ہے؟ کیا تم بھی نہیں چاہتے کہ یہاں کی جمہوریت قائم رہے؟ مسلمانوں کو احساس تک نہیں کہ ہماری سیاسی شعور دلت سے بھی بدتر ہے اور اس بدتر کو بد سے بدتر بنانے میں خود مسلمان اور مفاد پرست مسلم رہنما و قائدین برابر کے شریک ہیں کیونکہ آپ نے ہماری کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی ہمیں آگے آنے سے روک دیا آپ نے ہمیں بار بار مصلحت اور حکمت کا نام دے کر لاغر اور کمزور کرتے رہے اب بھی آپ ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تو ہم لکھنا تو درکنار کچھ بولنے کے قابل بھی نہیں بچیں گے۔ اب باری ہے اپنوں کو آگے لے جانے اور ان پر بھروسہ جتانے کی ضرورت ہے بیدار اور زندہ قوم کا ثبوت پیش کرنے کی وقت ہے مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا محمد علی جوہرؒ پیدا کرنے کی موقع ہے اپنی قیادت پر کام کرنے اور کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے کی۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں