جمہوری ملک میں ووٹ کی شرعی حیثیت

باصلاحیت ، امانت دار اور قوم وملت کے ہمدرد کو ووٹ دینا ضروری ہے، ورنہ امانت میں خیانت ہوگی۔ 

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

     حقیقی سیاست یہ ہے کہ انسانوں کی علمی، فکری، سماجی اور معاشرتی اصلاح اس طرح کی جائے کہ دنیاو آخرت میں نجات اور سکون حاصل ہواور انسان صحیح معنی میں اپنے خدا کے سامنے سر بسجودہو سکے۔ اسی سیاست کے ذریعہ عدل و انصاف کی حکومت اور ظلم واستبداد کاخاتمہ ممکن ہے۔خدائی احکام پر عمل اور طاغوتی قوانین کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔سیاست کے ذریعہ پرامن اور صالح معاشرہ کی بنیادڈالی جاسکتی ہے۔دراصل سیاست ہر زمانہ میں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین کامنصب رہاہے۔ خداکی وحدانیت ، انبیاء و رسل کی نبوت و رسالت، حشر ونشر ،قیامت و آخرت اور دین و ومذہب کی تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیاست وحکومت کے ذریعہ بھی لوگوں کی اصلاح کی ہے۔ظلم وستم کی تاریکی میں اخوت و بھائی چارگی کاشمع روشن کیا ہےاورہمدردی و غمگساری کا سبق سکھایا۔ایسی سیاست و حکومت کا نام امارت و خلافت ہے جو آنحضرت ﷺکی وفات کے ۳۰سال بعدتک جاری رہی؛ اوراسکے کچھ اثر و نقوش خلافت عثمانیہ تک باقی رہے۔ان خاصان خدا کی سیاست میں ارباب حکومت اخلاص و للہیت کے ساتھ خدائی قانون نافذ کر تے تھے۔ ان کا دستور قرآن و سنت ہوتاتھا۔ان کے دل میں خوفِ خدا اور آخرت کا تصور رہتاتھا۔حکمراں اپنی طرز زندگی کو معیاری بنانے کے بجائے عوام کو راحت وسہولت بہم پہونچانے کی کوشش کر تے تھے۔

 علامہ طرابلسیؒ فرماتے ہیں کہ سیاست کی دو قسمیں ہیں : سیاست ظالمہ اور سیاست عادلہ ۔سیاست ظالمہ حرام ہے او رسیاست عادلہ نہایت ہی ضروری ہے۔اس لیے کہ اس سے مخلوق کو ظلم سے بچایا جا سکتاہے، اور اس کے ذریعہ بندوں کا شریعت پر چلنا آسان ہوگا۔شرعی سیاست یعنی سیاست عادلہ کے انکا رسے نصوص شرعیہ کا انکار اور خلفاء راشدین کی تغلیط لازم آئے گی؛ لہذا سیاست عادلہ میں حصہ لینا ضروری ہے ۔ (معین الحکام ۱/۱۹۹(

 فی زمانہ لفظ سیاست اس قدر بدنام ہوچکاہے کہ لوگ اس لفظ کااستعمال گالی اورلعن وطعن کے طورپر کرنے لگے ہیں،سیاست کامعنیٰ دھوکہ دہی اوررشوت خوری ہوگیاہے، کمزوروں پر ظلم وستم کرکےان کاحق دبالینےکانام سیاست بن گیاہے،اوریہ تصورنااہلوں کےہاتھ میں شعبہ سیاست کے آجانے کی وجہ سے پھیلاہے؛حالاں کہ سیاست کرنا فی نفسہ کوئی برانہیں ہے،بلکہ سیاست اسلامی شعبوں کااہم ترین شعبہ اورتاریخ اسلامی کاروشن باب رہاہے؛اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بدنام زمانہ اورظالمانہ سیاست میں عادل لوگ آکر اسے عادلہ بنائیں۔

 جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر عاقل و بالغ مرد وعورت کی آراء و مشورے سے ملک کا نظام چلتاہے۔ حکمرانوں کا تخت و تاج اس ملک کے عوام کے ہاتھوں میں ہو تاہے ،وہ اپنی رائے دہی کے ذریعہ پورے ملک کا یااس کے ایک صوبہ کاسربراہ متعین کر تے ہیں؛چنانچہ ہماراملک ہندوستان بھی ہر ہندوستانی کو یعنی جس کی عمر ۱۸/سال ہوچکی ہے،یہ حق دیتاہے کہ وہ ملک کے کسی فر دکو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے یا اس میں کسی طرح کی شرکت کے لیے ان کے منتخب اشخاص میں سے کسی کا نام پیش کرتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جمہوریت میں سب سے زیادہ اہمیت ووٹ کی ہوتی ہے۔

 اسلامی نقطہ نظر سے اس حق کی چار حیثیتیں ہیں:

 وکالت : یعنی جب کوئی آدمی کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو گویا کہ وہ اپناحق حاصل کر نے اور ملک کو صحیح نہج پر چلانے کے لیے اس کو وکیل بناتاہے ۔ شریعت میں وکالت کا ثبوت قرآن کریم کی سورہ کہف کی آیت نمبر۱۹ سے ہے، جس میں اصحاب کہف نے اپنے میں سے ایک آدمی کو وکیل بناکر شہر میں کھانا خرید نے کے لیے بھیجا تھا، تو فقہاء کرام نے اسی آیت سے توکیل کو ثابت کیا ہے۔درمختارمیں ہے:(التَّوْكِيلُ صَحِيحٌ) بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، قَالَ تَعَالَى {فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ} [الكهف:۱۹] ( الدرالمختارعلی ردالمحتار:۵/۵۰۹)۔ اس صورت میںوکیل بنانے والے(ووٹر)اپنے وکیل(صاحب اقتدار) کے خیر وشر میں حکماً شریک ہوں گے، اور اسی اعتبار سے انھیں ثواب یا گناہ ملے گا۔

 شفاعت: یعنی جب کوئی کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے توگویا کہ وہ گورنراورالیکشن کمیشن بورڈسے اسکے حق میں سفارش کر تا ہے کہ اس کی نظر میں فلاں آدمی فلاں عہدہ کے لیے مناسب اوربہترہے،جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کوعہدہ نبوت سے سرفرازکر نے کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کی تھی۔قرآن کریم میں ہے:وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي ،(۲۹) هَارُونَ أَخِي (۳۰) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (۳۱) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (۳۲)۔ترجمہ:اورمیرے واسطے میرے کنبہ میں سے ایک معاون مقررکردیجئے،یعنی ہارون علیہ السلام کو جو میرے بھائی ہیں،ان کے ذریعہ سے میری قوت کو مستحکم کردیجئے، اوران کو میرے اس کام میں شریک کردیجئے۔(سورہ طہ : ۲۹-۳۲)

  شفاعت کی دو قسمیں ہیں:

 (۱) شفاعتِ حسنہ: یعنی اچھے کام میں سفارش کر نا اس صورت میں سفارش کر نے والے کواجر عظیم ملتا ہے، بلکہ اس کے لیے یہ سفارش صدقہ جاریہ بن جاتی ہے اور جس کے حق میں سفارش کی گئی ہے جب تک وہ سفارش کردہ شئی کو بر روئے کار لاتارہے گا، تب تک سفارش کر نے والے کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔

 (۲)شفاعت ِسیئہ: یعنی کسی برے کام میں سفارش کر نا۔اس صورت میں سفارش کر نے والا سفارش کئے جانے والے شخص کے جرم میں برابر کا شریک ہوگا، اور اللہ کے یہاں اس پر مؤاخذہ ہوگا۔قرآن کریم میں ہے:مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا۔ترجمہ: جوشخص اچھی سفارش کرے،اس کو اس وجہ سے حصہ ملے گا،اورجوشخص بری سفارش کرے،اس کو اس کی وجہ سےحصہ ملے گا۔( سورہ نساء:۸۵)

 مشاورت : رائے و مشورہ سے حکومت کا قیام اور امورِ مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرّہ امتیاز رہا ہے ۔اسلام نے رائے طلب کر نے کا حکم دیا ہے: و شاورھم في الأمر(آل عمران :۱۵۹) آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کی خلافت مشورہ سے طے پائی، اورآپؓ نے صحابہ کے مشورہ سے حضرت عمرؓ کو نامزد فرمایا اور حضرت عمر ؓ نے بھی چھ آدمیوں کے نام پیش کیے کہ مسلمان ان میں سے کسی کواپنی صواب دید پر امیر منتخب کر لیں۔ایسا معاملہ حضرت علیؓ اور ان کے بعدبھی ہوا۔خلافت ِ راشدہ میں ایک مجلس شوری تھی جس میں بحث و مباحثہ کے بعد اہم امورطے پاتے تھے۔ اس مجلس شوری میں عمر کے تفاوت کا لحاظ کئے بغیر دانائی و قابلیت، علم و فضل، ورع و تقوی اور سیاسی سوجھ بوجھ کو معیار بنایا گیا تھا۔ اسی نقطہ نظرسے حضرت عمر ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو-جب کہ آپ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے- اکابر صحابہ کے ساتھ مجلس شوری میں شریک کر لیا تھا۔ (بخاری۲/۷۴۳)

 اللہ تعالی کا ارشادہے: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا(سورہ نساء ۵۸) ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم کر تاہے کہ تم امانتوں کو ان کے مستحقین کے تک پہونچادو۔اس آیت کے تحت تفسیرقرطبی میں ہے کہ امانت کا تعلق ہر چیز سے ہے۔( تفسیر قرطبی۵/۱۶۶) نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: المستشار مؤتمن، ( ابوداؤد ،حدیث نمبر:۱۵۵۸)یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ مشورہ دینے کے بارے میں امین ہے اور امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ صحیح اوردرست مشورہ دیا جائے۔ا س لحاظ سے رائے دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ باصلاحیت ، قوم و ملت کا ہمدد، اخلاق و کر دار کا پیکر اور فرض شناس کے حق میں ووٹ دیں ورنہ از روئے شرع وہ امانت میں خیانت کرنے والااور گنہگار ہوگا۔

 شہادت: چوتھی حیثیت شہادت کی ہے، یعنی ووٹر اپنے ووٹ کے ذریعہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ فلاں منصب کے لیے درکار ساری صلاحیتیں فلاں آدمی کے اندر موجود ہیں۔ وہ آدمی امانت داری اور دیانت داری کے ساتھ اس فریضہ کوانجام دے سکتاہے، اس کے اندر قوم و ملت کا دردہے۔ ایسے امیدوار کوووٹ دینا سچی گواہی ہے ۔قرآن نے سچی گواہی دینے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے : وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ (۳۳) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (۳۴)أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ( ۳۵)ترجمہ:اورجواپنی گواہیوں کوٹھیک ٹھیک اداکرتے ہیں،اورجو فرض نمازوں کی پابندی کرتے ہیں،یہی لوگ بہشتوں میں عزت سے داخل ہوں گے۔(سورہ معارج۳۳-۳۵) ؛ لہذا کسی نا اہل ،ملک و ملت کا غدار ،مجرم پیشہ بلکہ پولس نامزد یا نامور مجرم اور خود غرض وضمیرفروش نیز مسلم دشمنی میں مشہور و معروف ،فتنہ پھیلانے اورفساد کرنے والےشخص کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے،جو ناجائز اورحرام ہے۔ قرآن وسنت میں جھوٹی گواہی کی سخت ممانعت آئی ہے،وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ یعنی جھوٹی گواہی سے بچو ( سورہ حج: ۳۰) اسی طرح قرآن نے ضرورت کے وقت گواہی کوچھپانے کی مذمت کر تے ہوئے اسے گناہ عظیم کہا ہے۔وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ( سورہ بقرہ۲۸۳)ترجمہ: لہذا ضرورت کے وقت ووٹ نہ دینا شہادت کے چھپانے کے مرادف ہوگااور آدمی گنہگار ہوگا۔

 خلاصہ یہ ہے کہ ووٹ کی حیثیت خواہ وکالت کی ہو،یاشفاعت کی،مشاورت کی ہویاشہادت کی، ہرپہلوسے قرآن وسنت میں اس کی جڑیں پیوست ہیں اوراس تعلق سے اس میں واضح ہدایتیں موجود ہیں؛چوں کہ ہندوستان میں ووٹنگ اور الیکشن سے الگ تھلگ رہنے سے قومی اور سیاسی سطح پر مسلمانوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہنے کا خطرہ ہے اورمسلمان رہے سہے مذہبی تشخصات کی حفاظت بھی نہیں کر پائیں گے۔ان کی جان و مال اور عزت و آبرو ہر وقت خطرہ میں رہیں گے جن کا تحفظ شریعت کے مقاصد میں سے ہے،اس لیے ا ن حالات میں الیکشن میں حصہ لینا اوراپنے ووٹ کاصحیح استعمال کرناواجب (لغیرہ)ہے۔اس سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ ملاحظہ ہو: جمہوری ملک میں ووٹ کی غیر معمولی اہمیتجمہوری ملک میں ووٹ کی شرعی حیثیت
باصلاحیت ، امانت دار اور قوم وملت کے ہمدرد کو ووٹ دینا ضروری ہے، ورنہ امانت میں خیانت ہوگی۔
قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
حقیقی سیاست یہ ہے کہ انسانوں کی علمی، فکری، سماجی اور معاشرتی اصلاح اس طرح کی جائے کہ دنیاو آخرت میں نجات اور سکون حاصل ہواور انسان صحیح معنی میں اپنے خدا کے سامنے سر بسجودہو سکے۔ اسی سیاست کے ذریعہ عدل و انصاف کی حکومت اور ظلم واستبداد کاخاتمہ ممکن ہے۔خدائی احکام پر عمل اور طاغوتی قوانین کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔سیاست کے ذریعہ پرامن اور صالح معاشرہ کی بنیادڈالی جاسکتی ہے۔دراصل سیاست ہر زمانہ میں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین کامنصب رہاہے۔ خداکی وحدانیت ، انبیاء و رسل کی نبوت و رسالت، حشر ونشر ،قیامت و آخرت اور دین و ومذہب کی تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیاست وحکومت کے ذریعہ بھی لوگوں کی اصلاح کی ہے۔ظلم وستم کی تاریکی میں اخوت و بھائی چارگی کاشمع روشن کیا ہےاورہمدردی و غمگساری کا سبق سکھایا۔ایسی سیاست و حکومت کا نام امارت و خلافت ہے جو آنحضرت ﷺکی وفات کے ۳۰سال بعدتک جاری رہی؛ اوراسکے کچھ اثر و نقوش خلافت عثمانیہ تک باقی رہے۔ان خاصان خدا کی سیاست میں ارباب حکومت اخلاص و للہیت کے ساتھ خدائی قانون نافذ کر تے تھے۔ ان کا دستور قرآن و سنت ہوتاتھا۔ان کے دل میں خوفِ خدا اور آخرت کا تصور رہتاتھا۔حکمراں اپنی طرز زندگی کو معیاری بنانے کے بجائے عوام کو راحت وسہولت بہم پہونچانے کی کوشش کر تے تھے۔
علامہ طرابلسیؒ فرماتے ہیں کہ سیاست کی دو قسمیں ہیں : سیاست ظالمہ اور سیاست عادلہ ۔سیاست ظالمہ حرام ہے او رسیاست عادلہ نہایت ہی ضروری ہے۔اس لیے کہ اس سے مخلوق کو ظلم سے بچایا جا سکتاہے، اور اس کے ذریعہ بندوں کا شریعت پر چلنا آسان ہوگا۔شرعی سیاست یعنی سیاست عادلہ کے انکا رسے نصوص شرعیہ کا انکار اور خلفاء راشدین کی تغلیط لازم آئے گی؛ لہذا سیاست عادلہ میں حصہ لینا ضروری ہے ۔ (معین الحکام ۱/۱۹۹(
فی زمانہ لفظ سیاست اس قدر بدنام ہوچکاہے کہ لوگ اس لفظ کااستعمال گالی اورلعن وطعن کے طورپر کرنے لگے ہیں،سیاست کامعنیٰ دھوکہ دہی اوررشوت خوری ہوگیاہے، کمزوروں پر ظلم وستم کرکےان کاحق دبالینےکانام سیاست بن گیاہے،اوریہ تصورنااہلوں کےہاتھ میں شعبہ سیاست کے آجانے کی وجہ سے پھیلاہے؛حالاں کہ سیاست کرنا فی نفسہ کوئی برانہیں ہے،بلکہ سیاست اسلامی شعبوں کااہم ترین شعبہ اورتاریخ اسلامی کاروشن باب رہاہے؛اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بدنام زمانہ اورظالمانہ سیاست میں عادل لوگ آکر اسے عادلہ بنائیں۔
جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر عاقل و بالغ مرد وعورت کی آراء و مشورے سے ملک کا نظام چلتاہے۔ حکمرانوں کا تخت و تاج اس ملک کے عوام کے ہاتھوں میں ہو تاہے ،وہ اپنی رائے دہی کے ذریعہ پورے ملک کا یااس کے ایک صوبہ کاسربراہ متعین کر تے ہیں؛چنانچہ ہماراملک ہندوستان بھی ہر ہندوستانی کو یعنی جس کی عمر ۱۸/سال ہوچکی ہے،یہ حق دیتاہے کہ وہ ملک کے کسی فر دکو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے یا اس میں کسی طرح کی شرکت کے لیے ان کے منتخب اشخاص میں سے کسی کا نام پیش کرتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جمہوریت میں سب سے زیادہ اہمیت ووٹ کی ہوتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے اس حق کی چار حیثیتیں ہیں:
وکالت : یعنی جب کوئی آدمی کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو گویا کہ وہ اپناحق حاصل کر نے اور ملک کو صحیح نہج پر چلانے کے لیے اس کو وکیل بناتاہے ۔ شریعت میں وکالت کا ثبوت قرآن کریم کی سورہ کہف کی آیت نمبر۱۹ سے ہے، جس میں اصحاب کہف نے اپنے میں سے ایک آدمی کو وکیل بناکر شہر میں کھانا خرید نے کے لیے بھیجا تھا، تو فقہاء کرام نے اسی آیت سے توکیل کو ثابت کیا ہے۔درمختارمیں ہے:(التَّوْكِيلُ صَحِيحٌ) بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، قَالَ تَعَالَى {فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ} [الكهف:۱۹] ( الدرالمختارعلی ردالمحتار:۵/۵۰۹)۔ اس صورت میںوکیل بنانے والے(ووٹر)اپنے وکیل(صاحب اقتدار) کے خیر وشر میں حکماً شریک ہوں گے، اور اسی اعتبار سے انھیں ثواب یا گناہ ملے گا۔
شفاعت: یعنی جب کوئی کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے توگویا کہ وہ گورنراورالیکشن کمیشن بورڈسے اسکے حق میں سفارش کر تا ہے کہ اس کی نظر میں فلاں آدمی فلاں عہدہ کے لیے مناسب اوربہترہے،جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کوعہدہ نبوت سے سرفرازکر نے کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کی تھی۔قرآن کریم میں ہے:وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي ،(۲۹) هَارُونَ أَخِي (۳۰) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (۳۱) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (۳۲)۔ترجمہ:اورمیرے واسطے میرے کنبہ میں سے ایک معاون مقررکردیجئے،یعنی ہارون علیہ السلام کو جو میرے بھائی ہیں،ان کے ذریعہ سے میری قوت کو مستحکم کردیجئے، اوران کو میرے اس کام میں شریک کردیجئے۔(سورہ طہ : ۲۹-۳۲)
شفاعت کی دو قسمیں ہیں:
(۱) شفاعتِ حسنہ: یعنی اچھے کام میں سفارش کر نا اس صورت میں سفارش کر نے والے کواجر عظیم ملتا ہے، بلکہ اس کے لیے یہ سفارش صدقہ جاریہ بن جاتی ہے اور جس کے حق میں سفارش کی گئی ہے جب تک وہ سفارش کردہ شئی کو بر روئے کار لاتارہے گا، تب تک سفارش کر نے والے کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔
(۲)شفاعت ِسیئہ: یعنی کسی برے کام میں سفارش کر نا۔اس صورت میں سفارش کر نے والا سفارش کئے جانے والے شخص کے جرم میں برابر کا شریک ہوگا، اور اللہ کے یہاں اس پر مؤاخذہ ہوگا۔قرآن کریم میں ہے:مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا۔ترجمہ: جوشخص اچھی سفارش کرے،اس کو اس وجہ سے حصہ ملے گا،اورجوشخص بری سفارش کرے،اس کو اس کی وجہ سےحصہ ملے گا۔( سورہ نساء:۸۵)
مشاورت : رائے و مشورہ سے حکومت کا قیام اور امورِ مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرّہ امتیاز رہا ہے ۔اسلام نے رائے طلب کر نے کا حکم دیا ہے: و شاورھم في الأمر(آل عمران :۱۵۹) آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کی خلافت مشورہ سے طے پائی، اورآپؓ نے صحابہ کے مشورہ سے حضرت عمرؓ کو نامزد فرمایا اور حضرت عمر ؓ نے بھی چھ آدمیوں کے نام پیش کیے کہ مسلمان ان میں سے کسی کواپنی صواب دید پر امیر منتخب کر لیں۔ایسا معاملہ حضرت علیؓ اور ان کے بعدبھی ہوا۔خلافت ِ راشدہ میں ایک مجلس شوری تھی جس میں بحث و مباحثہ کے بعد اہم امورطے پاتے تھے۔ اس مجلس شوری میں عمر کے تفاوت کا لحاظ کئے بغیر دانائی و قابلیت، علم و فضل، ورع و تقوی اور سیاسی سوجھ بوجھ کو معیار بنایا گیا تھا۔ اسی نقطہ نظرسے حضرت عمر ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو-جب کہ آپ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے- اکابر صحابہ کے ساتھ مجلس شوری میں شریک کر لیا تھا۔ (بخاری۲/۷۴۳)
اللہ تعالی کا ارشادہے: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا(سورہ نساء ۵۸) ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم کر تاہے کہ تم امانتوں کو ان کے مستحقین کے تک پہونچادو۔اس آیت کے تحت تفسیرقرطبی میں ہے کہ امانت کا تعلق ہر چیز سے ہے۔( تفسیر قرطبی۵/۱۶۶) نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: المستشار مؤتمن، ( ابوداؤد ،حدیث نمبر:۱۵۵۸)یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ مشورہ دینے کے بارے میں امین ہے اور امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ صحیح اوردرست مشورہ دیا جائے۔ا س لحاظ سے رائے دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ باصلاحیت ، قوم و ملت کا ہمدد، اخلاق و کر دار کا پیکر اور فرض شناس کے حق میں ووٹ دیں ورنہ از روئے شرع وہ امانت میں خیانت کرنے والااور گنہگار ہوگا۔
شہادت: چوتھی حیثیت شہادت کی ہے، یعنی ووٹر اپنے ووٹ کے ذریعہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ فلاں منصب کے لیے درکار ساری صلاحیتیں فلاں آدمی کے اندر موجود ہیں۔ وہ آدمی امانت داری اور دیانت داری کے ساتھ اس فریضہ کوانجام دے سکتاہے، اس کے اندر قوم و ملت کا دردہے۔ ایسے امیدوار کوووٹ دینا سچی گواہی ہے ۔قرآن نے سچی گواہی دینے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے : وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ (۳۳) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (۳۴)أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ( ۳۵)ترجمہ:اورجواپنی گواہیوں کوٹھیک ٹھیک اداکرتے ہیں،اورجو فرض نمازوں کی پابندی کرتے ہیں،یہی لوگ بہشتوں میں عزت سے داخل ہوں گے۔(سورہ معارج۳۳-۳۵) ؛ لہذا کسی نا اہل ،ملک و ملت کا غدار ،مجرم پیشہ بلکہ پولس نامزد یا نامور مجرم اور خود غرض وضمیرفروش نیز مسلم دشمنی میں مشہور و معروف ،فتنہ پھیلانے اورفساد کرنے والےشخص کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے،جو ناجائز اورحرام ہے۔ قرآن وسنت میں جھوٹی گواہی کی سخت ممانعت آئی ہے،وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ یعنی جھوٹی گواہی سے بچو ( سورہ حج: ۳۰) اسی طرح قرآن نے ضرورت کے وقت گواہی کوچھپانے کی مذمت کر تے ہوئے اسے گناہ عظیم کہا ہے۔وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ( سورہ بقرہ۲۸۳)ترجمہ: لہذا ضرورت کے وقت ووٹ نہ دینا شہادت کے چھپانے کے مرادف ہوگااور آدمی گنہگار ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ووٹ کی حیثیت خواہ وکالت کی ہو،یاشفاعت کی،مشاورت کی ہویاشہادت کی، ہرپہلوسے قرآن وسنت میں اس کی جڑیں پیوست ہیں اوراس تعلق سے اس میں واضح ہدایتیں موجود ہیں؛چوں کہ ہندوستان میں ووٹنگ اور الیکشن سے الگ تھلگ رہنے سے قومی اور سیاسی سطح پر مسلمانوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہنے کا خطرہ ہے اورمسلمان رہے سہے مذہبی تشخصات کی حفاظت بھی نہیں کر پائیں گے۔ان کی جان و مال اور عزت و آبرو ہر وقت خطرہ میں رہیں گے جن کا تحفظ شریعت کے مقاصد میں سے ہے،اس لیے ا ن حالات میں الیکشن میں حصہ لینا اوراپنے ووٹ کاصحیح استعمال کرناواجب (لغیرہ)ہے۔اس سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ ملاحظہ ہو: جمہوری ملک میں ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے ، اس اہمیت کے پیش نظر مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس حق کا بھر پور استعمال کرے۔ (اسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلے: صفحہ ۱۳۶، دفعہ نمبر: ۱)
رابطہ: 8080697348
mdfaiyazqasmi@gmail.com ہے ، اس اہمیت کے پیش نظر مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس حق کا بھر پور استعمال کرے۔ (اسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلے: صفحہ ۱۳۶، دفعہ نمبر: ۱)

  رابطہ: 8080697348

mdfaiyazqasmi@gmail.comجمہوری ملک میں ووٹ کی شرعی حیثیت
باصلاحیت ، امانت دار اور قوم وملت کے ہمدرد کو ووٹ دینا ضروری ہے، ورنہ امانت میں خیانت ہوگی۔
قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
حقیقی سیاست یہ ہے کہ انسانوں کی علمی، فکری، سماجی اور معاشرتی اصلاح اس طرح کی جائے کہ دنیاو آخرت میں نجات اور سکون حاصل ہواور انسان صحیح معنی میں اپنے خدا کے سامنے سر بسجودہو سکے۔ اسی سیاست کے ذریعہ عدل و انصاف کی حکومت اور ظلم واستبداد کاخاتمہ ممکن ہے۔خدائی احکام پر عمل اور طاغوتی قوانین کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔سیاست کے ذریعہ پرامن اور صالح معاشرہ کی بنیادڈالی جاسکتی ہے۔دراصل سیاست ہر زمانہ میں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین کامنصب رہاہے۔ خداکی وحدانیت ، انبیاء و رسل کی نبوت و رسالت، حشر ونشر ،قیامت و آخرت اور دین و ومذہب کی تبلیغ و دعوت کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیاست وحکومت کے ذریعہ بھی لوگوں کی اصلاح کی ہے۔ظلم وستم کی تاریکی میں اخوت و بھائی چارگی کاشمع روشن کیا ہےاورہمدردی و غمگساری کا سبق سکھایا۔ایسی سیاست و حکومت کا نام امارت و خلافت ہے جو آنحضرت ﷺکی وفات کے ۳۰سال بعدتک جاری رہی؛ اوراسکے کچھ اثر و نقوش خلافت عثمانیہ تک باقی رہے۔ان خاصان خدا کی سیاست میں ارباب حکومت اخلاص و للہیت کے ساتھ خدائی قانون نافذ کر تے تھے۔ ان کا دستور قرآن و سنت ہوتاتھا۔ان کے دل میں خوفِ خدا اور آخرت کا تصور رہتاتھا۔حکمراں اپنی طرز زندگی کو معیاری بنانے کے بجائے عوام کو راحت وسہولت بہم پہونچانے کی کوشش کر تے تھے۔
علامہ طرابلسیؒ فرماتے ہیں کہ سیاست کی دو قسمیں ہیں : سیاست ظالمہ اور سیاست عادلہ ۔سیاست ظالمہ حرام ہے او رسیاست عادلہ نہایت ہی ضروری ہے۔اس لیے کہ اس سے مخلوق کو ظلم سے بچایا جا سکتاہے، اور اس کے ذریعہ بندوں کا شریعت پر چلنا آسان ہوگا۔شرعی سیاست یعنی سیاست عادلہ کے انکا رسے نصوص شرعیہ کا انکار اور خلفاء راشدین کی تغلیط لازم آئے گی؛ لہذا سیاست عادلہ میں حصہ لینا ضروری ہے ۔ (معین الحکام ۱/۱۹۹(
فی زمانہ لفظ سیاست اس قدر بدنام ہوچکاہے کہ لوگ اس لفظ کااستعمال گالی اورلعن وطعن کے طورپر کرنے لگے ہیں،سیاست کامعنیٰ دھوکہ دہی اوررشوت خوری ہوگیاہے، کمزوروں پر ظلم وستم کرکےان کاحق دبالینےکانام سیاست بن گیاہے،اوریہ تصورنااہلوں کےہاتھ میں شعبہ سیاست کے آجانے کی وجہ سے پھیلاہے؛حالاں کہ سیاست کرنا فی نفسہ کوئی برانہیں ہے،بلکہ سیاست اسلامی شعبوں کااہم ترین شعبہ اورتاریخ اسلامی کاروشن باب رہاہے؛اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بدنام زمانہ اورظالمانہ سیاست میں عادل لوگ آکر اسے عادلہ بنائیں۔
جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر عاقل و بالغ مرد وعورت کی آراء و مشورے سے ملک کا نظام چلتاہے۔ حکمرانوں کا تخت و تاج اس ملک کے عوام کے ہاتھوں میں ہو تاہے ،وہ اپنی رائے دہی کے ذریعہ پورے ملک کا یااس کے ایک صوبہ کاسربراہ متعین کر تے ہیں؛چنانچہ ہماراملک ہندوستان بھی ہر ہندوستانی کو یعنی جس کی عمر ۱۸/سال ہوچکی ہے،یہ حق دیتاہے کہ وہ ملک کے کسی فر دکو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے یا اس میں کسی طرح کی شرکت کے لیے ان کے منتخب اشخاص میں سے کسی کا نام پیش کرتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں جمہوریت میں سب سے زیادہ اہمیت ووٹ کی ہوتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے اس حق کی چار حیثیتیں ہیں:
وکالت : یعنی جب کوئی آدمی کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو گویا کہ وہ اپناحق حاصل کر نے اور ملک کو صحیح نہج پر چلانے کے لیے اس کو وکیل بناتاہے ۔ شریعت میں وکالت کا ثبوت قرآن کریم کی سورہ کہف کی آیت نمبر۱۹ سے ہے، جس میں اصحاب کہف نے اپنے میں سے ایک آدمی کو وکیل بناکر شہر میں کھانا خرید نے کے لیے بھیجا تھا، تو فقہاء کرام نے اسی آیت سے توکیل کو ثابت کیا ہے۔درمختارمیں ہے:(التَّوْكِيلُ صَحِيحٌ) بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، قَالَ تَعَالَى {فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ} [الكهف:۱۹] ( الدرالمختارعلی ردالمحتار:۵/۵۰۹)۔ اس صورت میںوکیل بنانے والے(ووٹر)اپنے وکیل(صاحب اقتدار) کے خیر وشر میں حکماً شریک ہوں گے، اور اسی اعتبار سے انھیں ثواب یا گناہ ملے گا۔
شفاعت: یعنی جب کوئی کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے توگویا کہ وہ گورنراورالیکشن کمیشن بورڈسے اسکے حق میں سفارش کر تا ہے کہ اس کی نظر میں فلاں آدمی فلاں عہدہ کے لیے مناسب اوربہترہے،جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کوعہدہ نبوت سے سرفرازکر نے کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کی تھی۔قرآن کریم میں ہے:وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي ،(۲۹) هَارُونَ أَخِي (۳۰) اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي (۳۱) وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي (۳۲)۔ترجمہ:اورمیرے واسطے میرے کنبہ میں سے ایک معاون مقررکردیجئے،یعنی ہارون علیہ السلام کو جو میرے بھائی ہیں،ان کے ذریعہ سے میری قوت کو مستحکم کردیجئے، اوران کو میرے اس کام میں شریک کردیجئے۔(سورہ طہ : ۲۹-۳۲)
شفاعت کی دو قسمیں ہیں:
(۱) شفاعتِ حسنہ: یعنی اچھے کام میں سفارش کر نا اس صورت میں سفارش کر نے والے کواجر عظیم ملتا ہے، بلکہ اس کے لیے یہ سفارش صدقہ جاریہ بن جاتی ہے اور جس کے حق میں سفارش کی گئی ہے جب تک وہ سفارش کردہ شئی کو بر روئے کار لاتارہے گا، تب تک سفارش کر نے والے کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔
(۲)شفاعت ِسیئہ: یعنی کسی برے کام میں سفارش کر نا۔اس صورت میں سفارش کر نے والا سفارش کئے جانے والے شخص کے جرم میں برابر کا شریک ہوگا، اور اللہ کے یہاں اس پر مؤاخذہ ہوگا۔قرآن کریم میں ہے:مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا۔ترجمہ: جوشخص اچھی سفارش کرے،اس کو اس وجہ سے حصہ ملے گا،اورجوشخص بری سفارش کرے،اس کو اس کی وجہ سےحصہ ملے گا۔( سورہ نساء:۸۵)
مشاورت : رائے و مشورہ سے حکومت کا قیام اور امورِ مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرّہ امتیاز رہا ہے ۔اسلام نے رائے طلب کر نے کا حکم دیا ہے: و شاورھم في الأمر(آل عمران :۱۵۹) آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کی خلافت مشورہ سے طے پائی، اورآپؓ نے صحابہ کے مشورہ سے حضرت عمرؓ کو نامزد فرمایا اور حضرت عمر ؓ نے بھی چھ آدمیوں کے نام پیش کیے کہ مسلمان ان میں سے کسی کواپنی صواب دید پر امیر منتخب کر لیں۔ایسا معاملہ حضرت علیؓ اور ان کے بعدبھی ہوا۔خلافت ِ راشدہ میں ایک مجلس شوری تھی جس میں بحث و مباحثہ کے بعد اہم امورطے پاتے تھے۔ اس مجلس شوری میں عمر کے تفاوت کا لحاظ کئے بغیر دانائی و قابلیت، علم و فضل، ورع و تقوی اور سیاسی سوجھ بوجھ کو معیار بنایا گیا تھا۔ اسی نقطہ نظرسے حضرت عمر ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو-جب کہ آپ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے- اکابر صحابہ کے ساتھ مجلس شوری میں شریک کر لیا تھا۔ (بخاری۲/۷۴۳)
اللہ تعالی کا ارشادہے: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا(سورہ نساء ۵۸) ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم کر تاہے کہ تم امانتوں کو ان کے مستحقین کے تک پہونچادو۔اس آیت کے تحت تفسیرقرطبی میں ہے کہ امانت کا تعلق ہر چیز سے ہے۔( تفسیر قرطبی۵/۱۶۶) نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: المستشار مؤتمن، ( ابوداؤد ،حدیث نمبر:۱۵۵۸)یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ مشورہ دینے کے بارے میں امین ہے اور امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ صحیح اوردرست مشورہ دیا جائے۔ا س لحاظ سے رائے دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ باصلاحیت ، قوم و ملت کا ہمدد، اخلاق و کر دار کا پیکر اور فرض شناس کے حق میں ووٹ دیں ورنہ از روئے شرع وہ امانت میں خیانت کرنے والااور گنہگار ہوگا۔
شہادت: چوتھی حیثیت شہادت کی ہے، یعنی ووٹر اپنے ووٹ کے ذریعہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ فلاں منصب کے لیے درکار ساری صلاحیتیں فلاں آدمی کے اندر موجود ہیں۔ وہ آدمی امانت داری اور دیانت داری کے ساتھ اس فریضہ کوانجام دے سکتاہے، اس کے اندر قوم و ملت کا دردہے۔ ایسے امیدوار کوووٹ دینا سچی گواہی ہے ۔قرآن نے سچی گواہی دینے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے : وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ (۳۳) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (۳۴)أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ( ۳۵)ترجمہ:اورجواپنی گواہیوں کوٹھیک ٹھیک اداکرتے ہیں،اورجو فرض نمازوں کی پابندی کرتے ہیں،یہی لوگ بہشتوں میں عزت سے داخل ہوں گے۔(سورہ معارج۳۳-۳۵) ؛ لہذا کسی نا اہل ،ملک و ملت کا غدار ،مجرم پیشہ بلکہ پولس نامزد یا نامور مجرم اور خود غرض وضمیرفروش نیز مسلم دشمنی میں مشہور و معروف ،فتنہ پھیلانے اورفساد کرنے والےشخص کو ووٹ دینا جھوٹی گواہی ہے،جو ناجائز اورحرام ہے۔ قرآن وسنت میں جھوٹی گواہی کی سخت ممانعت آئی ہے،وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ یعنی جھوٹی گواہی سے بچو ( سورہ حج: ۳۰) اسی طرح قرآن نے ضرورت کے وقت گواہی کوچھپانے کی مذمت کر تے ہوئے اسے گناہ عظیم کہا ہے۔وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ( سورہ بقرہ۲۸۳)ترجمہ: لہذا ضرورت کے وقت ووٹ نہ دینا شہادت کے چھپانے کے مرادف ہوگااور آدمی گنہگار ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ووٹ کی حیثیت خواہ وکالت کی ہو،یاشفاعت کی،مشاورت کی ہویاشہادت کی، ہرپہلوسے قرآن وسنت میں اس کی جڑیں پیوست ہیں اوراس تعلق سے اس میں واضح ہدایتیں موجود ہیں؛چوں کہ ہندوستان میں ووٹنگ اور الیکشن سے الگ تھلگ رہنے سے قومی اور سیاسی سطح پر مسلمانوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہنے کا خطرہ ہے اورمسلمان رہے سہے مذہبی تشخصات کی حفاظت بھی نہیں کر پائیں گے۔ان کی جان و مال اور عزت و آبرو ہر وقت خطرہ میں رہیں گے جن کا تحفظ شریعت کے مقاصد میں سے ہے،اس لیے ا ن حالات میں الیکشن میں حصہ لینا اوراپنے ووٹ کاصحیح استعمال کرناواجب (لغیرہ)ہے۔اس سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ ملاحظہ ہو: جمہوری ملک میں ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے ، اس اہمیت کے پیش نظر مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس حق کا بھر پور استعمال کرے۔ (اسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلے: صفحہ ۱۳۶، دفعہ نمبر: ۱)
رابطہ: 8080697348
mdfaiyazqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں