یاور رحمن
مسلمانوں کی بے پناہی کسی کو دیکھنی ہو تو موسم انتخاب میں دیکھ لے۔ دیکھ لے کہ وہ ایک مخصوص پارٹی کی مخالفت میں کیسے کیسوں کو گلے لگا رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ تمام دعویداروں میں ایک بھی انکا مخلص نہیں ہے۔ اور یہ اخلاص تو خود انکے اپنے گھر میں نہیں ہے۔ ہوتا تو وہ آج ایسے بے یار و مددگار نہ ہوتے۔ وہ اس قدر شرمناک حد تک بے وزن نہ ہو چکے ہوتے ۔ ان کا یہ حال خود ان کے اپنوں نے کیا ہے جو جدید سیاسیات کی ‘قاعدہ بغدادی’ تک سے نا واقف ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ ہیں جو سیاست کے شو روموں میں نچلے درجے کے ‘ سیلز مین ‘ ہیں جنکا مقصد کمپنی کے پروڈکٹس کو مسلمان علاقوں میں کسی طور بیچ کر اپنی نوکریاں بحال رکھنا ہے۔ یہ بیچارے تو نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ ان کا خود اپنا مستقبل پارٹی ہائی کمان کے فیصلوں پر ڈولتا رہتا ہے۔ ایسے ‘پروموشن پرست ‘خدام کی فوج اگر سات ارب بھی ہو جاۓ تو وہ کسی ایک کی تقدیر نہیں بدل سکتی بھلا قوم کے لئے کیا خاک کر سکتی ہے ؟ دوسرے وہ ہیں جو مسلم معاشرے میں اپنی مذہبی جاگیر کے حوالوں سے ایوان سیاست میں اپنی پگڑیاں بیچ رہے ہیں۔ یہ مذہبی قائد ین ہیں جو مسلمانوں کو مسند مدرسہ و خانقاہ پر قال اللّه قال الرسول کی تان سے مدہوش کرنے کے بعد “اھون البلیتین” کا ورد کرا تے ہیں ، ووٹ کو ایک دینی و ملی فریضہ بتاتے ہوئے الیکشن کے منجھدار میں اچانک کھیو ن ہار بن جاتے ہیں۔ کچھ آزاد سوداگر بھی ہیں جن کی اصل خرابی یہی ہے کہ وہ بھی اپنی قوم کو محض ایک ووٹر ہی سمجھتے ہیں ۔ انکی پنڈلیوں سے ‘موروثی جاگیریت’ کا جونک چمٹا ہوا ہے۔ وہ مسلمانوں کو اپنے اجداد سے ملی ہوئی رعیت سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ان کے ساتھ تو ایک مشکل یہ بھی ہے کہ انکی قیادت سیاسی کم اور مذہبی زیادہ بن جاتی ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کی بات کرتی ہے۔ وہ اپنی شکل و شباہت کو زبردستی مذہبی بناتی ہے۔ اسکی سیاسی تقریروں کا آغاز بسم اللّه کے زور و شور سے ہوتا ہے چاہے تقریر کا بقیہ حصہ سیاسی مخالفین کو دی گئی گالیوں اور بہتانوں سے لبالب کیوں نہ ہو ۔ دراصل اسی طریقۂ سیاست نے ” ہندتوا سیاست ” کو ایندھن فراہم کیا ہے۔
اس ملک میں ہونے والے انتخابات میں مسلمان نمک کی طرح یاد کیا جاتا ہے۔ انتخابی منشوروں میں سیاستدانوں کے وعدے کسی نہ کسی حوالے سے مسلمانوں کے ارد گرد ہی گردش کرتے ہیں۔ نیتاؤں کی انتخابی تقریروں میں یا میڈیا کی ہیجانی خبروں میں کسی نہ کسی عنوان سے مسلمان ہی زیر زبان رہتا ہے۔ کبھی ایسا معلوم پڑتا ہے جیسے میدان کے اصل کھلاڑی دو ہی ہیں۔ ایک بی جے پی اور دوسرے مسلمان۔ باقی پارٹیاں ایڈیشنل کھلاڑی کی طرح بس تیار کھڑی ہیں۔ میں تو یہ بھی سوچ لیتا ہوں کہ بی جے پی کی کوئی پوجا ارچنا بھی مسلمانوں کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی ہوگی اور بہت سے مسلمانوں کی عبادت بھی بھاجپا کو گالی دئے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہوگی۔ قصہ مختصر یہ کہ مسلمان نہ ہوتے تو انتخابات لا یعنی ہی ہوتے۔ مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نمک اہم تو ہوتا ہے مگر اس کی اپنی ذات زبان کی نوک تک پہنچتے ہی بے اک ذرّه بے نشان بن جاتی ہے۔
بھاجپا اور کانگریس کے درمیان ایک گروہ آج کل بڑی سرعت کے ساتھ مسلمانوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ گویا یہ گروہ مسلمانوں کی جلتی ہوئی پیشانی پر دست مسیحائی رکھ رہا ہے۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ اس مسیحا کو دیکھتے ہی بہت سے ہوشمند مسلمانوں کے مکھ پر رونق آ جاتی ہے اور لگتا ہے جیسے کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔ یہ گروہ کمیونزم کے علمبرداروں کا ہے۔ آر ایس ایس کی مخالفت کا بیڑا اٹھائے ہوئے مارکس اور لینن کے ان خیال زادوں نے ایسی ‘پیرانہ پھونک’ ماری ہے کہ مسلمان کنہیا کمار کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں۔ دلیل محبت بس اتنی ہے کہ وہ اپنی ہر تقریر میں بھگت سنگھ کے ساتھ اشفاق اللّه خان کا اور روہت ویمولا کے سنگ گمشدہ نجیب کا لاحقہ بڑی فراخدلی سے لگا لیتے ہیں۔ اور نریندر مودی کو کھل کے چلینج کرتے ہیں۔ یہ بڑا ہی نازک مقام ہے۔ ان اشتراکیوں کی دیرینہ روش اور خاص طور پر اسلام سے ان کا بیر جن اصحا ب علم و فکر کے مطالعہ میں ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس ہمدرد کا طرز مسیحائی آخر کیا چیز ہے ؟ بہر حال ، اس بات پر ایک تھنک ٹینک کی ضرورت ہے کہ آخر گزشتہ ستر سالوں میں مسلمانوں کے ‘ ہیرو ‘ پڑوسی کے گھر سے کیوں ملتے ہیں۔ ان کا اپنا ‘پروڈکشن ہاؤس’ آخر اس قدر بنجر کیوں ہے ؟ اگر یہ مسلہ سمجھ میں آ گیا اور اس کے حل کی خاطر خواہ اور منظم کوششیں کی گئیں تو یقیناً سب ٹھیک ہو جائے گا ورنہ قوم کے سب مفکرین فکری وادیوں میں اسی طرح بھٹکتے رہیں گے اور قوم مسلم ہر الیکشن میں ” اھون البلیتین ” کا اسی طرح جاپ کرتی رہ جائے گی !