ڈاکٹر یامین انصاری
سیاستدانوں کی بد زبانی صرف انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہی نہیں، بلکہ ملک کی سیاست میں اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتی ہے
ملک میں جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے، سیاستدانوں کی زبان بے قابو ہو جاتی ہے۔ با وقار اور آئینی عہدوں پر بیٹھے سیاستدان سے لے کر چھوٹےسے چھوٹے امیدوار کی زبان اور اس کے بیان کسی سڑک چلتے اوباش قسم کے شخص کی طرح ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں ایسا ہو رہا ہے، بلکہ انتخابات کے دوران اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت اس روایت کو آگے نہیں بڑھا رہی ہے، بلکہ اکثر جماعتوں کے نمائندے بد زبانی اور بد کلامی کے مقابلہ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ سیاستدانوں کو آسانی یہ ہے کہ وہ اس قسم کی بیان بازی کے ذریعہ عوام کو غیر ضروری بیان بازی میں الجھادیتے ہیں۔ اس کے بعد عوام ان سیاستدانوں سے اپنے بنیادی اور ضروری مسائل پر سوال جواب ہی نہیں کر پاتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس ملک کی سیاست میں بد کلامی اور دشنام طرازی صرف قابلِ قبول ہی نہیں، بلکہ لازمی جزو بن گیا ہو۔ جہاں سیاستدان نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف نا معقول اور لغو زبان کا استعمال کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہوں، جہاں کے سیاستدان بھری مجلسوں اور میٹنگوں میں ذات پات اور فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہوں، جس ملک کا وزیر اعظم ملک کی فوج کے کارناموں کو اپنی سیاسی حصولیابی کے طور پر پیش کرتا ہو، جس ملک کی فوج کو کسی ’مودی کی سینا‘ بتایا جاتا ہو، وہاں عوام کو کب اور کیا فرصت ملے گی کہ وہ ان سیاستدانوں کی کارکردگی پر سوال کر سکیں۔
در اصل سیاستدانوں کو جب یہ محسوس ہو نے لگے کہ وہ اپنی حرکات و سکنات سے کسی کو کوئی بھی نقصان پہنچا دیں، ان کا کچھ نہیں بگڑے گا، تو پھر ان پر لگام لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر حکمراں طبقہ تو سرکاری اور آئینی اداروں کو اپنی مٹھی میں سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کی مہم کے دوران حکمراں جماعت کے لیڈران بد کلامی اور دشنام طرازی میں سب سے آگے ہیں۔ یہاں تک کہ خود وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ذریعہ بنائے گئے گورنر بھی خود کو ابھی کسی آئینی عہدے پر نہیں سمجھتے، بلکہ وہ پارٹی کے کارکن کی طرح کام کرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال کلیان سنگھ اور تری پورہ کے گورنرتتھاگت رائے کے وہ بیان ہیں، جس کے بعد ان کے پاس گورنر کے آئینی عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں رہ جاتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس شخص نے انھیں اس باوقار عہدے پر بٹھایا ہے جب وہ خود اسی طرح کی ذہنیت رکھتا ہو اور ایسی ہی زبان استعمال کرتا ہو تو کیا خیر کی امید کی جائے۔ الیکشن کمیشن کے انتباہ کے بعد بھی نریندر مودی عوامی جلسوں میں فوجیوں کی شہادت اور ان کی قربانیوں کو اپنی حصولیابی کے طور پر بتا رہے ہیں۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ بھی اپنی شبیہ کے مطابق مسلسل قابل اعتراض اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے بیان دے رہے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں جا کر اپنی بے بسی بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس کارروائی کے محدود اختیارات ہیں۔ لیکن جب سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو اس کے اختیارات سے آگاہ کرتا ہے تو اچانک وہ حرکت میں آتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے برائے نام ہی سہی، چار بڑے لیڈران کی انتخابی مہم پر روک لگا دیتا ہے۔ جو کام وہ پہلے کر سکتا تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد کرتا ہے۔ یعنی یا تو اس کے اوپر کوئی دباؤ تھا یا پھر وہ حکمراں طبقہ پر کارروائی سے بچنے کے بہانے تلاش کر رہا تھا۔ جن بڑے لیڈران پر کارروائی کی گئی ان میں بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی ، ایس پی کے سینئر لیڈر اعظم خاں، یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور مرکزی وزیر و سینئر بی جے پی لیڈر مینکا گاندھی شامل ہیں۔ ویسے تو یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے اور اس میں ان سے بھی بڑے سیاستدان اور بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے علاوہ ہماچل پردیش بی جے پی کے صدر ستپال سنگھ ستی اور بی ایس پی لیڈر گڈو پنڈت کی بدکلامی کے ویڈیو وائرل ہورہے ہیں۔خود نریندر مودی اور امت شاہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ یہ اس ملک کی سیاست کے لئے بڑا المیہ ہے اور تشویش کا باعث بھی ہے۔ بات صرف بدکلامی تک ہی محدودنہیں ہے، بلکہ ان لیڈران کی زبان ماں بہن کی گالیوں اور سڑک چھاپ غنڈوں کی فحش حرکتوں جیسی ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ یہ سیاستداں عوامی جلسوں میں جو کچھ بول رہے ہیں، وہ یہاں لکھا بھی نہیں جا سکتا ۔اسی لئے انتخابی مہم کے دوران جمہوری اقدار و روایات کی کھلی خلاف ورزی کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کے لئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ سختی کا مظاہرہ کرے۔ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے نہ دینے کی کھلی اپیل کرنے والی بی ایس پی سربراہ مایاوتی اور ان کا جواب دینے کی کوشش میں ’علی‘ اور’ بجرنگ بلی‘ کی بات کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ کی انتخابی مہم پر بالترتیب دو اور تین دن کی پابندی کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ ان دیگر رہنماؤں کے لئے سبق ہونا چاہئے جو بے لگام ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں مایاوتی، یوگی آدتیہ ناتھ اور مینکا گاندھی جیسے لیڈر صرف مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے، وہیں کچھ اخلاقیات کو طاق پر رکھ کر سیاسی مخالفین کے خلاف ایسی نازیبا باتیں کرتے پائے گئے جن کا ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رامپور سے سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی اتحاد کے امیدوار اعظم خان نے بی جے پی کی امیدوار جیہ پردہ کے خلاف اشاروں اشاروں میں جس قسم کا تبصرہ کیا وہ مہذب معاشرے کو شرمندہ کرنے والا تھا۔
سیاستدانوں کی بدزبانی صرف انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ سیاست میں اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کے نزدیک نہ تو کسی کا کوئی احترام و عزت ہے اور نہ ہی انھیں قانون کا کوئی خوف ہے۔ در اصل سیاستدانوں کے ذریعہ اس قسم کی بیان بازی انجانے میں یا سہواً نہیں، بلکہ سوچ سمجھ کر متنازع بیان دئے جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے ان کی حکمت عملی کام کر رہی ہوتی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ رائے دہندگان کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور انھیں ضروری مسائل سے دور کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ ساتھ ہی میڈیا کی توجہ بھی اپنی جانب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ایسے لوگ نہ صرف پہلے سے جمہوریت کے مندر کہے جانے والے پارلیمنٹ میں موجود ہیں، بلکہ آئندہ بھی قانون سازی میں اپنا رول ادا کرنے والے ہیں۔ کوئی کسی کو ماں کی گالی دے رہا ہے، کوئی کسی کو جوتے مارنے کا اعلان کر رہا ہے، تو کوئی ووٹ نہ دینے پر دیکھ لینے کی دھمکی دے رہا ہے۔ کہیں کوئی لیڈر مخصوص فرقہ کی شناخت کے لئے ان کے کپڑے اتارنے کی بات کرتا ہے تو کوئی کسی خاتون لیڈر کو گھونگھٹ میں رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ آخر ان لوگوں سے کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ یہ ملک میں امن و اتحاد اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے کام کریں گے۔ کیسے یقین کیا جائے کہ جب یہ لوگ زمام اقتدار سنبھالیں گے تو ملک ترقی اور خوشحالی کے راستہ پر گامزن ہوگا۔ ہندوستانی سیاست کے لئے یہ لمحہ فکریہ اور غور و خوض کا وقت ہے۔ ہندستان کے سیاسی اقدار میں ویسے بھی گراوٹ آ رہی ہے۔ اگر ہمارے سیاستدانوں کی سوچ یہی رہے گی تو پھر یہ ملک کس سمت جائے گا۔ یہاں صرف بی جے پی اور کانگریس کا سوال نہیں ہے، بلکہ پورے سیاسی نظام اور سیاسی رہنماؤں کے کردار کا سوال ہے۔ جب ہمارا آئین ہمیں ووٹ کی طاقت کا اختیار دیتا ہے تو پھر کیوں نہ ہم ان بدزبان سیاستدانوں کا منہ دیکھنے کے بجائے اس طاقت کا استعمال کریں اور انھیں اس لائق ہی نہ چھوڑیں کہ یہ ملک کی اقدار و روایات اور قانون کی کھلی خلاف ورزی کر سکیں۔ انتخابات کا موسم ہے، ہمارے پاس موقع ہے، تو کیوں نہ اسی وقت اس نیک کام کو انجام دے دیا جائے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)