عظیم اللہ صدیقی
اذیتوں اور دشواریوں کے طول سفر کے بعد بلقیس بانو کو بالآخر انصاف مل گیا۔ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ ایک مثالی جدوجہد تھی جب ایک خاتون نے اپنا سب کچھ کھونے کے باوجود، پولس اور انتظامیہ کے منفی اور متضاد رویے ، اقتدار اور صاحب اقتدار کی عداوت پر مبنی اقدام کے باوجود کبھی اپنا حوصلہ نہیں کھویا اور وہ جنگ جیت گئی جس کی شکست کی عبارت خود گجرات کی ذیلی عدالت نے ۳۰۰۲ء میں لکھ دی تھی ، اس وقت وہاں کی عدالت نے اس کےس کو بند کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اس جنگ میں بلقیس کو جس وکیل کا سہارا ملا وہ بھی ایک خاتون تھی ، مگر وہ درحقیقت گوشت کی بنی نہیں بلکہ لوہے سے بنی ہوئی تھی، جس نے ہر سرد و گرم میں بلقیس کا ساتھ دیا ۔ اس خاتون آہن کا نام شوبھا گپتا ہے۔ سترہ سالوں تک وہ اس مقدمے کو لڑتی رہی اور باد مخالف کے باوجود اس کے حوصلے نہیں مرجھائے ۔
بلقیس کی بد نصیبی کی کہانی گجرات کے ضلع داہود کے رندھیک پور گاؤں سے شروع ہوتی ہے ، جہاں اس ابلہ ناری پر بھیانک فرقہ وارانہ فساد (۲۰۰۲ء) میں دنیا کی کتابوں کی میں لکھی ہوئی ہر قسم کے مظالم کئے گئے ۔ وہ اس وقت انیس سال کی حاملہ خاتون تھی، جس کی گود میں ایک معصوم بچی صالحہ تھی۔ اس معصوم بچی کو ماں کی آنکھوں کے سامنے پیر کٹ پر رکھ کر فسادیوں نے ٹکرے ٹکرے کردیا ، اتنا ہی نہیں بلکہ بلقیس سمیت اس کے گھر کی تمام خواتین کے ساتھ عصمت دری گئی اور پھر ان تمام خواتین کو بے رحمی سے قتل کرکے ان کی لاشوں کو نوے کلو نمک میں ڈال کر ایک گھنے جنگل میں دبا دیا گیا ۔ اور یہ سب کرنے والے کوئی اجنبی نہیں بلکہ وہ لوگ تھے جو بلقیس کے پڑوسی تھے ، ایسے بھی لوگ تھے جن کے سامنے بلقیس جوان ہوئی تھی ، چارج شیٹ میں ان مجرموں کے ناموں کے آگے بلقیس نے بھائی کا لفظ لکھا ہے اور جب ظلم ہو رہا تھا اور جب اس کی عصمت لوٹی جارہی تھی تب بھی دہائی دیتے ہوئے بلقیس نے ان کو ’ بھائی ‘ ہی کہا تھا ۔
معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ جب بلقیس انصاف مانگنے تھانہ پہنچی تو پہلی رکاوٹ ایس ایچ او سوما بھائی بنے ، اس کی قیادت میں پولس نے عصمت دری سے متعلق میڈیکل ٹسٹ سے منع کردیا ۔ پولس نے اس کی تین سالہ بیٹی صالحہ کی لاش تک اس کے حوالے نہیں کیا اور کہا کہ وہ غائب ہے ۔مجرموں کے سلسلے میں پولس نے کہا کہ اس کا پتہ نہیں چل پارہا ہے۔
مسلسل ناانصافیوں کے بعد ۲۰۰۳ء میں سپریم کورٹ کی ہدایت سے بلقیس کا مقدمہ گجرات سے ممبئی منتقل کردیا گیا، سپریم کور ٹ نے یہ تسلیم کیا کہ گجرات میں بلقیس کو انصاف نہیں مل سکتا، کیوں کہ وہاں کا حکمران نیرو ہے۔ ممبئی کورٹ نے اس مقدمے کی انکوائری سی بی آئی کے حوالے کردی، جب سی بی آئی نے انکوائری کی تو معلوم ہوا کہ جنگل میں دبی ہوئی لاشوں کے سر غائب ہیں ، ممکن ہے کہ شناخت چھپانے کے لئے اسے غائب کردیا گیا ہو۔ یہ خدا کی طرف سے تھا کہ جس نمک کے ذریعہ لاش کو ختم کرنے کی کوشش تھی ، اسی نمک نے کپڑے تک کو محفوظ رکھا ۔
خیر داستان بہت طویل ہے ، اب تو اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ بلقیس کے حق میں سپریم کا فیصلہ صرف انصاف ہی نہیں ہوا ہے بلکہ انصاف دکھا بھی ہے ، وہ اس قدر تیز اور زوردار ہے کہ ہر ایک کے کانوں میں گونج رہا ہے ۔ اسے آج ہندستان کی تاریخ میں سب سے بڑا معاوضہ ملا ہے ، شاید کسی بھی فساد یا ریپ متاثرہ کو اتنا زیادہ معاوضہ آج تک کسی عدالت نے نہیں دیا ۔بلقیس کو پچاس لاکھ نقد کے علاوہ ، مرضی کا سرکاری مکان اور ایک شخص کو نوکری دینے کا فیصلہ کیا گیا جو اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے زیڈ بنام اسٹیٹ آف بہار میں زیڈ کو دس لاکھ اور مزید تین لاکھ معاوضہ دیا تھا۔
بلقیس کے حق میں یہ فیصلہ ایسا ہے کہ جس کو نظیر بنا کر ملک بھر کے فساد متاثرین اپنا حق مانگ سکتے ہیں۔ صرف گجرات میں ہی ایسے کئی ہیں جو بلقیس جیسی اذیت کا سامنے کر چکے ہیں ، ان سے ان کی بھی امید جگی ہے ۔
بلقیس نے دہلی میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں بھی اس بات کو دوہرایا کہ دوسری خواتین کو بھی اسی طرح انصاف ملنا چاہئے۔ جس طرح پریس کانفرنس میں بلقیس حوصلے کے ساتھ نظر آئی ، اس نے اس جیسی بہت ساری مظلوم خواتین کو جینے کا سبب دیا ہے۔ اس نے دکھلادیا کہ اپنا سب رشتہ دارکھونے کے باجود (یقینا اس کے گھر میں کوئی خاتون نہیں بچی ) انصاف کی جنگ میں کھڑی رہی اور لڑتے لڑتے دہلی پہنچ گئی ۔ اس نے اس موقع پر اپنا ساتھ دینے والوں کا بھی شکریہ ادا کیا ، خاص طور سے جمعیة علمائے ہند اور اس کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ کیوں کہ جس وقت رندھیک پور گاؤں میں ہر طرف موت کا سایہ تھا، مولانا محمود مدنی اور ان کی ٹیم وہاں پہنچی تھی ۔ انھوں نے نہ صرف بلقیس کو سہارا دیا بلکہ رہنے کےلئے رندھیک پور گاؤں کے مظلوموں کو مکان بھی دیا ۔ بعد میں شوبھا گپتا اور گگن سیٹھی جی نے ان کے حق کی لڑائی لڑی ۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے کہ انصاف کی جنگ میں بلقیس کے ساتھ ایک غیر مسلم خاتون کھڑی تھی جو اس ملک میں فرقہ پرستوں کے ہرحربے کے باوجود جمہوریت اور انسانیت کی بقاء کی شہادت ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مجرم کے لئے دیر بھلے ہی ہو مگر آگے اندھیرا ہے ، کیوں کہ ظلم صرف تاریکی پیدا کرتا ہے ۔