محمد علم اللہ
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی پسماندگی اور کم مائیگی پر بہت سے دانشوروں اور محققین نے اپنے اپنے انداز میں تجزیہ کیا، مضامین، مقالات اور کتابیں لکھیں اوراس کے اسباب و وجوہات سے بحث کر کے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی۔ان میں کسی نے معاشی تنگی کو اس کی اہم وجہ قرار دیا، کسی نے فوج اور طاقت کی کمی کو، تو کسی نے مسلم حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیو ں کو اس کا سبب گردانا تو کسی نے تعلیم و تعلم کی کمی کوذمہ دار ٹھرایا۔ مولانا قاسم نانوتوی سے لیکر سر سید اور سر سید سے لیکر اب تک جس عہد میں ہم جی رہے ہیں دانشوروں کی ایک لمبی قطار ہے جنھوں نے تعلیم کو اس کی اصل وجہ قرار دیا ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان سب کے باوجود ہم اس میں اتنے ہی کمزور اور پیچھے ہیں۔
’مسلمان:حالات، وجوہات اور سوالات‘ نوجوان قلم کار اور صحافی مالک اشتر کے قلم سے نکلی ہوئی ایسی ہی ایک کتاب ہے جس میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے زوال، اس کے اسباب اور کمیوں و کوتاہیوں کی جانب نشاندہی کر کے انھیں آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔مصنف کا لہجہ دلچسپ اور رواں ہیں۔ٹی وی کے لکھاری ہونے کے باوجود انہوں نے بِنا عکس کے منظر نگاری میں بھی کمال کیا ہے کئی مرتبہ کتاب پڑھتے ہوئے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم پورے منظر کو کسی اسکرین یا ٹیلی ویڑن پر دیکھ رہے ہیں، تاریخ کے جھروکے سے مصنف کتاب میں ایسے مناظر جگہ جگہ بیان کر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مالک اشتر ایک دیدہ ور صحافی ہیں جن کے سینے میں ایک در مند دل دھڑکتا ہے، اس کا اثر کتاب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ عرض مصنف میں ہی انھوں نے انتہائی التجا کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ یہ کتاب ان کی کوئی تحقیقی تصنیف نہیں ہے بلکہ براہ راست امت سے بات کرنے کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے اور اس کا مقصد محض امت مسلمہ کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا اور ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے، جس میں یقینا مصنف کامیاب ہیں اور اس قدر عمدہ کتاب لکھنے کے لیے مبارکباد کے مستحق۔
کتاب کے کل چھے حصے ہیں اور ہر حصہ ایک دوسرے سے مربوط ہے۔پہلے مرحلے میں جدید تعلیم سے بے زاری، بھارتی مسلمان تعلیم کے میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟، بھارتی مسلمانوں میں تعلیم: حالات اتنے کیوں بگڑے؟، مذہبی قیادت کو جدید علو م سے نفرت ہے؟ جدید تعلیمی نظا م پر اعتراضات کا جائزہ، سر سید اور مذہبی قیادت کا رویہ، جدید علوم سے لا علمی اور ایرانی تیل، ایک مسمار رصد گاہ کا قصہ، منطق اور فلسفے سے نفرت کی مثالیں، مسلم فلسفی اور سائنسدانوں کا حشر، سلطان سلیم ثالث کا عبرت ناک انجام۔
دوسرے مرحلے میں دینی تعلیمی نظام کے جھول، مدارس کے نظام پر ایک نظر، دین کیا مطالبہ کرتا ہے؟ رقومات شرعی سے بنے مدارس موروثی کیسے؟
تیسرے مرحلے میں تبلیغی رویوں میں افراط و تفریط، کیا مسلمان صرف آخرت کے لیے بنے ہیں؟ تبلیغ کے سلسلے میں مختلف رویے، عورتیں دوسرے درجے کی مخلوق نہیں۔
چوتھے مرحلے میں انتشار پسندی کی انتہا، مسلکی اختلاف ختم کیوں نہیں ہوتے؟، شیعہ سنی ٹکراو: تاریخ کا ایک سبق،عثمانیوں اور صفویوں کا جھگڑا: تاریخ کا ایک اور سبق، مذہب سے بیزاری، مسلک سے وفاداری۔
پانچویں مرحلے میں ترجیحات کے تعین کا مسئلہ، یورپ اور منگول مسلمانوں کے زوال کے ذمہ دار ہیں؟ مسلمانوں میں صرف جرنیل پیدا ہویے ہیں اہل علم نہیں؟ ہیرو چننے کے ہمارے پیمانے، جاگیرداری،زمین داری اور شرعی عدالت، ہمیں کیا چاہیے کالا جادو، یا سائنس؟،مسلم تنظیمیں غیر موثر کیوں؟ جمہوریت کے بارے میں واضح موقف نہیں، ذاتی اور قومی مفاد میں کس کو ترجیح۔
چھٹے مرحلے میں فکری عدم برداشت کا رجحان، مذہبی قیادت اور جارحیت کا ناطہ، تیرِ الزام سے کسی کو امان نہیں، جلسہ تقسیم اسناد برائے گمراہی و بے دینی، اختلاف رائے کا احترام کیوں نہیں؟ مسلمانوں کا اخلاقی زوال، ذات برادری اور قبائلی تعصبات، تو اب کیا کرنا چاہیے؟ جیسے موضوعات سے بحث کیے گئے ہیں، جو اپنے آپ میں مدلل، منطقی اور اپیل کرنے والے ہیں۔
کتاب میں دینی حلقوں کی جانب سے عصری علوم اور جدید تعلیم یافتہ افراد پر اٹھنے والے سوالوں کا بھی جواب دیا گیا ہے، مصنف کھری کھری اوربے لاگ لپٹ انداز میں اپنی بات کہنے کے قائل ہیں تو کہیں کہیں لہجہ بھی ذرا سخت ہو گیا ہے لیکن علاج کے لئے دوا کڑوی ہو تو اس کو گوارا کیا جا سکتا ہے۔ مصنف جگہ جگہ ماضی کے قصے چھیڑ کر مسلمانوں کو ان کی ناکامیوں اور کوتاہ اندیشیوں کو یاد دلاتے ہیں اوراس کے ازالے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں، وہیں ان کے بزرگوں کے اچھے کارناموں کا ذکر کرکے انھیں ہمت دلانا بھی نہیں بھولتے۔ اخیر میں لائحہ عمل اور حل کے طور پر جن چیزوں کی طرف نشاندہی کی ہے قابل عمل ہیں.
کتاب میں تحقیقی کتابوں،معروف محققین اور قلم کاروں کے حوالے بھی دیے گیے ہیں جو اس کو معتبر بناتے ہیں۔ مصنف کی بعض باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی کتاب پڑھی جانے لائق ہے، قائدین ملت اور دینی مدارس کے علمائ و فارغین کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔کتاب کا مقدمہ معروف عالم دین مولانا حیدر عباس نقوی نے لکھا ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ تقریبا دو سو صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت بھی اتنی ہی ہے۔ سر ورق عمدہ اور کاغذ معیاری ہیں۔ کتاب اترپردیش کے امروہہ ضلع سے شائع ہوئی ہے اور آن لائن امازون پر بھی دستیاب ہے۔