پروفیسر اخترالواسع
گذشتہ دو ہفتے سے ملک میں جگہ جگہ احتجاج ہو رہا ہے۔ سی اے بی کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد آسام سے احتجاج کی جو چنگاری پھوٹی اب وہ تقریباً پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر اس ریاست میں جہاں غیر بی جے پی سرکاریں ہیں وہاں ہر احتجاج عدم تشدد پر مبنی ہے جب کہ ہر ریاست میں جہاں بی جے پی کی سرکاریں ہیں نہ صرف تشدد دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ سرکاری مشینری اور نظم و ضبط کی ذمہ داری ایجینسیاں خاصا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور ان کے ظلم و ستم اور نفرت آمیز تشدد کا نشانہ خاص طور سے مسلمانوں کو بنایا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بدترین مثال اترپردیش کی ریاست ہے جہاں کے وزیر اعلیٰ نے اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کرانے کے بجائے احتجاج کرنے والوں کی املاک اور اجتماعی جرمانوں کی ادائیگی کے نام پر ایک مخصوص مذہبی فرقے کو اپنی نفرت و تعصب پر مبنی سیاست کا نشانہ بنایا ہے۔ ہندوستان کو آزاد ہوئے ۲۷سال ہوگئے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ایسا صرف اسرائیل کی صیہونیت پسند حکومت فلسطینیوں کے ساتھ کرتی آئی ہے یا پھر آزادی کی جدوجہد کے دوران انگریزی سامراج کی استبدادی پالیسیوں کے تحت ہمارے مجاہدین آزادی کے ساتھ ایسا کیا گیا تھا۔
نفرت، تفریق اور امتیاز پر مبنی اس پالیسی کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ مثال کے طور بجنور میں تین نوجوان جاں بحق ہوئے۔ ان میں سے ایک ہندو اور دو مسلمان تھے لیکن یوگی حکومت میں وزیر کپل دیو اگروال بجنور تو گیے لیکن صرف تشدد میں جاں بحق ہونے والے ہندو نوجوان کے گھر والوں سے ملے، ان سے تعزیت کی اور انتہائی حقارت آمیز لہجے میں مسلمان نوجوانوں کے پسمنادگان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح رامپور میں ضلع انتظامیہ کا قہر نازل ہو رہا ہے کیوں کہ یہ وہ غم و غصہ ہے کہ رامپور والوں نے انتظامیہ کے نہ چاہتے ہوئے بھی پہلے اعظم خاں اور بعد ازاں ضمنی انتخاب میں ان کی بیوی تزئین فاطمہ کو کیوں کامیاب بنایا؟ لکھنؤ اور دیگر اضلاع جیسے اعظم گڑھ، وارانسی، مﺅناتھ بھنجن، سنبھل سمیت متعدد شہروں اور بڑے قصبوں میں احتجاج کو دبانے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ ایک جمہوری ملک اور معاشرے کے لیے بالکل زیب نہیں دیتا۔
اسی طرح انتہائی بربریت کی جو شروعات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہوئی تھی اور مظفرنگر میں جس طرح اقلیتی فرقے کی بستیوں پر شب خون مارا گیا اور ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی وہ تکلیف دہ بھی ہے اور شرمناک بھی۔ اس ساری المناک صورتحال میں سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام مسلم جماعتوں کو جس طرح ایک جٹ ہو کر اس ظلم و زیادتی کے خلاف قانونی لڑائی لڑنی چاہیے تھی وہ اس طرح میدانِ عمل میں سامنے نہیں آئے۔ یہی وہ وقت ہے جب مسلم قیادت کو انصاف پسند غیر مسلموں کے ساتھ مل کر ایک منظم، مضبوط اور حتی المقدور منطقی انجام کو پہنچانے والی اس تحریک کو شروع کرنا چاہیے جس میں اترپردیش میں جسے ایک جیل خانہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اور ناانصافی اور ظلم کے ذریعے مسلمانوں سے انتقام لیا جا رہا ہے سپریم کورٹ کے جج سے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے اور جب تک ایسا نہ ہو جائے اس وقت تک حکومت کو ہر تادیبی اور تعزیراتی اقدام سے باز رکھنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ بھی انتہائی تکلیف دہ امر ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن ہو یا قومی اقلیتی کمیشن، انہوں نے اس ناروا اور بے جا ظلم و زیادتی کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے اور نہ ہی ہمارے لیڈر شپ نے اس سلسلے میں کوئی پیروکاری کی ہے۔
دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے حق و انصاف کے حصول کے لیے جو راستہ دکھایا ہے اس نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچی ہے۔ یہ بات انتہائی قابل قدر استعجاب والی ہے کہ اس میں شریک نئی پیڑھی مختلف مذہبوں سے تعلق رکھتی ہے اور مسلمان لڑکے اور لڑکیوں نے جس بے خوفی اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل رشک حد تک غیر معمولی ہے۔ اس میں حجاب میں سڑکوں پر اتری ہوئی لڑکیاں اور جینس Jeans پہنے ہوئے مسلمان لڑکوں نے اس stereotype کو پارہ پارہ کر دیا ہے جو عام طور پر مسلمانوں کے بارے میں عام کر دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ یہ بچے اور بچیاں تین طلاق اور بابری مسجد مقدمے کے فیصلے پر احتجاج کے لیے نہیں بلکہ ہندوستان کی سیکولر جمہوری اقدار کی حفاظت اور سربلندی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے سرکار اور یرقان زدہ ذہنیت والی سوچ کے اس تا ¿ثر اور یقین کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں میں خوف پیدا کرکے انہیں ڈرایا جا سکتا ہے اور گھروں میں محصور کیا جا سکتا ہے۔ آج جو ایجیٹیشن جاری ہے اس میں ہر عمر کے مسلمان مرد و عورت ملک کو بچانے کے لیے سڑکوں پر اتر آئے ہیں جس میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ جنوبی دہلی کے کالندی کنج سے متصل شاہین باغ میں گھریلو مسلم خواتین کے ذریعے انتہائی سردی میں بھی چوبیس گھنٹے کے دھرنوں کو جاکر دیکھ سکتا ہے۔
سی۔ اے۔ اے کے بعد سرکار این۔پی۔ آر (قومی آبادی رجسٹر) کا نیا شوشہ لے کر سامنے آئی ہے اور وہ بھی جھوٹ کی اس ٹٹی کے ساتھ کہ اس کا این۔ آر۔ سی سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ وزارت داخلہ کی سالانہ رپورٹ ہو یا دوسری سرکاری دستاویزیں سب میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ این۔ پی۔ آر، این۔ آر۔ سی کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک مہنگائی اور مندی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور وزیر اعظم کے سابق مالیاتی مشیر کہہ چکے ہیں کہ ملک کی معیشت آئی۔ سی۔ یو (ICU)میں ہے۔ پھر سرکار نو ہزار کروڑ سے زیادہ رقم این۔ پی۔ آر پر کیوں خرچ کرنا چاہتی ہے۔ ایک مخصوص مذہبی اقلیت سے نفرت کے نتیجے میں کسی کو بھی ملک اور معیشت کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ کیسا تکلیف دہ امر ہے اور نفرت و حقارت کی کیسی بدترین شکل کہ آج بی۔ جے۔ پی کا ایک وزیر اعلیٰ ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتا ہے کہ سی۔ اے۔ اے اور این۔ آر۔ سی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والوں کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی انسانی جان پانچ دس لاکھ روپیے کی مالیت کی نہیں ہوتی لیکن ا س طرح کا رویہ اور اعلانات سرکاروں کی تنگ نظری، تعصب اور منافرت کے جذبے کو ضرور اجاگر کرتے ہیں۔
ہم ایک بار پھر یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کسی بھی مذہبی اکثریت یا اقلیت سے تعلق رکھنے والے اشخاص اور ان کے افرادِ خاندان کو ہندوستان کی شہریت دینے کے خلاف نہیں ہیں۔ ہندوستان کا دستور مذہب کی بنیاد پر کسی شہری میں کوئی تفریق نہیں کرتا ہے۔ کسی مظلوم، مجبور اور مقہور غیر ملکی کو جو ہمارے ملک میں پناہ گزیں ہونا چاہتا ہے اس کو ” وسودھو کٹمبکم “ (تمام روئے زمین پر بسنے والے ایک کنبے کا حصہ ہیں)پر عمل کرتے ہوئے ملک میں باعزت شہری کی جگی دینی چاہیے کیوں کہ یہ جملہ ہماری جمہوریت کے سب سے بڑے ایوان یعنی ہندوستانی پارلیمنٹ کے باب الداخلہ پر بھی لکھا ہوا ہے۔ ہمارا صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ اس کو مذہبی تفریق و امتیاز کا ذریعہ مت بنائیے۔ ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے تمام ممالک جو اپنی مذہبی اقلیتوں کا مذہبی بنیادوں پر استحصال کرتے ہیں ان کے خلاف مجلس اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورمس (International Forums) میں مقدمہ پیش کیجیے اور اگر وہ ممالک پھر بھی باز نہیں آتے ہیں تو ان سے اپنے سفارتی رشتے منقطع کر لیجیے اس کے بجائے کہ آپ ان کے گناہوں کی سزا ہندوستانی مسلمانوں کو دیں۔
جو لڑائی آج سڑکوں پر لڑی جا رہی ہے وہ دیش بھکتی کے جذبے کے تحت، ہندوستان کو اسرائیل اور پاکستان بنانے کے خلاف، پورے ملک کو دیٹینشن کیمپ (Detention Camp) میں تبدیل کرنے اور سیکولر جمہوری اقدار کی بحالی کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ لوگوں کے اس جذبے کی قدر کی کیجیے، جھوٹ سے پرہیز کیجیے اور یاد رکھیے کہ ہندوستان کی عظمت کا راز مذہبی ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور آپسی میل ملاپ میں ہے۔ بقول علامہ اقبال:
شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)