پروفیسر اختر الواسع
جمہوریت کی جو تعریف ہم نے سنی اور پڑھی تھی وہ یہ تھی کہ ایک ایسا نظام جو عوام کا، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہو اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ جمہوریت میںنہ کوئی حاکم ہوتا ہے اور نہ مہکوم بلکہ سب اقتدار میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں بلا شبہ اکثریت کا راج ہوتا ہے لیکن اقلیت کے نقطۂ نظر کو پوری توجہ دی جاتی ہے۔ حزب اقتدار کی بلاشبہ حکمرانی ہوتی ہے لیکن حزب اختلاف کی احتیاج اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن ادھر کچھ دنوں سے ہم ایک ایسے برسر اقتدار ٹولے کو دیکھ رہے ہیں جو عدم برداشت کا پیکر، انتقام پر مبنی سیاست، رنگا رنگی سے گریز، سیکولر جمہوری اقدار سے پرہیز کی نمونہ بن کر ابھرا ہے۔ 2014ءسے ہم ہندوستان میں گھر واپسی، لو جہاد، ماب لنچنگ، گائے کی پرستش کے نام پر لوگوں کو اذیت پہنچانے کا کاروبار خوب چلایا گیا۔ اس کے برعکس ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“جیسی خوب صورت مذہبی اعتبار سے غیر جانبداری کی علامت دعائیہ نظم کے اسکولوں میں پڑھے جانے پر پابندی کے ساتھ اردو زبان کو تعلیم کے دائرے سے خارج کرنے کی پالیسی مستقل جاری رہی۔
تین طلاق ہو یا کشمیر میں دفعہ 370 اور بابری مسجد کا قضیہ، ان سب پر من مانے انداز سے فیصلے لے کر اور اقلیتوں خاص طور سے مسلمانوں کے صبر وتحمل کو ان کے خوف اور بزدلی پر محمول کیا گیا اور اسی غلط فہمی کے تحت یہ بھی مان لیا گیا کہ آپ جو چاہے پالیسی بناؤ، فیصلے کرو، ان کو نافذ کرو کوئی ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرے گا اور یہی وہ سوچ تھی جس کے نتیجے میں سی اے اے لایا گیا، این پی آر کا اعلان کیا گیا اور ملک بھر میں این آر سی کو وزیر داخلہ نے خم ٹھوک لاگو کرنے کا اعلان کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ جھوٹ، گمرہی اور غلط بیانیوں کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ وزیر اعظم نے 22 دسمبر کو رام لیلا گراؤنڈ میں کہا کہ این آر سی پر کوئی بات ابھی تک کہیں نہیں ہوئی ہے، ڈٹینشن کیمپ کہیں نہیں بنائے گئے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ نے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ این پی آر کا این آر سی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کا ریکارڈ وزیر اعظم کے دعوؤں کو غلط ثابت کرتا ہے تو خود وزارت داخلہ کی ویب سائٹ وزیر داخلہ کے بیان کو جھٹلاتی ہے کیوں کہ اس میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ این پی آر، این آر سی کے نفاذ کا پہلا مرحلہ ہے۔
سرکار کی ان پالیسیوں کے خلاف پورے ملک میں ہر جگہ بے چینی پائی جا رہی ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، سب اس کے خلاف سڑکوں پر آ گئے ہیں ان سب کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوئی اور شاہین باغ میں احتجاج نے ملک اور بیرون ملک اپنی ایک نئی پہچان بنائی اور ایک سیکولر جمہوریت میں پرامن احتجاج کس طرح کیا جاتا ہے اس کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ اس احتجاج میں خواتین بلا تفریق مذہب و ملت مردانہ وار سامنے آئیں اور اب جب کہ تقریبا ً دو مہینے ہونے کو آئے ہیں انہوں نے سرکارکے عزائم، پولیس کے معاندانہ رویے اور موسم کی شدت کو شکست دی اور فرقے واریت اور منافرت کی اس دیوار کو ڈھا دیا جو دیوارِ برلن کی طرح ہندوستانیوں کے بیچ کھڑی کی گئی تھی۔
سرکار اور سرکار سے جڑے ہوئے لوگ اور ان کے حمایتی اس صورت حال سے کس قدر بوکھلاگئے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی کے انتخابی دنگل میں جس طرح سرکار کے لائے ہوئے قوانین اور پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوںسمیت دہلی کے وزیر اعلی کو دہشت گرد، انتشار برپا کرنے والا قرار دیا گیا تو اہنسا کے پجاری بابائے قوم مہاتما گاندھی کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ احتجاج کرنے والوں کو دیش کا غدار قرار دے کر گولی مارنے کے حکمراں جماعت کے اسٹیج سے اپدیش دئے گیے اور کیا کیا نہیں کہا گیا اس کو بیان کرنا بھی تکلیف دہ ہے۔
سرکار نے اپنی فتح کے انتخابی امکانات کے خلاف آنے والے جائزوں سے گھبرا کر رام مندر کی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ٹرسٹ بنانے کا پارلیمنٹ میں اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ سرکار کے پاس اس کے لیے عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق 9فروری تک کا وقت موجود تھا لیکن انہوں نے اس کا اعلان نہ دسمبر میںکیا نہ جنوری میں اور نہ 9فروری کو بلکہ 8فروری کو ہونے والے دہلی کے انتخابات سے عین لگ بھگ 72 گھنٹے پہلے اعلان کر دیا تاکہ رام کے سہارے ہی سہی دہلی میں انتخابی نیّا کو پار لگایا جا سکے۔ آج دہلی کے الیکشن میں بی جے پی رام مندر کی تعمیر کے لیے جس ٹرسٹ کو بنانے پراپنی پیٹھ تھپ تھپا رہی ہے وہ یہ بھول گئی کہ اجودھیا میں متنازعہ زمین پر مندر بنانے کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کا ہے اور یہ ٹرسٹ بنانے کا حکم بھی اسی کا ہے۔ کسی بوالعجبی ہے کہ عدالت عظمی کو جس چیز کا کریڈٹ ملنا چاہیے اس کو بھی بی جے پی خود غصب کرنے میں لگی ہوئی ہے۔اتنا ہی نہیں یوپی کے دریدہ دہن، ہرزہ سرائی اور فرقہ وارانہ لب و لہجہ کے لیے مشہور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کے ہنومان چالیسا پڑھنے پر طنز ہی نہیں کیا بلکہ اشتعال انگیزی پھیلانے کے لیے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کے لیے یہ پیش گوئی کر دی کہ کجریوال ہی کیا وہ بھی ہنومان چالیسا پڑھتے ہوئے دکھائی دیں گے۔
آج بھی شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ،گھنٹہ گھر چوک لکھنؤ، اعظم گڑھ اور دیگر کئی مقامات پر جس طرح گولی چلا کر دھمکانے کی کوشش کی گئی، پولیس نے شرم ناک حد تک بہیمانہ رویہ اپنایا اس کے باوجود مظاہرین نے جس صبر و تحمل، شائستگی اور امن و خیر سگالی سے کام لیا اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ اسی طرح یو پی کی بی جے پی سرکار کی طرح کرناٹک میں بھی جس طرح احتجاج اور مخالفت کے خلاف اسبدادی رویہ اپنایا جا رہا ہے اس کی سب سے بدترین مثال منگلور کے بعد بیدر کے شاہین اسکول کے ساتھ پولیس کے معاندانہ رویے کی ہے۔ شاہین گروپ نے اپنے بانی اور سربراہ انجینئر قدیر صاحب کے دینی و دنیوی تعلیم کو ہم آہنگ کرنے کا جو عظیم الشان کام انجام دیا ہے خود مرکزی سرکار بھی اس کی مداح رہی ہے لیکن لیکن ایک ذرا سے اختلاف کو بہانہ بنا کر وہاں پولیس نے دھونس اور دھمک کا جو رویہ اپنایا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ سرکار سے جڑے ہوئے لوگ جس طرح دھمکی بھرے لہجے میں توہین آمیز انداز سے 11فروری کو دہلی میں انتخابی نتائج آنے پر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ شاہین باغ ہو یا دوسرے مقامات پر احتجاج اور مظاہرے یہ سب ختم ہو جائیں گے۔ اس غلط فہمی سے وہ جتنی جلدی نکل آئیں وہ ان کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
اگر سرکار پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر داخلہ کی موجودگی میں یہ اعلان کر رہی ہے کہ ابھی این آر سی پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور این پی آر میں کوئی معلومات فراہم کرنا شہریوں کے لیے لازمی نہیںہوگا تو پھر وہ این آر سی پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا کی جگہ کبھی کوئی فیصلہ نہیں ہوگا کیوں نہیں کہتی اور اسی طرح این پی آر کی لازمیت پر بلا وجہ قومی سرمایے کو خرچ کرنے کے بجائے جس طرح ملک میں مردم شماری ہوتی رہی ہے ویسے ہی کیوں نہیں سلسلے کو جاری رکھتی ہے؟ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور پھر دہراتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی ملک سے آنے والے استحصال اور مذہبی تعصب کے شکار شخص کو ہندوستان میںشہریت دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بس ہم سرکار سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کی پالیسی نہ اپنائے اور تمام مذہبی طبقات کے ساتھ مسلمانوں کو بھی اس میں برابر سے شریک کرے۔ کیاوجہ ہے کہ 2016 میں مرکزی حکومت پاکستان سے آئے عدنان سمیع کو شہریت دے سکتی ہے اور 2020 میں ان کو پدم شری سے بھی نواز سکتی ہے تو پھر سرکار کس بنیاد پر دیگر مسلمانوں کے ساتھ اس تفریق کو روا رکھنے کی بات کر رہی ہے۔ ہم سرکار اور اس کے ہم نواؤں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اکیلے ہی بھارت ماں کی سنتان نہیں ہیں بلکہ ہم سب بھی اسی ماں کی اولاد ہیں۔ اس سے محبت اور وفاداری کا ہم سے ثبوت مانگنے والوں کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ:
ہاں بڑی چیز وفاداری ہے
یہ بھی بڑھ جائے تو غداری ہے
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)