کس کروٹ بیٹھے گا بہار کا سیاسی اونٹ!

ڈاکٹر شہاب ا لدین ثاقب

بہار کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،اس کی قیاس آرائی بڑے زور شور سے ملک بھر میں شروع ہوگئی ہے۔دراصل دہلی کے اسمبلی انتخابات کے بعد اگلا اسمبلی انتخاب بہار اور پھر مغربی بنگال میں ہونا ہے۔ اتر پردیش اور بہار یہ دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں کی سیاست سے پورے ملک کو ایک سمت ملتی ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان پر حکومت کرنے والی جماعتوں کو یوپی اور بہار سے ہو کر دلی کی کرسی تک رسائی ملتی ہے۔سیاست کے چانکیہ بھی انہیں دو ریاستوں میں جنم لیتےہیں، سیاسی سوجھ بوجھ کے معاملے میں بھی یہاں کے لوگوں کا ذکر پوری دنیا میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہےکہ فی الوقت بہار کے اسمبلی انتخابات پر ملک بھر کی نگاہیں مرکوز ہیں۔

بہار میں ابھی جنتا دل (یو) اور بھارتیہ جنتا پارٹی اتحاد کی حکومت ہے۔یہ اور بات ہےکہ پچھلے انتخاب میں دونوں پارٹی نے الگ الگ اتحاد کے ساتھ چناؤ لڑا تھا۔سیاست کے کھیل بڑے نرالے ہوتےہیں اس لئے سیاست کے کھیل کو سمجھنا بہت آسان نہیں، اسے سیاسی لوگ ہی ہضم کرپاتےہیں عام لوگ اگر اس ڈگر پر چلیں گے تو بدہضمی کے شکار ہو کر بیمار ہو جائیں گے۔ایسا ہی کچھ ہوا بہار میں۔ ۲۰۱۵ میں نتیش کمار کی قیادت میں آرجے ڈی اور جے ڈی یو اتحاد سے بننےوالی بہارسرکار زیادہ دنوں تک نہیں چل سکی۔دونوں اتحادی پارٹی میں شروع ہوئی سرد جنگ اس مقام تک پہنچ گئی کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے آرجے ڈی سےرشتہ توڑ کر بی جے پی سے رشتہ جوڑ لیا۔اور بہارمیں تقریبا۲۰؍ ماہ کےبعدہی بی جے پی اتحاد کے ساتھ ایک نئی حکومت وجود میں آگئی۔آنے والا انتخاب بھی جے ڈی یو اور بی جے پی مل کرلڑنے والی ہے۔حالانکہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے اس لئے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔کیوںکہ سیاسی کھیل بھی کرکٹ کی طرح آخری گیند تک باقی رہتا ہے۔اس لئے آنے والے ایام بہت خاص ہیں۔ بہار میں کیا کچھ ہوگا،کون پارٹی کس کے ساتھ جائے گی اور کس کا ساتھ چھوڑے گی یہ دیکھنے کے لئےآنے والے دنوں کا انتظارکرناچاہئے۔

بہارکا یہ اسمبلی چناؤ بہت دلچسپ اس وجہ سے ہےکہ اس کے بعد مغربی بنگال سیاست دانوں کا اگلا پڑاؤ ہوگا۔ہندوستان پر مضبوطی سے حکومت کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے جہاں یہ دونوں اسٹیٹ کافی خاص ہے وہیں مذکورہ دونوں ریاستوں کی حکمراں جماعت بی جے پی ،جے ڈی یو اتحاد اور ترنمول کانگریس پارٹی کے لئے اپنے قلعے کو بچا پانا بڑا چیلنج ہے۔اسی طرح مغربی بنگال میں بی جے پی کا اور بہار میں آرجے ڈی اتحاد کا دیرینہ خواب کو پورا ہوسکتا ہے یا نہیں ان باتوں کا سرسری جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔دہلی میں عام آدمی پارٹی نے تو بی جے پی کو ایسی پٹخنی دی ہے کہ بی جے پی کے تیس مار خواں برسوں نہیں بھول سکیں گے۔بی جے پی ہر کوشش کو یہاں عام آدمی پارٹی نے نہ صرف ناکام کردیا بلکہ دھول چٹا دی۔حالانکہ بی جے پی نے اپنے چانکیہ وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اعظم نریندرمودی کی ضرب المثل جوڑی کی قیادت میں یہ انتخاب لڑا اور بہت مضبوطی سے میدان میں اترے،ایڑی چوٹی کا زور لگادیا،ہندو مسلم کارڈکے علاوہ اشتعال انگیزبیانات نے بھی پچھلے ریکارڈ توڑدیے۔اس کے باوجودبی جے پی کوکیا ملا یہ سبھی جانتےہیں۔الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔اور عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو چاروں شانے چت کردیا۔

بہار کی صورت حال مختلف ہے۔یہاں کے ووٹر ذات ،پات کے خانوں میں بٹے ہوتےہیں اس لئے دہلی والا داؤ بہار میں نہیں چل سکتا ہے۔البتہ بہار کی نتیش حکومت دہلی کی کیجریوال حکومت کی طرح کچھ ایشوز کا چرچا بڑے زوروشور سے کرسکتی ہے۔اس معاملے میں بہار کی اپوزیشن جماعتیں بھی دہلی کی اپوزیشن جماعتوں کی طرح کمزور ہیں۔ان کے پاس بھی بی جے پی کی طرح بھروسے مند منصوبوں کی کمی ہے۔حالانکہ ایک عرصہ تک نتیش کمار کے ساتھ سایہ کی طرح کھڑےرہنے والے انتخابی پالیسی ساز پرشانت کشور نے اپنے حالیہ طویل انٹرویو میں ’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘ کے مصداق ایسے بہت سے راستوں کی نشاندہی کردی ہےجس سے نتیش کمار کو گھیرا جاسکتاہے۔اور یہ وہ داؤ ہےجس سے بہار حکومت کے وکاس کے غبارہ کی ہوا بھی نکل سکتی ہے۔مگر یہ کام آسان نہیں ہے۔جے ڈی یو اتحاد کے مقابلے آرجے ڈی اتحاد کو پوری مضبوطی اور مستعدی کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا’صرف ہوا میں تیر چلانے سے اب کام چلنے والا نہیں ہے۔اگر زبانی فائرنگ سے جنگ جیتی جاتی تو آج دہلی میں بی جے پی کی حکومت ہوتی۔کیوںکہ نریندرمودی،امت شاہ،یوگی آدتیہ ناتھ،گری راج سنگھ،پرویش کمار ورما،انوراگ ٹھاکر،راج ناتھ سنگھ اور آرایس ایس کے کارکنوں سے زیادہ کوئی بہتر سپنا نہیں دکھا سکتا ہے۔

 اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو نے۲۳؍فروری ۲۰۲۰کو پٹنہ میں بے روزگاری ہٹاؤ یاترا‘ کی شروعات کردی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے نتیش حکومت پر جم کر حملہ بھی کیا اور کہاکہ لالو حکومت کے۱۵؍ برس میں کچھ خرابیاں ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ایک نیا دور ہے اور میں ایک نئے بہار کی تعمیر کا وعدہ کرتا ہوں۔ اگر ہماری حکومت اقتدار میں آئے گی توہم۸۵؍فیصد روزگار بہار کے لوگوں کو دیں گے۔انہوںنے یہ بھی دعویٰ کیاکہ ۸؍ ماہ بعد ہم سرکار بنائیں گے۔ لالویادو جیل جا سکتے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دی ،بی جے پی کو احساس ہونا چاہیے کہ لالو بیمار ہیں مگر زندہ ہیں۔

تیجسوی یادو کے یہ خیالات اپنی جگہ، مگر سچائی یہ بھی ہےکہ انہیں سب سے پہلے آرجے ڈی کے اندرونی خلفشار کو ختم کرنا ہوگا۔پارٹی میں لالوپرساد یادو کے بعد قیادت کی کمزوری بھی ایک اہم سوال ہے۔پچھلے لوک سبھا انتخابات میں تیجسوی یادو نے آرجےڈی کی باگ ڈور سنبھالی تھی مگر یادو برادری کے ووٹ بینک کو آرجے ڈی کی طرف مائل کرنے میں وہ پوری طرح ناکام رہے،اگریہی حال اسمبلی انتخابات میں رہا تو آرجے ڈی کی کشتی کوپارلگاناآسا نہیں۔اس لئے لالو فیملی کو اپنی پارٹی کو بچانے کے لئے سب سے پہلے یادو برادری کو اعتماد میں لینا ہوگا ، اس کے لئے وہ کیا حکمت عملی اپنائیں گےاس پر آرجے ڈی کے سبھی بڑے لیڈروں کو بہت سنجیدگی سے غورو خوص کرنا ہوگا۔بہار میں بےروزگاری ، تعلیم اور صحت کےمخدوش نظام کے علاوہ سی اے اے ،این آرسی اور این پی آرکا نفاذ بڑے ایشوز ہیں۔ان مسائل کو لے کر آرجے ڈی نے بہار بند کا اہتمام بھی کیا تھا لیکن بتایاجاتاہےکہ یادو اور پچھڑے طبقات کے لوگوں نے آرجے ڈی کی اس مہم میں برائے نام حصہ لیا،صرف مسلمان ہی اپنے دم خم کے ساتھ آرجے ڈی کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ادھر دربھنگہ میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنے اتحادی بی جے پی کے خلاف جاتے ہوئےیہ اعلان کرکے اسمبلی انتخابات کو اور دلچسپ بنادیا ہےکہ بہار میں این پی آر نافذ نہیں ہوگا اور این پی آر ۲۰۱۰ ءکے طرز پر نافذ کیا جائے گا اس کے علاوہ کسی بھی طریقے سے نہیںہوگا ۔ ایسے میںیادو اورمسلمان کو ایک ساتھ لیے بغیرجےڈی یو، بی جےپی اتحاد کا مقابلہ کرنا اور نتیش کمارکو اقتدار سے بےدخل کرنے کا دعویٰ کرنا دیوانے کےخواب جیسا ہے۔

(مضمون نگا رروزنامہ انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)

mssaqibqasmi@yahoo.co.in

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں