اسلام آباد: (ایم این این ) عالمی یوم خواتین کے موقع پر پاکستان کی خواتین نے عورت مارچ نکالا ۔ یہ مارچ پچھلے کئی دنوں سے سرخیوں میں تھا ۔ ایک طبقہ اس پر اعتراض کررہاتھا تو دوسری طر ف پاکستان آزاد خیال خواتین اس مارچ کے نکالنے پر بضد تھیں ۔تفصیلات کے مطابق پاکستان کے کئی اہم شہروں میں عورتوں نے مارچ نکالاگیا جس میں بڑی تعداد میں عورتوں نے شرکت کی اور مختلف طرح کے بینر ز کے ذریعہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
مارچ کے شرکاء ہزاروں کی تعداد میں لاہور پریس کلب کے باہر جمع ہوئے اور ایجرٹن روڈ پر مارچ کرتے ہوئے ایوان اقبال تک گئے۔ اس مارچ میں شرکت کرنے والوں میں غیرسرکاری تنظیموں سے وابستہ خواتین، سیاسی جماعتوں کے ویمن ونگز کے ارکان، انسانی حقوق کی تنظیموں کی کارکن، عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کے علاوہ فنکاروں، عام عورتوں اور طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مارچ کے شرکاءنے اپنے ہاتھوں میں رنگ برنگے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ان کے مطالبات درج تھے۔ اس موقع پر مارچ میں شریک خواتین ‘ہم چھین کے لیں گے آزادی، ہر ظلم سے لیں گے آزادی، کاروکاری سے لیں گے آزادی، اور ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔
میرا جسم میری مرضی والانعرہ سب سے زیادہ چھایاہواتھا ۔اس کے علاوہ پلے کارڈ پر یہ نعرے بھی لکھے تھے ۔ تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے ۔ عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے ۔ لو بیٹھ گئی ۔ شادی کے علاوہ اور بھی عورتوں کے بہت سے کام ہیں ۔ مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے ۔ آلہ تناسل کا فوٹواپنے پاس رکھنا ۔ ماں، بہن اور بیٹی، کیا صرف آپ کی ہی قابل احترام ہے؟ ۔ بیٹی پیدا کرنا کوئی نہیں چاہتالیکن ہر کوئی بستر پر عورت چاہتاہے ۔دوپتہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر ڈالو۔
لاہور میں ہونے والی عورت مارچ کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ مارچ کے راستے میں آنے والی سڑکوں کو بند کر دیا گیا تھا اور مسلح پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد سیکورٹی پر مامور کی گئی تھی۔ مارچ کے شرکاءکو واک تھرو گیٹس سے گزارا گیا اور میٹل ڈیٹیکٹرز سے مشکوک افراد کی تلاشی بھی لی گئی۔
مارچ کے شرکا نے ایک کلومیٹر کا مارچ تقریبا ڈھائی گھنٹے میں مکمل کیا۔ اس مارچ میں تقریبا ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی لیکن انگریزی تعلیمی اداروں کی طالبات کی شرکت کافی نمایاں تھی۔ مارچ میں برقعہ پوش خواتین بھی نظر آئیں، جبکہ ترقی پسند مردوں کی بھی ایک معقول تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شریک خواتین، نوجوان اور فنکار اس موقع پر اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتے رہے۔ ایک لڑکی نے وائیلن بجا کر شرکا کو محظوظ کیا جبکہ ایوان اقبال کے باہر اسٹریٹ تھیٹر بھی پیش کیا گیا۔
عورت مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں استحصال سے پاک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جائے جس میں عورتوں کو تحفظ حاصل ہو اور انہیں روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتیں بغیر کسی امتیاز کے میسر ہوں۔ انہوں نے خواتین کی کم از کم تنخواہ چالیس ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ دیہاڑی دار مزدور خواتین سمیت کام کی تمام جگہوں کو انسداد حراسگی قوانین کے ذریعے تحفظ دیا جائے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔
عورت ماچ کے مقابلے میں اسلامی مزاج کی حامل خواتین نے حیا مارچ نکالاجس میں انہوں نے کہا ۔ ہمیں آزادی نہیں تحفظ چاہیئے ۔ ہمارے لئے حضرت عائشہ رول ماڈ ل ہے ۔ عورت سماج کا وقار ہے ۔
عورت مارچ میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلات و نشریات فردوس عاشق نے بھی حصہ لیا اور خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید قانون سازی کی جارہی ہے۔ ان کے مطابق خواتین کی بہتری کے لیے ہر روز کام کرنے کی ضرورت ہے نا کہ صرف خواتین کے عالمی دن کے موقع پرہی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔






