ہندوستان میں مسلمان : منظر پس منظر، پیش منظر

پروفیسر اختر الواسع
ایک صحت مند جمہوریت کی اساس ایک معروضی مکالمے میں پنہاں ہوتی ہے ۔ اس میں بھی جمہوریت کا حسن یا جوہر اس میں پوشیدہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں اقلیتوں ، کمزور طبقات اور خواتین کے ساتھ کس طرح کا منصفانہ رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ تقریباً دو صدی کے سامراجی تسلط کے بعد جب ہندوستان نے آزادی حاصل کی تو ہمارے قومی رہنماؤں نے اپنے ملک اور عوام کے لئے سیکولر جمہوریت کو اپنایا ۔ یہ سب کچھ انہوں نے ایسے وقت میں کیا جب ان کے پاس یہ معقول جواز موجود تھا اور کچھ ایسی آوازیں بھی اٹھ رہی تھیں کہ جب ملک کی تقسیم مذہب کے نام پر ہوئی ہے تو ہندوستان کو ہندو راشٹر کیوں نہ بنایا جائے ۔ لیکن سلام کیجئے مہاتما گاندھی کو، جواہر لال نہرو کو ،سردار پٹیل کو، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کو، سی راج گوپال آچاریہ کو ، ڈاکٹر راجندر پرساد کو اور مولانا ابوالکلام آزاد کو جنہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا ۔ ایسا نہیں کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا مطالبہ کرنے والے بالکل نہ رہے ہوں۔لیکن ان کی آوازیں اٹھیں اور پھر بیٹھ گئیں کیونکہ ہمارے پاس مہاتما گاندھی تھے جنہوں نے فرقہ پرستی اور فسطائیت کی آگ کو اپنے خون سے ٹھنڈا کیا ۔ ہمارے پاس جواہر لال نہرو جیسی قد آور ، عوام میں مقبول اور جرأت مند شخصیت موجود تھی جو بلوائیوں کے بیچ جاکر اپنی کار کے بونٹ پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ کی چھوٹی سی چھڑی سے بڑے بڑے جنونی مجمعوں کو قابو میں لا سکتی تھی ۔ ہمارے پاس سردار پٹیل کی آہنی شخصیت تھی جن سے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں لیکن وہ آر ایس ایس پر آنکش لگا سکتے تھے ۔ ہمارے پاس ڈاکٹر امبیڈکر بھی تھے جو انتہائی ذہانت کے ساتھ ہمیں ایک ایسا دستور دے گئے جو آج بھی ہماری ڈھال ہے ۔ ہمارے پاس وہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد تھے جو اپنے حصہ میں آنے والی تمام نامرادیوں ، ذلت اور شکست کے باوجود اپنے ہی ملک میں دیکھتے ہی دیکھتے بے وطن ہو جانے والے مسلمانوں کو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر پکار سکتے تھے ۔ عزم و حوصلہ کی نئی جوت جگا سکتے تھے اور ہندوستان کی مٹی سے ان کے قول و قرار اور رشتوں کی ایک بار پھر تجدید کر سکتے تھے۔ وقت کا سفر جاری رہا ہماری سیاست نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہم نے گنگا کی طرح اپنی سماجی زندگی کو میلا اور جمنا کی طرح خشک ہوتے بھی دیکھا ۔ ہماری سیاست نے ان دریاؤں کی طرح اپنے راستے بھی بدلے اور اچھی خاصی کاٹ چھانٹ بھی کی ۔ حکومتیں آتی رہیں جاتی رہیں لیکن مسلمانوں کے حصہ میں وہ سب کچھ پوری طرح نہیں آیا جو ان کا حق تھا ۔ ڈاکٹر سید محمود جیسے پرانے کانگریسی کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہندوستان میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری بنا دئے گئے ہیں ۔ تو شیاما نندن مشرا جیسے حق گو سینئر کانگریسی رہنما نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ مسلمان اس ملک میں راشٹر پتی تو ہو سکتا ہے چپراسی نہیں ۔ ان کے کہنے کا مطلب در اصل یہ تھا کہ قومی زندگی میں مسلمانوں کو وہ حصہ داری نہیں مل رہی ہے جس کے وہ مستحق ہیں ۔ یہ واقعہ بھی اس سلسلہ میں کم دلچسپ نہیں کہ اس صورتِ حال کا تجزیہ یا وضاحت ہندوستان کی انتہائی قد آور سیاسی شخصیت جو تین بار راجستھان کے وزیر اعلیٰ رہے ملک کے نائب صدرِ جمہوریہ رہے ۔ شری بھیرو سنگھ شیخاوت نے مسلمانوں کے ایک وفد سے کچھ اس طرح سے کی کہ ” مسلمانوں کو بی جے پی اس لئے کچھ نہیں دیتی کہ اسے پتہ ہے کہ مسلمان اسے ووٹ نہیں دیں گے اور کانگریس انہیں اس لئے کچھ نہیں دیتی کہ وہ بخوبی جانتی ہے کہ مسلمان اس کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دینے والے نہیں ہیں ۔ “ آزادی کے کافی عرصہ بعد تک بلا شبہ مسلمانوں کا یہی رویہ رہا لیکن جب انہوں نے علاقائی جماعتوں کے ظہور کے ساتھ ان کا دامن تھاما انہیں اقتدار میں آنے میں مدد دی تو انہوں نے بھی ان کا جذباتی طور پر استحصال ہی کیا ۔ لالو پرساد یادو سے جب مسلمانوں نے بہار میں بھیک نہیں بھاگیداری کی مانگ کی تو ان کا یہ جواب ناقابلِ فراموش تھا کہ” ہم دنگا نہیں ہونے دے رہے ہیں کیا یہ کچھ کم ہے ۔ “ ملائم سنگھ ہوں یا مایا وتی یا پھر اکھلیش یادو ان میں سے کسی نے بھی دودھ کی بوتل نہیں دی مسلمانوں کو محض وعدوں کے جُھن جھنوں سے ہی بہلایا ۔
منڈل اور کمنڈل کی کشمکش کی کوکھ سے جو سیاست جنمی اس میں ہندو راشٹروادی قوتوں کو نیا عروج حاصل ہوا اور ۱۹۹۸؁ ء سے ۲۰۰۴؁ء تک ہم نے مرکز میں بی جے پی کا راج دیکھا اس سے پہلے بعد میں بھی کئی ریاستوں میں اس کی سرکار بنتے دیکھی ۔ ۱۹۹۲؁ء میں بابری مسجد کی شہادت ، ۲۰۰۲؁ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات دیکھے اور پھر ۲۰۱۴؁ء سے شری نریندر مودی کو اقتدار کی مسند پر براجمان دیکھ رہے ہیں ۔گزشتہ چھ سالوں میں مسلمان حاشیہ پر پہنچا دئے گئے۔ آج ان حوصلہ شکن حالات میں ان کی قیادتیں خود اپنی شکست کی آواز بن چکی ہیں۔ یہ سب کچھ نا ان کے لئے اچھا ہے اور نہ ہی وطنِ عزیز کے لئے ۔
اس صورتِ حال میں سرکار اور مسلمان دونوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ جیسا کہ اس مضمون کے شرو ع میں کہا گیا ہے کہ ڈائیلاگ یا مکالمے کو ممکن بنایا جائے ۔ کیونکہ سرکار کو خاص طور پر یہ بات سمجھنی چاہئے کہ سنوادہین ہونے کا مطلب سنویدن ہین ہونا ہے ۔وزیرِ اعظم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں ۔ وہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا دم بھرتے ہیں۔ اکثر مسلمانوں کے بیچ کچھ لوگوں سے ملتے ہیں ان کی سنتے ہیں ۔ لیکن یہ سب سچ ہونے کے باوجود زمینی سچائیاں بہت مایوس کن ہیں ۔ دور کی بات جانے دیجئے گھر واپسی کے نام پر ، گؤ کشی کے نام پر ، ایک سنودھان کے نام پر ۔ شہریت کے قانون کے نام پر اور انتہا یہ کہ کرونا وائرس کو کلمہ پڑھا کر مسلمانوں کو اس وبا کا ذمہ دار بتا کر کٹہرے میں کھڑا کرنا ، شمال مشرقی دہلی کے فسادات کی آڑ میں ان کو لاک ڈاؤن کے سناٹے میں پولیس کے ذریعہ نشانہ بنانا ، شاہین باغ میں احتجاج کرنے والوں کو ، جامعہ ، جے این یو اور علی گڑھ کے طلباء کو گرفتار کرنا ، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان پر وطن دشمنی کی دفعات لگانا یہ سب مسلمانوں کے لئے ہی نہیں اس ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں کے لئے سوہانِ روح بھی ہے اور عذابِ جان بھی ؛ اور یہ کسی صحت مند ، پر امن اور خوشگوار مستقبل کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے۔
ہماری رائے میں وزیرِ اعظم کو از سرِ نو ایک ایسے ڈائیلاگ کے لئے آگے آنا چاہئے جس میں مسلمانوں کے تمام نامور ، مستند اور کمیونٹی کے اعتبار و اعتماد کے حامل علماء ، قائدین، اور دانشورں کو اپنی پسند اور ناپسند سے اوپر اٹھ کر بلانا چاہئے ۔ ا س میں پرانی اور نئی نسل دونوں کی نمائندگی ہونی چاہئے اور اس کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ لوگ سلطانِ جابر اور جمہورِ جائر کی پرواہ کئے بغیر صرف سچ کہیں اور سچ کے سوا کچھ نہ کہیں ۔ کیونکہ چاپلوسی کرنے والے نہ تو کسی کے سگے ہوتے ہیں اور نہ بھروسے مند اور سرکار کو ان کے سلسلے میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ
ہاں ! بڑی چیز وفا داری ہے
یہ بھی بڑھ جائے تو غداری ہے
وزیرِ اعظم کے ساتھ ہی ہمیں ایک بار پھر اپنے فرقے کے علماء ، زعماء اور دانشوروں سے بھی یہ گزارش کرنی ہے کہ وہ خود بھی اس سلسلہ میں پہل کریں اور سرکار کے ساتھ دیگر فرقوں کے مذہبی رہنماؤں اور سماجی دانشوروں کے ساتھ خیر سگالی اور باہمی مفاہمت کے اتحاد کوممکن بنائیں۔ ہمیں سرکار اور دنیا دونوں کو یہ بتا دینا چاہئے کہ ہم ہندوستان جنت نشان کو فرقہ وارنہ تعصب کی جہنم میں کسی کو نہیں جھونکنے دیں گے ۔ ہندوستان ہمارا مادرِ وطن ہی نہیں بلکہ پدری وطن بھی ہے ۔ اس لئے کہ ہمارے عقیدے کے مطابق جب حضرتِ آدم کو جنت سے دنیا میں بھیجا گیا تو اس کرۂ ارضی پر ان کے لئے ہندوستان کا ہی انتخاب کیا گیا ۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سے ہمارے آقا و مولیٰ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں ۔ یہی وہ سر زمین ہے جسے ہم نے قطب مینار کی بلندی ، تاج محل کا حسن ، لال قلعہ کی پختگی ، شاہجہانی مسجد کا تقدس اور معین الدین اور نظام الدین کا عرفان عطا کیا ہے ۔ اور ہم نے ہمیشہ اس ملک اور اپنی قسمت کے فیصلے بفضلِ خدا خود ہی کئے ہیں ۔ نہ ہم نے کل ایرانی اور تورانی مداخلت کی اجازت دی تھی اور نہ ہی آج ہم اس کے روا دار ہیں ۔ ہم اپنے ہم وطن ، حق پسند اور انصاف دوست بھائی بہنوں کے ساتھ اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جدو جہد کریں گے اور کامیاب ہوں گے ۔ ہمیں بخوبی پتہ ہے کہ رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو ایک دن سویرا ضرور ہوگا۔
( مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈنٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں)