ایک زبان اور ایک شہر : گاہے گاہے باز خواں

پروفیسر اختر الواسع
گذشتہ ہفتہ اردو میڈیا مانیٹر کے ایم غزالی خاں صاحب نے لندن سے ”اردو کو زندہ رکھنے میں حیدر آبادیوں کا کارنامہ“ کے عنوان سے ایک ویڈیو این۔ آر ۔آئی فورم پر اپ لوڈ کیا تھا۔ یہ ویڈیو در اصل اپنے زمانے کے مشہور صاحب طرز ادیب ، البیلے شاعر، نامور صحافی، دیوبند میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے سب سے بڑے وکیل اور ماہنامہ ’تجلی‘ کے بانی و مدیر مولانا عامر عثمانی کے پوتے جناب عبد الرحمن سیف کے سفرِ حیدر آباد میں اردو کے استعمال کو دیکھ کر ان کے حیرت انگیز تاثرات پر مبنی تھا۔
اس ویڈیو کو لے کر بھی متضاد ردِ عمل دیکھنے کو ملے ، کچھ لوگوں نے جہاں اس کی ستائش کی وہیں ایک دو آوازیں ایسی بھی سنائی دیں جو اس کو مبالغہ آرائی قرار دیتی نظر آئیں کیوں کہ ان کی نظر میں حیدر آباد ، فرخندہ بنیاد میں اردو زوا ل کا شکار ہوئی ہے۔ جن کی یہ رائے ہے ہمیں ان سے کوئی زیادہ اختلاف نہیں۔ لیکن سیف صاحب کے ویڈیو کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیوں کہ جو کچھ انہوں نے دکھایا اور بتایا ہے ہم اس سے پوری طرح متفق ہیں کیوں کہ حیدر آباد کے ہر سفر میں اردو جس طرح نظر آتی ہے وہ وندھیاچل کے بالائی علاقوں کے مقابلے کہیں بہتر اور نمایاں ہے ۔دار السرور رام پور ہو یا در الاقبال بھوپال اور یا پھر ٹونک اور جونا گڑھ کی سابقہ ریاستیں ان سب کے مقابلے جو بھی حیدر آباد اور حیدر آباد ہی کیا حضور نظام کی ریاست کے سابقہ زیر حکومت رہے علاقوں میں جواب تقریباً تین ریاستوں تلنگانہ، مہارا شٹر اور کرناٹکا میں بانٹ دیے گئے ہیں اردو کا چلن کسی حد تک تعلیم، عام زندگی میں رواج اور روز مرہ میں استعمال اب بھی غیر معمولی ہے۔
راقم الحروف کو ۱۹۷۲؁ء سے اکثر حیدر آباد جاتے رہنے کا موقع ملا ہے۔ مجھے یہ شرف اور سعادت حاصل ہے کہ میں نے زخم خوردہ حیدر آباد کو صحت مند اور اپنے پیرو ں پر کھڑے ہوتے دیکھا ہے ۔میں نے الحاج عبد الواحد اویسی، سالار ملت سلطان صلاح الدین اویسی ،اسماعیل ذبیح، امان اللہ خاں، اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی اور ان کی جماعت کے مرکزی دفتر دار السلام کی ایک لمبی قانونی لڑائی کے بعد بحالی کے بعد کی رونقیں اور جلسے دیکھے ہیں۔ اتنا ہی نہیں مجلس تعمیر ملت کے سربراہ جناب خلیل اللہ حسینی ، سلیمان سکندر، غوث خموشی سے جناب جلیل احمد اور ضیاء الدین نیر تک، اردو کی جد و جہد کے سالار مولوی حبیب الرحمن، اردو صحافت کے نقیب اور مقناطیسی شخصیت کے مالک جناب عابد علی خاں، رہنمائے دکن کے مرحوم لطیف الدین قادری اور وقار الدین، روز نامہ منصف کے مرحوم محمود انصاری ، جناب محبوب حسین جگر، راج بہادر گوڑ، نریندر لوتھر، پروفیسر ہارون خاں شیروانی، ڈاکٹر عبد المنان، ڈاکٹر حیدر خاں صاحب، جیلانی بانو، مجتبیٰ حسین، مغنی تبسم، حسن الدین احمد، پروفیسر علی محمد خسرو، ہاشم علی اختر، پروفیسر رشید الدین خاں، عابد حسین، ولی قادری، مولانا عبد الرزاق لطیفی، نواب شاہ عالم خاں، پروفیسر انور معظم ، پروفیسر سلیمان صدیقی ، زاہد علی خان، ڈاکٹر فخر الدین محمد، سالم باوزیر، مدینہ وقف کامپلیکس کے بانی الہٰ دین اور رحمت اللہ جیسے مخیر خاندانوں کے چشم و چراغ حسن رحمت اللہ اور ماہرِ تعلیم کے ایم عارف الدین کو بہت قریب سے دیکھا ۔ ان کے کام اور اداروں کو دیکھا، مجلس کی سیاست کو دیکھا، ان کے قائم کردہ تکنیکی اور میڈیکل ایجوکیشن کے اداروں کو دیکھا۔ دار السلام اربن کوپریٹو بینک کو دیکھا ۔ مسلمانوں کے باز آباد کاری کو دیکھا ، حیدر آباد کی بلدیہ میں دلت مسلم اتحاد کا کامیاب تجربہ دیکھا۔ سیاست میں اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے کو شکست و ریخت سے کس طرح بچا کر رکھا جائے حیدرآبادیوں سے یہ بھی سیکھا۔
جب عثمانیہ کے اردو کردار کو سرکار نے بہ زور، بحق سرکار ضبط کر لیا تو اردو ہال کی تعمیر کے لیے مولوی حبیب الرحمن اور اردو گھر کے قیام کے لیے عابد علی خاں کی کوششوں کو کامیاب ہوتا ہوا دیکھا۔ اردو زبان ، مشترکہ تہذیب ، تالی اور گالی سے اوپر اٹھ کر سنجیدہ اور معیاری صحافت کے لیے عابد علی خاں اور ان کی ٹیم کو سر گرمِ عمل پایا۔ عسرت و تنگی اور غربت کے نتیجے میں مہاجنی نظام کے چنگل سے اشرافیہ کو طور بیت المال کے ذریعہ ذلت و تنگی دستی سے بچایا، انوار العلوم کالج کو حصول علم کا مرکز و محور بنانے کا سہرا جن کے بھی سر رہا ہو لیکن بعد ازاں نواب شاہ عالم کے ذریعہ اسے آگے بڑھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ عبد الرزاق لطیفی صاحب نے قدامت پسند مگر غیرت مند خواتین کو زچگی کی آزمائشوں سے بچانے کے لیے مسلم میٹرنٹی ہوم قائم کیا۔ اقبال اکیڈمی اور ادبیاتِ اردو کے قیام سے ایک نئی دانشورانہ فضا بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ حزن و ملال اور تاسف و محرومی کے ماحول میں زندہ دلانِ حیدر آباد کے قیام کے ذریعہ ہنسی ہنسی میں نئی حوصلہ مندی کو جنم دیا گیا ۔ اسی طرح بعد میں ولی قادری مرحوم نے نئی پیڑھی میں مسابقت کا وہ جذبہ پیدا کیا کہ اغیار، ان کی کوششوں سے ڈرنے لگے۔ کے ۔ ایم۔ عارف الدین اور وزارت رسول خاں اور وراثت رسول خاں اور پھر نئی نسل کے ظہیر الدین علی خاں، عامر علی خاں جیسے نہ جانے کتنے لوگ آگے آئے اور انہوں نے شکوہ و شکایت کے بجائے اپنی جد و جہد سے ترقی کی نئی تاریخ رقم کی ا ور تا ہنوز کر رہے ہیں ۔ گیارہویں اور بارہویں ربیع الاول کی محفلیں ہوں ، پنکھے کا جلوس ہو یا صوفیا کرام سے عقیدت و وابستگی یا شیعت و مہددیت کے مذہبی معقتدات، حیدر آباد میں سب شیر و شکر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے امریکہ تک آپ کو نہ جانے کتنے حیدر آباد نظر آئیں گے۔ حیدر آباد ی جہاں ہیں وہ اپنی تہذیب ، ثقافت، دکنی لب و لہجے کے ساتھ اردو کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج اگر عرب کے ریگزاروں میں اردو زبان و ادب کے نخلستان آپ کو نظر آتے ہیں تو اس میں حیدر آبادیوں کا رو ل کم اہم نہیں ہے۔
اس کے بر عکس شمالی ہند والوں کے حال پر نظر ڈالیے تو اِکّا دُکّا کو چھوڑ کر جو ادارے جہاں تھے وہیں ہیں اور زیادہ تر آپسی مقدمے باز ی کے جنجال میں پھنسے ہیں ۔جن صنعتوں پر ہماری اجارہ داری تھی اب ہم وہاں محض کاری گر ہو کر رہ گئے ہیں۔ قیادت ہے ہی نہیں اور جو ہے اس کے پاس مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ پہلے ہمارے بزرگ نئے ادارے قائم کرتے تھے اب بنے بنائے اور سجے سجائے اداروں پر شب خون مارنے اور انہیں ہتھیانے کی فکر غالب رہتی ہے۔
رہا معاملہ اردو زبان کا تو اس کا سب سے برا حال دبستانِ دلی اور دبستانِ لکھنؤ کے بیچ میں ہے ۔ یو پی میں تو آپ اردو کی تعلیم کے لیے سرکاری پالیسی کے تحت ادارہ سازی بھی نہیں کر سکتے ۔ یوپی اور دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ تو ملا لیکن صرف اس حد تک کہ اردو رسمِ خط میں محکموں اور عہدوں کا ہندی نام لکھا جا سکے اور دہلی کی سڑکوں پر تو نام بھی اردو کے نام پر کیڑے مکوڑوں کی زبان میں لکھے ملیں گے ۔ دہلی میں بھی ہر اسکول میں اردو ٹیچر نہیں، وقت پر نصاب نہیں اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو والوں اور ان کے عوامی نمائندوں کو اس کی کوئی فکر بھی لاحق نہیں ۔
صورتِ حال یہ ہے کہ شمالی ہند کے ان علاقوں میں جن کو اردو کے اپنی زبان ہونے پر بڑا ناز تھا وہاں یہ حال ہے کہ دوکانوں پر بورڈ، گھروں پر ناموں کی تختیاں، انتہا یہ کہ قبرستانو ں میں لوحِ مزار بھی عام طور پر اردو میں نہیں ملتے۔ اور اس ساری صورتِ حال کا الزام سرکار کے سر ڈال کر اپنی ساری ذمہ داریوں سے فرار، ہم اردو والوں کی فطرت کا خاصہ بن چکی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ :
یہ بد نظمی نگاہِ باغباں کی برہمی تک ہے
مگر یہ برہمی اہل چمن کی بے حسی تک ہے

(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے پریزیڈنٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)