آنند نگر مہراج گنج: (عبید الرحمن الحسینی) آسمان شعر وادب کے بدر کامل عظیم شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کے سانحہ ارتحال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے دارالعلوم فیض محمدی ہتھیا گڈھ کے سربراہ اعلیٰ مولانا قاری محمد طیب قاسمی نے کہا کہ موت ہر انسان کے لئے مقدر ہے اور اسکی خبریں ہماری کانوں میں روزانہ پڑتی رہتی ہیں لیکن بعض ہستیا ں ہوتی ہیں جن کے جانے سے انجمنوں کی رونق ماند پڑ جاتی ہے، ادبی مجلسیں سونی ہوجاتی ہیں ، اپنے پیچھے بہتوں کو سوگوار کرجاتی ہیں، دل تڑپ اٹھتا ہے اور اس کی چبھن برسوں محسوس ہوتی رہتی ہے۔ انہیں میں سے ایک ڈاکٹر راحت اندوری بھی تھے، جن کے وجود سے برصغیر کی علمی وادبی فضا معطر و مشکبار تھی۔
دارالعلوم فیض محمدی کے ناظم اعلیٰ مولانا سعد رشید ندوی نے ڈاکٹر راحت اندوری کی وفات پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: وہ فن شعر شاعری کے امام تھے ، یقیناً آپ کا انتقال پوری ادبی دنیا کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے۔ آپ کی رحلت کے بعد شعری و ادبی دنیا میںایسا عظیم خلا پیدا ہوگیا ہے جس کا پر ہونا بظاہر ممکن نہیں۔ آپ کی شخصیت مختلف خصوصیات و کمالات کی حامل تھی۔ کامیاب ترین ادیب اور عظیم ترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ نے آپ کو قرطاس وقلم کی بے پایاں قوت اور فی البدیہہ تکلم کی خوبی سے بھی سرفراز کیا تھا۔
مولانا ندوی نے مزید کہا کہ عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹرراحت اندوری فرقہ پرستوں کے تعصب بھرے رویوں اور نفرت آمیز باتوں سے سخت ناراض تھے ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس کا اظہار کچھ اس طرح سے شعر پڑھ کر کیا : ؎
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
جس کے بعد فرقہ پرستوں کی ٹولی میں زلزلہ آگیا، انہیں اس کلام پر چہار سمت سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، پھر بھی ان کے پایۂ ثبات میں لغزش نہیں آئی، اور ببانگ دہل اس شعر کو اسٹیجوں سے تاحیات پڑھتے رہے اور نفرت کی سیاست کرنے والے انصاف کا آئینہ دکھاتے رہے۔ جی ہاں ویسے تو بے شمار اشعار آ پ کے بے حد مقبول ومشہور ہوئے، لیکن چند وہ اشعار جن کی بنیاد پر وہ ہمیشہ ، لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ انہیں میں سے یہ ایک شعر یہ ہے : ؎
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تونے مجھ کو زمیندار کردیا
زم زم وکوثر تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندربھی نچوڑ دوں راحتؔ
آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا
دارالعلوم فیض محمدی کے مہتمم مولانا محی الدین قاسمی ندوی نے کہا : کہ منفرد لب ولہجے کے شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کے انتقال کے صدمے کو برصغیر کے تمام اہل علم وفن نے محسوس کیا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ انکی موت کی خبر پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر وائر ل ہوتے ہی آسمان اردو ادب وشاعری پر گہن لگ کیا ہے ، اور ہر طرف غم واندوہ کے بادل چھا گئے ہیں۔آپ ایک قد آور اور بلند خیال شاعر تھے، شہر اندور میں پیدا ہونے والے راحت اندوری کو انکی شاعری کے سبب ” راحت اندوری،، کے نام سے جانا جاتا تھا، مگر ان کا اصل نام راحت قریشی تھا، اسلامیہ کالج ، مدھیہ پردیش بھوج یونیورسٹی اور برکت اللہ یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلیم پانے والے راحت اندوری اپنے پیچھے شاعری کی صورت خوبصورت یادیں چھوڑ گئے۔ جو کبھی ذہنوں سے غائب نہیں ہونگی۔ میرا ماننا ہے کہ آپ نہ صرف یہ کہ ایک عظیم شاعر تھے بل کہ اردو زبان کے استاد اور مصور بھی تھے۔ وہ مشاعروں میں قہقہ لگاتے ہوئے بڑی بے باکی کے ساتھ حکومت کو چیلنج بھی کرتے تھے، کہ سنبھل جاؤ ہم بھی کسی آندھی ، کسی طوفان سے کم نہیں ، ہم سے مت ٹکراؤ۔