پروفیسر اختر الواسع
آزادی کے بعد اردو کا جو حال ہوا اور وہ بھی خاص طور پر شمالی ہندوستان میں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پنجاب سے بنگال تک ، کشمیر سے تاملناڈو تک وہ زبان جس میں کبھی مائیں لوریاں سناتی تھیں ایک دم اجنبی قرار دے دی گئی۔ اردو کی تعلیم برائے نام رہ گئی اور خاص طور پر سب سے برا حشر اردو کا ذریعۂ تعلیم کے حوالے سے اتر پردیش میں ہوا۔ بیسویں صدی کے آخر تک پنجاب ، ہریانہ، ہماچل میں ہندوؤں اور سکھوں کی وہ نسل جو اردو خواں تھی ،اللہ کو پیاری ہوتی چلی گئی اور اسی کے ساتھ اردو جیسی پیاری زبان بھی اپنے بولنے والوں کے ساتھ گمنامی کے پردے میں غائب ہوتی گئی۔ دہلی کا منظر نامہ بھی اس سے کچھ الگ نہ تھا۔ جالندھر کا ’ہند سماچار‘ ہو یا ’پنجاب کیسری ‘دہلی کا ’پرتاپ ‘ہو یا ’ملاپ‘یا ’تیج‘ ہو یا’ سو یرا‘ سب اپنے قاریوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ’دعوت‘ الجمعیتہ‘ قومی آواز ‘ اور اس سے پہلے شمع، بانو، کھلونا، شبستاں،مجرم، بیسویں صدی، روبی، تحریک اور نہ جانے کتنے اخبار ، رسالے اور میگزین اردو والوں کی بے حسی کی نذر ہوتے چلے گئے۔
دبستان دہلی اور دبستان ِ لکھنؤ کے بیچ اردو بولنے والوں کی غالب ترین اکثریت ہاتھ پر ہاتھ دھرے تن بہ تقدیر سر تسلیم خم کیے بیٹھی رہی۔ جب کسی سے اس کا گلہ کیا تو اس نے یہی جواب دیا کہ اردو کا رشتہ روزگار سے جڑا نہیں ہے تو اپنے بچوں کو اردو کیوں پڑھائیں ؟ جب کہ وہ یہ بھول گئے کہ روزگار کے لیے انگریزی اور ہندی کافی تھیں اردو کا رشتہ معدے سے نہیں دل سے ہونا چاہئے۔ مادری زبان سے بولنے والوں کا رشتہ وہی ہو نا چاہیے جو ماں کے دودھ کے ساتھ ہوتا ہے لیکن کون سنتا ہے فغانِ درویش۔
اردو اگر آج بھی زندہ ہے تو اس کا سارا کریڈٹ یا تو مدرسہ والوں کو جاتا ہے جنہوں نے اردو کو شامل نصاب بھلے ہی نہ کیا ہو لیکن ذریعہ تعلیم ضرور بنائے رکھا، جس کے نتیجے میں اردو میں قاری فراہم ہوتے رہے۔ اسی طرح اگر اردو آج بھی رابطے کی زبان ہے تو اس کا کریڈٹ ممبئی کی فلم انڈسٹری کو جاتا ہے جہاں فلم کو سرٹیفکیٹ بھلے ہی ہندی کا ملتا رہا ہو لیکن فلم کے گانے اور مکالمے دونوں عام بول چال کی زبان میں ہی سنائی دیتے ہیں۔ اردو کو تہذیبی اور ثقافتی منظر نامے پر جن لوگوں نے آگے بڑھایا وہ صرف محمد رفیع، طلعت محمود، شمشاد بیگم، مبارک بیگم ہی نہیں تھے بلکہ لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، مکیش، کشور کمار، منّا ڈے، جگجیت سنگھ ، اُدت نارائن، پنکج ادھاس، پیناز مسانی اور چترا وغیرہ کے رول کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ اردو کا منظر نامہ بھی بدلا ہے، اب اردو کی ترقی ، توسیع،بحالی یا کم سے کم برقراری میں وہ لوگ آگے آ رہے ہیں جن کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ”پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے“۔ بیسویں صدی کے آخر سے اکیسویں صدی کے ظہور تک بہار، یوپی اور دہلی میں اردو کو جیسے تیسے دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا۔ گذشتہ دو دہائیوں کے اندر تقریباً نصف درجن چوبیس گھنٹے پرمحیط اردو پروگراموں کے ٹی وی چینل سامنے آئے۔ گذشتہ تین دہائیوں کے اندر اردو کے ایسے کثیر الاشاعت اور ملٹی ایڈیشن اخبار نکلے جنہیں آپ انگریزی اور ہندی صحافت کے مقابلے پیش بھی کر سکتے ہیں اور اپنے ڈرائنگ روم میں دوسری زبانوں کے اخبار ات کے ساتھ بلا جھجھک رکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں ارد وکی سب سے بڑی ویب سائٹ ’ریختہ‘ اسی صدی کی دین ہے ۔اردو کے سب سے بڑے جشن ریختہ ہوں یا جشنِ ادب وہ آج اردو والوں کے لیے فخر و انبساط کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اردو کے وہ بڑے مشاعرے جو سچے معنوں میں اردو کی اقدار اور معیار کے نمائندے ہیں جشن شنکر و شاد اور جشن بہار، وہ بھی اردو والوں اور اس زبان کے پرستاروں کی سماعتوں میں نہ صرف شہد گھولتے ہیں بلکہ ان کی ذہنی ،فکری بالیدگی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ لیکن ان ساری چیزوں میں ایک دلچسپ مماثلت ہے وہ یہ کہ اردو کے ٹی وی کے اکثر چینل چاہے وہ ’عالمی سہارا‘ ہوں یا ’زی سلام‘، ’ نیوز ۸۱ اردو‘ ہوں یا’ ای ٹی وی اردو‘ یہ سارے چینل ان لوگوں کے ہیں اردو جن کی مادری تو کیا ثقافتی زبان بھی نہیں ہے۔ اس طرح اردو صحافت جسے کل ہندی صحافت کا حریف بتایا جا رہا تھا آج ہندوستان کے دو بڑے اردو اخبار راشٹریہ سہارا اور انقلاب غیر مسلموں کی ملکیت ہےں۔ راشٹریہ سہارا تو پہلے ہی سے شری سبرت رائے کی سرپرستی اور ڈاکٹر عزیز برنی کی کوششوں کے نتیجے میں اردو کا ملٹی ایڈیشن اخبار بن چکا تھا۔ لیکن جب خالد انصاری سے جاگرن والے گپتا گھرانے نے انقلاب کو لے لیا تو ممبئی سے اکلوتی اشاعت والا انقلاب آج شمالی ہندوستان میں تقریباً ایک درجن ایڈیشنوں کی صورت میں اپنے قارئین تک پہنچ رہا ہے اسی طرح اردو کو زمین سے اٹھا کر فضائے بسیط میں اور چہار دانگ عالم میں پہنچانے اور غیر معمولی اہمیت کے ساتھ جشن ریختہ کو عظیم الشان سطح پر منانے کے لیے اردو والے سنجیو صراف کے ہمیشہ شکر گزارر ہیں گے۔ اسی طرح جشن ادب ایک نوجوان کنور رنجیت سنگھ چوہان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ شنکر و شاد کا مشاعر ہ دہلی کے ڈی سی ایم خاندان کی یادگار ہے تو دہلی اور پٹنہ میں جشن بہار کے مشاعرے کامنا پرساد کی دین ہیں۔
سرکاریں جن پر ہم اردو والے کسی حد تک بجا طور پر اردو کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ کے شاکی ہیں انہوں نے ہمیں پہلے ترقی اردو بورڈ اوراب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے نام سے غالباً دنیا میں اردو کا سب سے وقیع، شاندار ، بڑی مالی گرانٹ کے ساتھا ایک ادارہ دیا جس کے تن مردہ میں ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ نے اپنی محنت سے نہ صرف نئی روح پھونکی بلکہ کمپیوٹر ائیزیشن سے اردو کو جو ڑ کر اردو والوں کو جدید اطلاعاتی انقلاب کا ہمسر بنانے کی کامیاب کوشش کی ۔ ان کے بعد خواجہ اکرام نے اردو اور سوشل میڈیا کے رشتوں کو نئے سرے سے استوار کرنے کی کوشش کی اور اب ڈاکٹر شیخ عقیل احمد اس کو نیا رنگ و آہنگ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مختلف ریاستوں میں ایک درجن سے زیادہ اردو اکیڈمیاں اپنی اپنی توفیق کے مطابق سرگرم عمل ہیں۔ہمیں خوب معلوم ہے کہ اردو والے ان کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اردو والے ان تمام اداروں سے کیا کام لینا چاہتے ہیں؟ یہ بھی تو معلوم ہو ، ایمانداری سے صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ”جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں “۔
ہم اردو والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں ،وہ محض لفظوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ، اسلوب فکر، تہذیبی رویے اور ثقافتی آہنگ سے عبارت ہے۔ اس کا رسم خط، اس کی جان ہے وہ محض ایک رسم خط نہیں بلکہ فنون لطیفہ میں شامل ہے اور اردو والوں کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ زبانیں سرکاروں کی سرپرستی میں زندہ نہیں رہتی ہیں بلکہ ان کے بولنے والے ہی انہیں زندہ رکھتے ہیں اور اگر اس پر کوئی شک ہے تو سرکاروںکی سرپرستی کے باوجود سنسکرت کی حالت سے سبق لینا چاہئے جو کہ سنسکرتی اور سنسکاروں دونوں کی بلا شبہ زبان ہے۔ ہمیں یہ نہیں چاہئے کہ اگر کوئی زبان خدا نخواستہ مرتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو بھی کفن پہنا دیتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم جاگیں اور اردو زبان کے فروغ و ارتقا کے لئے کام کریں۔ اپنے بچوں کو کسی بھی میڈیم میں تعلیم دلائیں لیکن تیسری زبان کے طور پر انہیں اردو ضرور پڑھائیں۔ اب جب نئی تعلیمی پالیسی آگئی ہے اور اس میں پانچویں جماعت تک مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کو تسلیم کیا گیا ہے تو کیا اردو والوں کو اس کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے اور اردو کے ساتھ کسی کو بھی مکر و فریب کرکے اس زبان کو حاشیہ پر پہنچا دینے کی ہر کوشش کو ناکام بنادینا چاہئے۔ ہم پھر کہیں گے کہ انگریز ی ہو یا ہندی یا دوسری کوئی بھی علاقائی زبان آپ اپنے بچوں کو مہارت تامّہ دلائیں لیکن اردو ضرور پڑھائیں ۔کیا ایسا ہوگا؟ اسی پر منحصر ہے اردو زبان اور اردو والوں کا مستقبل ۔۔۔۔۔!
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی ،جودھ پور (راجستھان) کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہیں)