مغربی بنگال کی سیکولر پارٹیاں

محمد شمشاد

ایک سیکولر ملک میں سیاست یا حکومت کرنے کے لئے انتخاب اہم اور لازمی ہوتا ہے ہرایک انتخاب کے دور رس نتائج ہوتے ہیں مغربی بنگال کا اسمبلی انتخاب بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے یہ انتخاب ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب پورے ملک میں کسانوں اور مزدورو کا احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں دوسری بات یہ کہ مودی جی کی مقبولیت بھی پہلے جیسی نہیں رہ گئی ہے لیکن بھاجپا مغربی بنگال کا الیکشن کسی بھی قیمت پر جتنا چاہتی ہے اس کے لئے وہ ووٹروں کے درمیان ہندوتوا کے نام پر پولرائزیشن کرکے زیادہ سے زیادہ ہندوﺅں کے ووٹروں کو اپنی جھولی میں لینا چاہتی ہے ساتھ ہی ساتھ وہ سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں بھی اپنی سیکولر زم کے نام پر سیکولر ووٹ حاصل کرنا چاہے گی ظاہر ہے اس بنا پر سیکولر ووٹروں میں تقسیم ہونا لازمی ہے۔

اس ملک کی تمام سیکولر پارٹیوں کو بھی بھاجپا کے منصوبہ کے بارے میں پوری طرح احساس ہے کہ وہ سیکولر ووٹوں میں تقسیم چاہتی ہے ان سب کے باوجود ہر انتخاب کی طرح مغربی بنگال کے انتخاب کے مدنظرسبھی سےکولر پارٹیوں کی نگاہیں سیکولر ووٹوں اور خصوصی طور سے مسلمانوں پر مرکوز ہوتی ہیں اور انہیں اپنی جانب راغب کر نے کیلئے اپنی حکمت تیارکر نے میں لگی ہیں لیکن وہ سیکولر پارٹیاں کسی بھی حال میں متحد ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے سیدھے طور پر بھاجپا کو فائدہ پہونچے گا اور انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا

لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان صرف ووٹ دےنے کیلئے پیدا ہوا ہے اور کیا وہ صرف بندھوا ووٹر بن کر رہ گیا ہے کہ جب جس پارٹی کا جی چاہے اپنے لبھاونے میں (ایک دو لالی پاپ دیکر) اسے لبھالے جائے دوسراسوال یہ بھی اٹھنا لازمی ہوجاتا ہے کہ کیا مسلمان اپنے کو اتنا طاقتور اور مضبوط نہیں بنا سکتے ہیں کہ ان پارٹیوں کو مسلما نوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جاسکے اور وہ تمام اسمبلی حلقوں میں اور خصوصی طور سے مسلمانوں کے حلقے میںانکے من پسند اور سیکولر امیدواروں میدان میں اتار سکے ساتھ ہی ان مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے کوئی منصوبہ تیار کر سکے۔

صوبہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27.01%فیصد ہے مغربی بنگال اسمبلی کی 294 سیٹوں میں سے 218 سیٹیں ایسی ہیں جہاں کافی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور وہاں کے انتخاب کے جیت اور ہار میں متاثر کرتی ہیں ، واضح رہے کہ مغربی بنگال کی 27 اسمبلیاں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 40% فیصد یا اس سے زیادہ ہیں جبکہ 30% فیصدتک آبادی والے حلقوں کی تعداد 60 اور 20% فیصد آبادی والے حلقے تقریباً 38 ہیں یعنی اس طرح مغربی بنگال میں 125 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ کے بنا کوئی جیت نہیں سکتا ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان 125 حلقوں میں سے 90 اسمبلیوں پر 2016 میں ترنمول کانگریس کی جیت ہوئی تھی ۔

مغربی بنگال میں مسلمانوں کی کچھ تنظیمیں اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ مغربی بنگال کی تمام سیکولر پارٹیاں کسی ایک محاذ میں شامل ہوجائیں اور متحدہ طور سے بھاجپا سے مقابلہ کریں لیکن فی الحال ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے بایاں مخاد کسی بھی صورت میں ترنمول کانگریس سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتی ہے وہ ممتا بنرجی اور بھاجپا میں کوئی فرق نہیں مانتی ہے وہ انہیں ایک ہی سکے کے دو پہلو (چت بھی میرا اور پٹ بھی میرا) مانتے ہیں جبکہ کانگریس پارٹی کسی بھی صورت اور مصالحت کیلئے تیار نظر آرہی ہے اور اس کی وجہ یہ مانا جاتا ہے کہ مغربی بنگال میں اب کانگریس کے پاس کچھ بچا نہیں ہے اور یہ اس کی مجبوری ہے اگر مسلمانوں نے اسے درکنار کردیا تو دہائی کے قریب بھی اسے پہنچنا مشکل ہوجائے گا ، اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اس وقت مغربی بنگال کا مسلمان ممتا بنرجی حکومت سے بہت زیادہ ناراض ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس اور بائیں بازوں کی پارٹیاں اپنی نصب العین کی وجہ سے کسی بھی حال میں بھاجپا سے ہاتھ نہیں ملا سکتی ہیں لیکن بنگال کا مسلمان ایسی حالت میں کر ہی کیا سکتا ہے سوائے اِس کے کہ مسلمان ان پارٹیوں کے سامنے کچھ شرائط کے ساتھ پر زور مطالبہ کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ان کی نمائندگی دی جائے اور امیدوار بھی اُن کے من پسند ہو ، یہ شرائط جن پارٹیوں کو تسلیم نہ ہو انہیں ووٹ نہ دینے کی دھمکی بھی دی جا سکتی ہے مگر ووٹوں کو تقسیم کر کے اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہنچانا اور فرقہ پرست پارٹی اور اس کے حلیفوں کو فائدہ پہونچانا کہاں کی عقلمندی مانی جا سکتی ہے ۔

اگر مغربی بنگال کے کچھ مسلمان اویسی صاحب کو جتانے میں لگ گئے تو بنگال کا بھی وہی حال ہوگا جو مہاراشٹرا اور بہار کا ہوا ہے ممکن ہے اویسی صاحب کو بنگال کی دو چار سیٹوں پر کامیابی مل بھی جائے گی مگر جس طرح مہاراشٹرا میں اویسی کی پارٹی اتحاد المسلمین کو دو سیٹوں پر کامیابی ضرور مل گئی لیکن مجلس کی وجہ سے مہاراشٹرا کی اسمبلی الیکشن میں بھاجپا کو کم سے کم پچیس سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے میں مدد مل گئی یہی حال بہار کے الیکشن میں بھی ہوا یہاں مجلس کو صرف پانچ سیٹوں پر کامیابی مل تو گئی لیکن اس نے صرف سیمانچل میں جدیو اور بھاجپا اتحاد کو دس سیٹوں پر جیتنے میں مدد کی جبکہ پورے بہار میں ان کے مورچہ (اوپندر کشواہااور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی )کے ذریعہ تقریباً بیس سیٹوں پر جدیو و بھاجپا اتحاد کو فائدہ پہنچانے میں مدد مل گئی اگر مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے سیکولر پارٹیوں کو پچیس تیس سیٹیں کم ہوجاتی ہیں اور اس وجہ کر بھاجپا کو مغربی بنگال میں بہار کی طرح حکومت بنانے کا موقع مل جاتا ہے تو اسے مسلمانوں کے لئے بہت بڑا نقصان کا سودا کہا جاسکتا ہے اگر مسلمان عقل اور حکمت سے کام نہیں لیں گے اور 2016 کے الیکشن کی طرح ہوش اور حکمت سے کام لے کر متحد ہوکر ووٹ نہیں کرتے ہیں تو آج کی ممتا بنرجی کی حکومت سے بھی بہت زیادہ ان پر ظلم و ستم بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ، اس کی مثال دہلی کا منصوبہ بند فرقہ فساد ہے جہاں پر صرف بھاجپا کے زیر انتظام دہلی پولس کام کرتی ہے جو دہلی پولس مرکزی حکومت و امیت شاہ کے اشارے پر مسلمانوں پر جبر و ظلم کیا جارہا ہے وہی حال مغربی بنگال کی بھاجپائی حکومت بھی کرے گی اور پھر اس وقت بنگال کے مسلم عوام اور مسلم قائدین و رہنما ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دیکھتے رہ جائیں گے۔

رابطہ: 7011595123

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں