خبر درخبر(497)
شمس تبریز قاسمی
برلن جرمنی کی راجدھانی اور اہم ترین شہر ہے ،وہاں کی چیڈپلیٹ مارکیت میں کرسمس بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے ،پوری مارکیٹ کو سجایا اور سنوارا جاتاہے اور عیسائی حضرات کرسمس کی تقریب انتہائی شان وشوکت کے ساتھ مناتے ہیں،گذشتہ 18 دسمبر کو جب عیسائی حضرات اسی مارکیٹ میں کرسمس کا جشن منارہے تھے ،ایک ٹرک روڈ کو چھوڑکر کرسمس مارکیٹ میں آگھسا اور شتر بے مہار کی طرح لوگوں کو رونڈنے لگا ،اس حادثہ میں 12 افراد جاں بحق ہوگئے اور50 سے زائد زخمی ہوئے،جرمنی پولس نے اس جرم کے الزام میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوید نامی ایک نوجوان کو گرفتار کرلیا اور اس پر الزام لگایا کہ ٹرک ڈرائیو کرنے والا یہی نوید ہے جس نے 12 لوگوں کی جان لی ہے ،لیکن اگلے چوبیس گھنٹے بعد پولس کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ نوید بے قصور ہے ،ٹرک ڈرائیو ر کوئی اور ہے چناں چہ جرمنی پولس نے نوید کو رہا کردیا اور ساتھ ہی غلط گرفتاری پر شرمندگی ،ندامت اور افسوس کا بھی اظہار کیا ۔
برلن حملہ میں پاکستانی کی گرفتاری کے بعد دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں پر خوف طاری ہوگئے ،ان کا سرندامت سے جھک گیا مختلف ذرائع سے اہل پاکستان نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے خود کو ملامت کیا کہ ہم ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے باشندے ہماری ذلت ورسوائی اور ناکامی کا سبب بن رہے ہیں اور بیرون ملک اس طرح کا واقعہ انجام دیکر پوری مملکت اور عوام کیلئے مشکلات کھڑی کررہے ہیں،لیکن اگلے چوبیس گھنٹے بعد جب جرمنی پولس نے اس گرفتاری کو غلط ٹھہراتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اس حملے میں ملوث انیس العامری نامی تیونسی نوجوان ہے جس کا تعلق داعش سے ہے تو اہل پاکستان نے سکون کی سانس لی اور جرمنی پولس کے طریق کار پر اطمینان کااظہار کیا،ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مجھے بھی قلبی طور پر سکون محسوس ہواکہ پاکستان کے تئیں ایک مرتبہ پھر لوگوں کے ذہن میں جو بدگمانی پید اہوئی تھی وہ ختم ہوجائے گی۔
جرمنی پولس کی تفتیش اور غلط گرفتاری کے اعتراف کو ذہنوں میں رکھتے ہوئے ذرا ہندوستان کی پولس اور ان کے طریق کا ر کا جائزہ لیجئے ۔ہمارے ملک ہندوستان میں پچاس فیصد سے زائد واقعات ،کرائم اور جرائم میں غلط گرفتاری کی جاتی ہے ، اصل مجرموں کو حراست میں لینے کے بجائے بے گناہوں کے ہاتھوں میں بیڑی ڈال دی جاتی ہے ،پھر اس غلط گرفتاری کو عدالت میں صحیح ثابت کرنے کیلئے پولس محکمہ فرضی ثبوت اکٹھا کرتا ہے اور انہیں ثبوتوں کی بنا پر ایک معصوم اور بے گناہ شخص خطرناک مجرم ،بدترین دہشت گرد اور ملک کا غدار قراردیا جاتاہے اور عدالتوں سے اس کیلئے موت اور پھانسی کی سزا کا فیصلہ صادر ہوتا ہے جبکہ سچائی اس کے برعکس ہوتی ہے ۔بے شمار ایسے واقعات ہیں جس میں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ،انہیں انتہائی خطرناک دہشت گردبتایاگیا ،میڈیا نے بھی انہیں ملزم ٹھہرانے کے بجائے مجرم اور آتنگ واد کہا ،نچلی عدالتوں میں ان فرضی ثبوتوں کی بنا پر موت کی سزا بھی سنادی گئی لیکن جب وہی مقدمہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پہونچا تو سچائی یہ سامنے آئی کہ جن لوگوں کو پولس نے مجرم ،گناہ گار اور خطرناک دہشت گرد سمجھ کر گرفتار کیا تھا اس کا ان سب چیزوں سے دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے ،جن پر گولیاں چلانے کا الزام لگایاگیاتھا انہوں نے کبھی بندوق بھی نہیں پکڑی ہے ،بم اور آر ڈی ایکس جیسے اسلحہ کا انہوں نے نام تک نہیں سناہے ،جن پر تین مرتبہ پاکستان جانے کا الزام عائد کیا گیاتھا ان کا ابھی تک پاسپورٹ بھی نہیں بنا ہواہے ۔
مسئلہ غلط گرفتاری اور شک وشبہ نہیں بلکہ غلط گرفتاری کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کرنا اور اصل مجرم تک رسائی حاصل نہ کرنا ہے ،ہندوستان میں جرائم کے بڑھتے گراف کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہاں اصل مجرم کو گرفتار نہیں کیا جاتاہے ،بے گناہوں کو مجرم قراردیا جاتاہے جس کی بنا پر مجرموں کے حوصلے مزید بلند ہوجاتے ہیں اور سماج کے بھولے بھالے لوگ جیل کی سلاخوں میں بند کردیئے جاتے ہیں یا تختہ دار پر لٹکا دیئے جاتے ہیں۔ماضی میں متعدد ایسے واقعا ت رونما ہوچکے ہیں جس میں اصل مجرم تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے معاونین کو تختہ دار پر لٹکادیاگیا یا پھر محض عوامی جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے ملزم کو مجرم قراردیکر پھانسی کی سزا تجویز کی گئی، بعض مرتبہ ایسے لوگوں کو بھی سزائے مودی دے دی گئی جس کا اس حادثہ سے ذرہ برابر کوئی تعلق نہیں تھا۔
جرمنی پولس کی تفتیش کا یہ انداز قابل تعریف اور انتہائی منصفانہ ہے ،ہندوستان کو جرمنی سے سبق سیکھنے اور اس کو نمونہ عمل بنانے کی ضرورت ہے ،خاص طور پر پولس تفتیش کے معاملے میں ہندوستانی پولس کو جرمنی پولس سے ٹریننگ لینی چاہئے تاکہ بے گناہوں کی گرفتاری اور سزائے موت کا سلسلہ ختم ہواور اصل مجرموں کو ہی گرفتار کیا جائے جیساکہ برلن واقعہ میں جرمنی پولس نے نوید کو رہاکرنے کے بعد اصل مجرم کی تلاشی مہم چلائی اور اس تک پہونچنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔
جس وقت میں یہ تحریر سپرد قرطاس کررہاہوں ڈیموکریٹیک ولڈ کی رپوٹ کے مطابق اصل مجرم انیس پولس کے ساتھ اٹلی کے ایک شہر میں ہوئی فائرنگ کے تبادلہ میں ماراگیا ہے،بتایاجارہاہے کہ حملہ آور کا تعلق داعش سے تھا ۔جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ایک ویڈیوبھی دستیاب ہوئی ہے جس میں عربی زبان بولنے والا ایک شخص اسلامک اسٹیٹ کے قائد ابوبکر البغدادی کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرتا ہے اور یورپ میں بسنے والے مسلمانوں پر زور دیتا ہے کہ وہ حملے کریں:صلیبیوں کے نام میرا پیغام ہے: خنزیرو! ہم تمہیں ذبح کرنے کے لیے آئے ہیں۔ خدا کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا‘‘۔
اس واقعہ کے بعد سے ایک مرتبہ پھر جرمنی میں پناہ گزینوں کے لئے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں، مہاجرین کے تئیں نرم پالیسی اختیار کرنے والی چانسلر انجیلامرکل کے راستے میں کانٹے بچھنے شروع گئے ہیں، مسلم مخالف تنظیم اے ایف ڈی نے اپنا مظاہرہ اور احتجاج بہت تیز کردیا ہے اور مہاجرین کو وہاں سے نکالنے کا مطالبہ کیا جارہاہے ،روزنامہ انڈین ایکسپریس کی کالم نگار پیٹرا سورج کے مضمون کے مطابق انجیلامرکل کے چوتھی مرتبہ چانسلر بننے کی امید اب معدوم ہوتی جار ہی ہے اور کرسمس مارکیٹ میں ہونے والے اس حملہ نے ان کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ کردیاہے۔(ملت ٹائمز)