لوگوں کی باتیں بے اثر کیوں ہوگئیں، اور اس کا حل کیا ہے؟

کاشف حسن
یہ شکایت عام ہے کہ کہی گئی بات میں اثر نہیں رہا۔ والدین کہتے ہیں کہ بچے ان کی بات نہیں سنتے۔ اساتذہ شکایت کرتے ہیں کہ طالب علم نہ ان کی بات سنتے ہیں، نہ عزت کرتے ہیں۔ علماءشکوہ کرتے ہیں کہ وہ وعظ کہہ کہہ کر اور تقریریں کرکرکے تھک گئے مگر عوام پر ان کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ یہ شکایت یہیں تک محدود نہیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ بات کا اثر ہی نہیں خود بات بھی غائب ہوچکی ہے۔ اوکھلا میں پڑھے لکھے مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر لوگ کسی علمی موضوع پر سیمینار کا ارادہ کرتے ہیں تو ڈھنگ کے 10 مقررین تلاش کرنا مسئلہ بن جاتا ہے ۔ اس سے لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بات کا اثر ہی نہیں خود بات بھی ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ہے۔ یہ شکایات غلط نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اگر باتیں رخصت ہوگئی ہیں، باتیں کرنے والے نایاب ہوگئے ہیں اور باتوں کا اثر ختم ہوگیا ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کے جواب کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ یہ صورت ِحال لفظ، معنی اور صداقت کے زوال کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہے؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں لفظ کا زوال شعور کی بنیادی صلاحیت کا زوال ہے۔ شعور کی بنیادی صلاحیت یہ ہے کہ وہ ہر سوچی اور کہی جانے والی بات کے لیے زبان کی کائنات سے مناسب ترین لفظ کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ لفظ کے ذریعے معنی کے تعین اور ابلاغ کا پہلا مرحلہ ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی معاشرے میں لفظ یا زبان زوال پذیر ہوگئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شعور معنی کے ابتدائی تعین کی صلاحیت سے بھی عاری ہوگیا ہے اور معاشرے میں سوچی اور کہی جانے والی بات کے لیے درست لفظ کا انتخاب نہیں ہوپارہا ہے۔ کہی گئی بات کے لیے درست لفظ کا انتخاب نہ ہونے سے بات پہلے ہی مرحلے پر بے وزن، بے سمت اور بے اثر ہوجاتی ہے۔ یہاں بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دور میں باتوں کی کیا کمی ہے! ہمارا دور ابلاغ کا دور ہے، ذرائع ابلاغ کا دور ہے، باتوں کا دور ہے، اس دور میں اخبارات ہیں، رسائل ہیں، ریڈیو ہے، ٹی وی ہے، سب سے بڑھ کر انٹرنیٹ ہے۔ ان تمام ذرائع پر ہر وقت باتیں ہی ہورہی ہیں۔ لیکن جس طرح بھیڑ کو قوم نہیں کہہ سکتے، اسی طرح بہت ساری باتوں کا مطلب صحیح باتیں نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابلاغ کے ان تمام ذرائع نے انسانی زبان کو عوامی بنانے کے نام پر سکیڑ کر سمیٹ دیا ہے۔ ان ذرائع کی لغت ہزار پندرہ سو الفاظ سے زیادہ نہیں ہے اور یہ لغت انتہائی محدود ہے اور بہت معمولی باتوں کے لیے ہی کفایت کرتی ہے۔ انسانی تاریخ کا طویل تجربہ بتاتا ہے کہ زبان اور بیان صرف دو چیزوں سے فروغ پاتے ہیں، ایک مذہبیات اور دوسرے ادب۔ مذہبی لٹریچر زبان کو گہرائی عطا کرتا ہے، اور ادب زبان کو تنوع سے مالامال کرتا ہے۔ لیکن ہمارا عہد زبان اور بیان کے حوالے سے صحافت کا عہد بن کر رہ گیا ہے، اور صحافت کی زبان بہت محدود زبان ہے اور محدود کے دائرے میں یہ خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے کہ کسی گہری اور زیادہ بامعنی بات کے لیے غلط لفظ استعمال کرلیا جائے گا۔ اور لفظ کا غلط استعمال زبان اور بیان کو ہی نہیں ،شعور کی سطح کو بھی پست کردیتا ہے۔ لیکن یہ تو مسئلے کا محض ایک پہلو ہے۔ لفظ کے اندر معنی بھی ہوتے ہیں۔ معنی لفظ کا باطن ہیں، اس کا جوہر ہیں، اس کی اصل ہیں، اس کی روح ہیں۔ لفظ، بات اور شعور کی تفہیم ہیں۔ ان کو نہ سمجھنے یا غلط سمجھنے سے سب کچھ غلط ہوجاتا ہے۔ آپ اپنے اطراف و اکناف میں دیکھیں گے تو پائیں گے کہ بات کے لیے صحیح لفظ کا انتخاب کرنے والے جتنے ہیں لفظ کے معنی سے آگاہی رکھنے والے اُس سے بھی کم ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا شعور صرف لفظ کے انتخاب کی سطح پر نہیں معنی کی سطح پر بھی پست ہوگیا ہے۔ اِس سے ہر کہی گئی اور سیکھی گئی بات کا اثر مزید محدود ہورہا ہے۔ لیکن زبان میں صرف لفظ اور معنی ہی نہیں ہوتے۔ زبان میں صداقت بھی ہوتی ہے۔
جب کوئی انسان کسی لفظ کا ابلاغ کرتا ہے تو وہ صرف لفظ کا ابلاغ ہی نہیں کرتا، معنی اور صداقت کا بھی ابلاغ کرتا ہے۔ لیکن لفظ میں صداقت کیسے پیدا ہوتی ہے؟
اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان لفظ میں موجود مفہوم اور شعور کو بسر کرکے دکھادے۔ یہ کہنا کہ سچ بولنا اچھی بات ہے، محض لفاظی ہے۔ سچ بول کر دکھانا اس سے مختلف بات ہے، اور جب کوئی سچ بول کر دکھادیتا ہے اور پھر یہ کہتا ہے کہ ہمیں سچ بولنا چاہئے، سچ سے بڑی کوئی قدر نہیں، تو اُس کی بات کا اثر بے انتہا بڑھ جاتا ہے۔ پھر اس کا بیان لفظ، معنی اورصداقت تینوں سطحوں پر حاوی اور محیط ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں لفظ کا درست انتخاب کرنے والے کم ہیں، لفظ کے معنی سے آگاہ لوگوں کی تعداد مزید کم ہے، اور وہ لوگ تو اور بھی کم ہیں جو لفظ میں موجود صداقت کو بسر کرکے دکھادیتے ہیں اور ایک تہذیب، ایک معاشرے اور ایک زبان کے دائرے میں شعور کی سطح کو آخری حد تک بلند کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا اثر بے انتہا بڑھ جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں انبیاء اور مرسلین ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com