دوران حراست اموات، سماجی و قانونی مسئلہ

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
اترپردیش کے ضلع کاس گنج میں 22 سالہ نوجوان الطاف کی دوران حراست ہونے والی موت اور موت کے بعد پولیس کی پریس کانفرنس نیز الطاف کے والد کا بیان اور پھر کاس گنج پولیس کو دیئے جانے والے متضاد بیان نے ہمارے پورے نظام اور حقائق پر سے پردہ اٹھانے کا کام کیا ہے۔ الطاف کو ایک لڑکی کے غائب ہونے کے الزام میں پوچھ گچھ کے لیے تھانے بلایا گیا تھا، پولیس کے تھرڈ ڈگری ٹارچر کی وجہ سے الطاف کی موت واقع ہوجاتی ہے، پولیس اس قتل کو خودکشی کہتی ہے، پہلے دن تو الطاف کے والد اس حادثہ کو پولیس کے ذریعے قتل کہتے ہیں لیکن اگلے ہی دن پولیس کو تحریری بیان میں الطاف کے والد کہتے ہیں کہ مجھے پولیس سے کوئی شکایت نہیں ہے اور میرے بیٹے نے ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کرلی ہے۔ پولیس کی کہانی میں باتھ روم کی جس ٹونٹی سے لٹک کر خودکشی کرنا دکھایا گیا ہے اس پلاسٹک ٹونٹی کی اونچائی تقریباً 3 – 2 فٹ ہے جب کہ الطاف کی لمبائی تقریباً 5 فٹ تھی۔ میڈیا میں ہنگامہ آرائی کے بعد تھانہ کوتوال سمیت پانچ دیگر پولیس اہلکاروں کو سسپنڈ کردیا گیا ہے۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ہی اترپردیش کے اناؤ ضلع کے بانگرمئو میں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران سبزی کا ٹھیلا لگانے کے الزام میں پولیس 18سالہ جوان فیصل کو تھانے لے گئی تھی لیکن اس کے بعد گھر والوں کو فیصل کی لاش ملی، جس کے بعد دو پولیس اہلکار سسپنڈ کردیئے گئے تھے۔
الطاف کی موت ایک حادثہ ہے، لیکن یہ حادثہ ہمیں یہ موقع بھی دیتا ہے کہ ہم زیر حراست ہونے والی اموات اور ان اموات کی وجوہات و دیگر حقائق پر بھی روشنی ڈالیں تاکہ ہم مسئلہ کی صورت حال اور نزاکت کا اندازہ لگا کر اس کے متوقع حل کے سلسلے میں بھی غور کرسکیں۔ زیر حراست اموات کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں، نیشنل کمیشن برائے حقوق انسانی (این ایچ آر سی) کے مطابق 2018-19 کے دوران پولیس حراست کے دوران 12 اموات، جب کہ اسی دوران عدالتی حراست کے دوران 452 افراد کی موت واقع ہوئی ہے، اسی طرح 2019-20 کے دوران پولیس حراست میں 3 اور عدالتی حراست کے دوران 400 افراد کی موت ہوئی، 2020-21 کے دوران پولیس حراست میں 8 اور عدالتی حراست میں 443 افراد کی اموات ہوئیں۔ اترپردیش میں ان تین سال کے دوران کل 1318 لوگوں کی پولیس و عدالتی حراست میں موت واقع ہوئی۔ اترپردیش کے یہ اعداد و شمار پورے ملک میں ہونے والی اموات کا کل 23 فیصد ہیں، جب کہ پورے ملک میں کل 5569 افراد کی موت دوران حراست ہوئی۔
پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزارت داخلہ نے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں (2018سے 2021) کے دورانیہ میں پولیس حراست میں کل 348 افراد کی موت ہوئی ہے جب کہ 1189معاملات پولیس ٹارچر کے رپورٹ ہوئے۔ ہمارے ملک میں ٹارچر کے خلاف کام کرنے والی ایک اہم مہم نیشنل کیمپین اگینسٹ ٹارچر (این سی اے ٹی) کی ٹارچر پر سالانہ رپورٹ کے مطابق 2020 میں ایک سال میں کل111دوران حراست اموات ہوئیں، جب کہ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق کل 76 اموات 2020 میں دوران حراست ہوئیں۔
ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10دسمبر 1948میں ایک اہم ترین معاہدہ ٹارچر نیز دیگر اذیت ناک، غیر انسانی و ذلت آمیز برتاؤ کے خلاف عالمی معاہدہ (UNCAT) پاس کیا، جس کا واحد مقصد ٹارچر کو قانونی طریقے سے غیرقانونی و قابل سزا بنانا تھا۔ اس معاہدے میں ٹارچر کی تعریف و تفصیل بیان کی گئی، نیز دوران جنگ بھی ٹارچر کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ ہمارے ملک نے ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدے پر اکتوبر 1997 میں دستخط تو کیے، تاہم اپنے ملک میں اس کے نفاذ کا اقرار ابھی تک نہیں کیاگیا، بلکہ معاہدے کی دفعہ 20اور22کے خلاف اپنا موقف واضح کرکے اس کے نفاذ سے معذرت بھی کرلی۔
دستور ہند کا آرٹیکل21تمام شہریوں کو زندگی کا حق دیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دستور و قانون کا نظام قائم کرے جہاں کسی بھی شہری کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو نیز ہر شہری انسانی اقدار و احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہو، یہ حق بنیادی حق یا حقوق انسانی کا سب سے اہم حق تسلیم کیا جاتا ہے، البتہ قوانین کی روشنی میں عدلیہ اگر کسی شہری کو قید یا موت کی سزا سناتی ہے تو وہاں بھی حکومت و عدلیہ کو یہ یقینی بنانا لازمی ہے کہ اس ملزم کو اپنا دفاع کرنے کا پورا پورا موقع ملا اور جو مقدمہ یا فیصلہ ہوا وہ برحق ہے مزید یہ کہ اس فیصلے کے خلاف ملزم اپیل کرنے کا بھی مکمل دستوری حق رکھتا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے سنیل بترا بنام دہلی انتظامیہ کے کیس میں اور پھر راما مورتی بنام اسٹیٹ آف کرناٹک کے کیس میں اپنے تاریخی فیصلے کو تحریر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں یہ واضح کیا ہے کہ قیدی بھی انسان ہیں اور حراست کے دوران ان کے بنیادی حقوق ختم نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ ان بنیادی حقوق کے تحفظ کو خاص اہمیت دستور ہند کے باب سوم میں بنیادی حقوق کو ابتدائی اہمیت اور سپریم کورٹ آف انڈیا کو دستوری و بنیادی حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری دیتے ہوئے نگران کی ذمہ داری دی ہے، نیز سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کو آرٹیکل 32 اور 226 میں خصوصی اختیارات سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان صریح حقوق و تلخ حقائق کے باوجود ہمارے ملک کے دستور یا تعزیراتی قوانین میں کہیں بھی ٹارچر یا دوران حراست موت کی تعریف یا سزا و ممانعت کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے، بلکہ عمومی دفعات یعنی دوران حراست موت کے قتل ثابت ہونے کے ممکنہ تمام شواہد کے بعد ہی انڈین پینل کوڈ (مجموعہ تعزیرات ہند) کی دفعہ 302 کے تحت بمشکل مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
دستور ہند کی آرٹیکل 20 کی ذیلی شق 3 کے تحت کسی بھی شخص کو اس پر لگے الزام کے لیے گواہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ یہ دفعہ شہریوں کے دیئے گئے دستوری حقوق اور ٹارچر سے تحفظ دینے کی غرض سے شامل کی گئی تھی، کیونکہ پولیس ٹارچر عموماً حراست میں لینے کے فوراً بعد گناہ قبول کروانے نیز اقبالیہ بیان حاصل کرنے کی غرض سے ہوتے ہیں۔ انڈین ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 25کے تحت بھی کسی بھی ملزم سے پولیس حراست کے دوران لیا گیا اقبالیہ بیان قابل قبول ثبوت تسلیم نہیں کیا جائے گا، تاہم پولیس حراست کے دوران ہونے والے ٹارچر میں نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق 2016 سے 2017 میں دوران حراست اموات کی شرح میں 9 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔
حکومت ہند نے 2008 میں انسداد ٹارچر بل پارلیمنٹ میں پیش کیا، اس بل کے مطابق اگر کوئی بھی سرکاری ملازم مع پولیس پرسنل اگر کسی بھی شخص کو چوٹ پہنچائے جو کہ اس کی زندگی کے لیے خطرہ پیدا کرسکتی ہو یا کسی عضو یا جسمانی صحت کو نقصان، یا کسی بھی قسم کی جسمانی یا ذہنی تکلیف کا سبب بنے تو وہ سرکاری ملازم مع پولیس کے سزاوار ہوں گے، نیز کسی قسم کی معلومات یا اقبالیہ بیان کے لیے ٹارچر کا استعمال کیا تو یہ قابل سزا جرم ہوگا۔ یہ بل لوک سبھا میں تو پاس ہوگیا تاہم راجیہ سبھا میں بحث کے دوران کچھ اعتراضات ہوئے جس کے بعد اس بل کو 2010 میں دوبارہ پیش کیا گیا تاہم آج تک وہ بل پارلیمنٹ سے پاس ہوکر قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکا اور نہ ہی شہریوں کو دوران حراست ہونے والے ٹارچر سے کوئی تحفظ فراہم ہوا۔
ٹارچر کی وجہ سے حراست کے دوران موت کی صورت میں ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاح کی کتنی ضرورت ہے اور پولیس نظام کو قانونی پشت پناہی کس درجہ تک حاصل ہے، اس کو سمجھنے کے لیے آسام پولیس کا ایک کیس ہماری آنکھیں کھول سکتا ہے۔ آسام کے ضلع کوکراجھار کی ایک ضلعی عدالت نے 1999کے پولیس حراست کے دوران ٹارچر سے ایک 19سالہ لڑکے کی موت کے ایک حادثہ میں اکتوبر 2018کو تقریباً بیس سال کے بعد آئی جی پولیس انوراگ ٹنکھا کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا، وارنٹ جاری ہونے کے بعد حکومت نے متعلقہ پولیس افسر کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا اجازت نامہ (سینکشن آرڈر) دینے سے انکار کردیا جو کہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 197کے تحت ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پولیس نظام کی اصلاح و جوابدہی طے کرنے کے لیے آزادی سے لے کراب تک کسی بھی حکومت کے ذریعہ عملی اقدامات نہیں کیے گئے جب کہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 197 کے تحت انگریز حکومت کا دیا گیا تحفظ آج تک پولیس کے افراد و افسران کو حاصل ہے۔ ضروری ہے کہ اس مسئلہ پر سنجیدہ لائحہ عمل تیار کیا جائے، حکومت و عدلیہ سے سوال کیا جائے، نیز دستور ہند و دیگر قوانین میں فراہم بنیادی حقوق و تحفظات ہر عام شہری کو حاصل ہوں۔
sabbaqsubhani@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com