یاور رحمن
اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت بے نام سے ایک خوف کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ اس ملک میں اپنے ملی تشخص اور سیاسی و سماجی مستقبل کو لیکر ایک بے چینی اور وحشت اس پر طاری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے برسر اقتدار جماعت کا وہ مخاصمانہ اور جارحانہ رویہ جسے خود مسلمانوں کی ان نیم سیاسی اور نیم مذہبی قیادتوں نے سینچا اور اگایا ہے جو ‘جنّت کی خوش کن چھاؤں میں زقوم’ کی کھیتی کرتے رہنے کی روادار ہیں۔ ان قیادتوں نے محض اپنی سیاسی بے بصیرتی کے نتیجے میں مسلمانوں کو ایک سیاسی جماعت سے عشق اور دوسری سیاسی جماعت سے نفرت کی دو انتہاؤں میں تقسیم کر دیا۔ اس پر مستزاد ملک کو کچھ دینے کے بجاۓ صرف اپنے ذلیل دنیوی مطالبوں کی مظلومانہ روش پر کچھ اس طرح گامزن کر دیا کہ مسلمانی کا بچا کھچا وقار بھی خاک میں مل گیا۔ قرآن کے برعکس ان قیادتوں نے مسلمانوں کو ایک طاقتور نظریاتی جماعت بناۓ رکھنے کے بجاۓ اسے ملک میں ایک ایسی ‘کمزور قوم’ بنا دیا جس کے پاس آج نظریے کے نام پر سوائے ایک ذلت آمیز قومی کشمکش کے اور کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ 75 سالوں میں یہ ‘قومی کشمکش’ چند گنجلک اور بے سود مطالبوں کا ہجوم بن کر ایک قومی گالی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
آج مسلمان ایک عجیب سے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ جن قیادتوں پر انہوں نے اپنا اور اپنی نسلوں تک کا مستقبل قربان کر دیا تھا وہ ایسا لگتا ہے جیسے اپنے دفتروں کی میزوں کے نیچے جا چھپی ہیں۔ عوام کو کیا معلوم کہ جب اپنی ہی کمزوریاں جبہ ودستار کے اندر دیمک کی طرح سرسرانے لگتی ہیں تو جلسوں اور سیمیناروں کی گہما گہمی کے بجاۓ سیاہ خلوتوں کی گہری خاموشیاں جاۓ پناہ بن جاتی ہیں اور غرور، تمکن، زعم اور خوش گمانیاں ڈر، مصلحت، احتیاط اور سکوت کے پیرایوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ یہ قیادتیں تو اسی وقت سے معدوم ہونا شروع ہو گئی تھیں جب سخت حالات کی دھمک ان کے اپنے طویل سیاسی فیصلوں اور سماجی رویوں کے نتائج سنانے لگی تھی۔
یہ سراسیمگی تو 2014 میں ہی انکے قدم چھونے لگی تھی اور چہرے خوف سے زرد ہونے لگے تھے۔ کیونکہ غیر متوقع طور پر زبردست شکست سے دو چار ہو جانے والی جماعت سے ‘ اپنی اندھی محبت اور بے جاتعلق’ کی قیمت چکانے کی سخت گھڑی آن پہنچی تھی۔ جس پر سب کچھ وار چکے تھے وہ سیاست کے بستر مرگ پر لاچار پڑا تھا اور جسے شکست دے دینے کی بے تکی دیوانگی میں مبتلا ہوئے تھے وہ جیت کا سہرا پہن کر برسر اقتدار بیٹھ گیا تھا۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر درجنوں مسلم کش فسادات سے اندیکھا کرنے والی، دہشت گردی کے نام پر انگنت مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے بوڑھا کر دینے والی اور اپنی منافقانہ پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کو تاریکیوں میں دھکیل دینے والی طویل المدت حکمراں جماعت سے ایسے ‘ناجائز عشق’ کی وجہ ذاتی مفادات کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟
حالانکہ ایک مرد مومن کے لئے دنیا کا خوف کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر برسر اقتدار جماعتوں سے کسی ابن الوقت اور دنیا پرست انسان کی دوستی کے دن جتنے سہانے ہوتے ہیں ، ان سے دشمنی کے دن اتنے ہی پریشان کن ہوتے ہیں۔ اگر حکومتوں سے اتفاق و اختلاف اصولی ہو اور انکی غلطیوں پر بلا خوف و خطر ٹوک دینے کا کلیجہ اور انکی اچھائیوں پر بغیر کسی لالچ کے انکی تعریفیں کر دینے کا ظرف میسر ہو تو ایک اصولی اور نظریاتی فرد یا جماعت کبھی حالات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ حالات کو متاثر کرتے ہیں۔ وگرنہ اپنی سماجی خدمات کا صلہ مخلوق سے مانگنے والے اصولی نہیں بلکہ ‘وصولی’ ہوتے ہیں۔ آج اپنی اسی ‘وصولی سرشت’ کی وجہ سے وہ کمزور پڑ گئے ہیں۔ ان کی خاموشیاں اور انکی ‘روپوشیاں’ خود بتا رہی ہیں کہ ان کا اپروچ کس ‘کلاس’ کا تھا۔
حیرت اس قیادت کی بلندیِ فکر پہ ہے جو ذاتی اور خاندانی زندگی کے تمام فیصلے سود و زیاں کے مکمل ادراک کے ساتھ کرتی ہے، نجی معاملات میں ہر قدم حکمت و دانائی سے لبریز ہوتا ہے، کہیں پیش قدمی ہوتی ہے تو کہیں توقف اور دفاع ہوتا ہے اور دوستی و دشمنی کے معیارات ضرورتوں کے مطابق بدلتے رہتے ہیں مگر ملی و قومی مسائل پر وہی دماغ ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے، تب طرز کہن پر اڑے رہنا اور آئین نو سے ڈرتے رہنا ہی حکمت عملی بن جاتی ہے۔ یعنی جب قوم و ملت کے اجتماعی مفادات کا سوال آئے تو یہی دل ایک ضدی بچے کی طرح قلقاریاں مارنے لگتا ہے۔ افسوس کہ امّت کے سواد اعظم کا بھی یہی مزاج بنا دیا گیا ہے۔ بلکہ اسلام کے بجاۓ ‘مسلم قومیت’ کا بخار ہم پر ایسا چڑھا ہے کہ آج اگر اس ملک میں ہمیں اقتدار مل جاۓ تو خود ہمارا رویہ موجودہ رویوں سے الگ نہیں ہوگا۔ یہ حال آج اجتماعیت اور انسانیت کا شاندار فلسفہ رکھنے والی امّت کا ہے۔
موجودہ بحران سے لڑنے کے راستے تو دو ہی ہیں۔ یا تو ملک کی انتخابی سیاست میں مذہب کی بنیادوں پر یہ غیر متوازی رسہ کشی جاری رہے، مٹھی بھر خود غرض اور مفاد پرست ایم پی و ایم ایل اے صاحبان کو دیکھ دیکھ کر آنکھیں رشک انگیز کی جائیں اور بد حال مسلم بستیوں کی سرحدوں میں محبوس رہ کر مسلمانوں کے قومی مفاد، ان کی قومی ترقی، قومی خوشحالی، قومی فلاح و بہبود اور انکے قومی سیاسی و سماجی مطالبات کے حصول کے لئے اسی طرح نت نئی سیکولر جماعتیں پیدا کی جاتی رہیں، ان نام نہاد سیکولر قائدین کے جوانوں کو اپنا قومی خون پلا پلا کر ایوانوں میں اسی طرح بھیجا جاتا رہے جن کی جماعتیں اپنی قوموں کی مسیحا بن گئیں، مذہب سے متنفر اشتراکیوں کی پر فریب چھتر چھایا میں نعرے بازیاں کر کر کے اسی طرح خود اپنی مٹی آپ پلید کی جاتی رہے اور مسلم پولیٹیکل پارٹی کے نام پر یوں ہی جذبات کی پتنگیں اڑائی جائیں، خود اپنے جسم کا تیل جلا کر غیروں کے سیاسی خیموں کی روشنی بڑھائی جاۓ۔ اپنے ذاتی سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اخلاقی قدروں اور دینی مطالبوں کو خود پامال کیا جاتا رہے اور پرجوش ‘آئینی جنگ’ لڑکر میدان مار لینے کے لئے پوری کی پوری ‘قومی طاقت’ داؤ پر لگتی رہے۔ قوم و ملت کے جوانوں کی جوانیاں اور انکی ساری ذہنی توانائیاں نعرے بازیوں اور پرچم برداریوں میں یونہی کھپائ جاتی رہیں؟
یا پھر سیاست قومی کے اس ناکام و نامراد نسخے کو پرے جھٹک کر انبیائ طریقۂ کار کو اپنایا جاۓ اور ان تمام ذاتی اور قومی مطالبوں سے اوپر اٹھ کر اس گروہ کا فریضہ انجام دیا جائے جسے قرآن “امّت وسط” اور “خیر امّت” کہ کر مسلمانوں کو عالم انسانیت کا خیر خواہ اور خادم قرار دیتا ہے ؟
قرآن کا یہ آئیڈیل گروہ کسی مخصوص اور اجنبی وضع و قطع، شکل و شباہت اور طور طریقوں کا ‘نمونہ’ نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے سننے میں عام انسانوں جیسا یہ گروہ اپنے مخاطب کا دل اپنے اعمال و اخلاق، گفتار و کردار اور اخلاص و ہمدردی سے جیت لینے کا ہنر جانتا ہے۔ دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دے دینے اور خود اپنے حق سے کم پر توکل کر لینے کی اعلی ظرفی اس گروہ کے ہر فرد کی شخصیت کا امتیازی وصف ہوتی ہے۔ وہ مخاطب کے برے رویے کو اپنے حسن سلوک سے مات دیکر اک جانی دشمن کو بھی جگری یار بنا لیتا ہے۔ وہ کمزور نہیں ہوتا بلکہ اس کے کردار کی قوت کشش بڑے بڑے زور آوروں کو اس کا مرید بنا لیتی ہے۔ وہ جاہ و منصب اور عزت و شہرت کا طالب نہیں ہوتا بلکہ اپنے ہر حسن عمل پر صرف اپنے رب سے اجر کی توقع رکھتا ہے۔ اسلام کی اصل سپرٹ اور اس کے آفاقی پیغام کو عام کر نے والے اس داعی کے حسن کردار کی دل فریب حدت حیات انسانی کے ہر حصے پر اپنے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ مذہب و مسلک اور ذات پات سے پرے غریبوں اور محتاجوں کے لئے بس ایک مسیحا ہوتا ہے۔ اس پر اللہ کا رنگ ہوتا ہے، اسے یہ ڈر نہیں ہوتا کہ وہ مذاہب کی بھیڑ میں اپنا تشخص کھو دے گا۔ بلکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے رنگ میں دنیا کو رنگ لے گا۔ وہ غریبوں اور ناداروں کا سچا ہمدرد ، امیروں کے لئے نشان راہ، اہل علم و ہنر کے لئے اک زندہ مثال اور اہل ورع کے لئے باعثِ صد افتخار ہوتا ہے۔
آج اسی بے غرض اور بے لاگ گروہ کی تشکیل کے لئے موجودہ جماعتوں، جمعیتوں اور کونسلوں سے الگ ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کر سکے ۔ انہیں اس منفی نفسیات سے نکال سکے جس نے مسلمانوں کو خواہ مخواہ اندیشوں میں مبتلا کر کے ہر بات پر انھیں منفی اور جوشیلے رد عمل کا عادی بنا دیا ہے۔
مسلمانوں کو تازہ دم اور مخلص علما، دانشور، ماہرین معاشیات، وکلا، تاجر، آئی ٹی ایکسپرٹس اور دردمند صحافیوں پر مشتمل ایک ایسے نئے تنظیمی ڈھانچے کی اشد ضرورت ہے جس کے اندر حکومتوں سے اوپن ڈائلاگ کرنے کی صلاحیت ہو اور جو انکی بہتر پالیسیوں پر انکو سراہنے اور انکے غلط رویوں پر ان پر کھل کے عالمانہ تنقید کرنے کی جرات رکھے۔ وہ صرف اقلیت کی رٹ نہ لگائے بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت ملک کے ہر باشندے کی بات کرے۔ ہمیں ایک ایسے تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کی سیاسی، معاشی اور سماجی طرز فکر کی اصلاح کر سکے اور ان کے اندر دین کی اصل سپرٹ پیدا کرکے انھیں وقت اور اسکے فطری تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔ انھیں بتا سکے کہ اس ملک کے ایک شہری ہونے کی حیثیت سے خود اسلام ان پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔
ان نوجوانوں کو سمجھانے اور انھیں قائل کر نے کی ضرورت ہے کہ شکوے شکایتوں، نفرتوں، بد گمانیوں اور کھوکھلے نعروں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلتیں بلکہ صبر و تحمل، بردباری، سنجیدہ منصوبہ بندی اور پیہم عملی کاوشوں اور قربانیوں سے تصویریں بدلتی ہیں۔ اس کے لئے دنیا کو پڑھنا پڑتا ہے، سمجھنا پڑتا ہے اور پھر ایک مسیحا کی طرح اسے برتنا پڑتا ہے۔
افسوس کہ نت نئی صداؤں کے اس جنگل میں جسے بھی دیکھئے وہ صرف اور صرف مذہب کو موضوع گفتگو بنائے ہوئے ہے۔ اس معاشرے کی کوئی بات ہی نہیں کرتا جہاں مذہب کی خوبیاں انسانی اعمال و کردار کے پیرہن پہ چمکتی دمکتی دکھائی دے سکیں۔ اسی لئے زندگی جہل اور دہریت کی تاریک چھاؤں میں مذہبی چوپال سجاۓ بیٹھی ہے۔ اصلی خدا کہیں نہیں ہے اور سب بہروپیے خود خدا بنے بیٹھے ہیں۔
آج دنیا اپنی تشکیل نو کے مراحل سے بہت تیز گزر رہی ہے۔ ہم ایک ایسی ڈیجیٹل سوسائٹی کی طرف گامزن ہیں جہاں پیچھے رہ جانے والے اصحاب کہف کے سکّوں کی طرح رد کر دیے جائیں گے۔ ہمیں یہ احساس ہی نہیں کہ اللہ کے قانون فطرت کے مطابق اس کی اس رنگا رنگ کائنات کو وہی مسخر کر سکتا ہے جو اسے برتنا جانتا ہے۔
ہمیں معیشت اور معاشرت کے محازوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے اوپر غریبی اور محتاجی کا وہ بوجھ پڑا ہوا ہے جسے اب بھی نہ اتارا گیا تو لاغری پوری قوم کو منہ کے بل گرا دے گی۔ لہذا ضروری ہے کہ ہمارے اہل علم و نظر ہر قسم کے تعصبات و تحفظات سے بالا تر ہو کر نسل نو کی فکری و نظری آبیاری کریں اور ہمارے اہل ثروت پلاٹس، فلیٹس اور فارم ہاؤسز کی خرید و فروخت اور اپنے جمع شدہ اموال کی بیجا محبّتوں سے اوپر اٹھ کر صنعت و حرفت کے فروغ اور اس دولت کے استعمال کی طرف توجہ دیں جو نادار اور ضعیف لوگوں کی کفالت، عام ہنرمندوں کو ملازمت اور تجارت کی صلاحیت رکھنے والے ذہین جوانوں کو مختلف میدانوں میں بزنس سٹارٹ اپس کے لئے وسائل مہیا کرا سکے۔ ہمارے دولتمند مشارکہ کی بنیاد پر سمارٹ انویسٹمنٹ کا طریقہ اپنائیں تاکہ خود ان کی دولت میں برکت آئے، ملک و قوم کی قوت بڑھے اور انکی دولت بہتے ہوئے شفاف پانی کی طرح انسانی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ سیراب کرسکے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو بے روزگاروں کو روزگار دے گا۔ زہین اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھر پور نوجوانوں کے اندر entrepreneurship کا کلچر پیدا کرے گا اور خود ان کی دولت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اسے نفع بخش بنا دے گا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں زوال پذیری سے بچا سکتا ہے۔ یہی وہ طرز عمل ہے جس سے ہم اپنے خلاف ہر پروپیگنڈے کا عملی جواب دے سکتے ہیں۔
اس وقت ہم ایک زبردست معاشی انقلاب سے گزر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی وینچر کیپٹل کمپنیاں سب سے زیادہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کر کے منافع کما رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ اس میدان میں ہمارا نام کہیں سنائی بھی نہیں دیتا۔ ہماری ‘ماتمی دنیا’ میں سوائے شکوۂ مظلومیت کے اور کچھ بھی نہیں۔
اگر آج ہم اس انقلاب کا حصہ نہیں بنے اور وقت کے ہمرکاب نہیں ہوئے تو ہمارے غرباء پر جو گزر رہی ہے وہ تو گزرے گی ہی، اپنی ‘محفوظ جنّتوں’ میں بیٹھے رہ جانے والے ہمارے امراء اپنی اگلی نسل کو غربت و افلاس کے اس بدنما مقام تک پہنچا دیں گے جہاں ایمان بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اور پھر ترک اسلام کی جو اجتماعی ہوا چلے گی وہ آخرت میں ہمارے دعواے اسلام کی سب ہوا نکال دے گی۔ اللہ اس دن کی ذلت سے ہم سب کو محفوظ رکھے !
یہ نوبت ہمارے دروازوں پر بڑے زور کی دستکیں دینے لگی ہے۔ خاندانی اور نسلی غربت وجہالت ، امراے قوم کی بے توجہی اور مفکرین قوم کی ہوا ہوائیوں نے مسلمانوں کو ‘غیر مسلمان’ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے اپنے گھر کی چھتیں تنگ پڑ گئیں تو وہ ‘گھر واپسی’ کے نام پر اپنا ہی گھر چھوڑ گئے۔ حال یہ ہے کہ مسجد کے امام تک خود کشی کر نے لگے ہیں۔ یہ حادثہ ابھی پچھلے ہفتے ہی ریاست بہار کے ایک شہر میں رونما ہوا ہے۔ ایسی خبریں اب آنے لگی ہیں۔ اس لئے میں نے عرض کیا کہ یہ وقت تمام سیاسی اور مذہبی جھگڑوں سے الگ ہٹ کر روح وجسم کی قومی غربت و بدحالی دور کرنے کی طرف مکمل توجہ، انہماک اور عملی تدبیروں کا ہے۔ اور یہ کام نئی اور تازہ دم قیادت ہی کر سکتی ہے۔ جو آزمائے جا چکے ان کا تو بس حال یہ ہے کہ
یوں ہی دشمن نہیں در آیا مرے آنگن میں
دھوپ کو راہ ملی پیڑ کی عریانی سے
کوئی بھی چیز سلامت نہ رہے گھر میں سلیمؔ
فائدہ کیا ہے بھلا ایسی نگہبانی سے
(سلیم کوثر)