سہ روزہ جشن میں ان مجاہدین آزادی کو یاد کیا گیا جنہیں عموماً بھلا دیا جاتا ہے
مونگیر: جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں 13 اگست 2022 کو تقریب جشن آزادی کا آغاز ہوا۔جس میں ادارہ کے زیر اہتمام چلنے والے یو ٹیوب چینل فکر و نظر پر جامعہ کے شعبہ صحافت کے طلبا نے چند معروف و مشہور اور بیشتر ایسے مجاہدین آزادی کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے مفصل اور جامع انداز میں ویڈیو کنٹینٹ پیش کیا جنہیں تقریباً بھلا دیا گیا ہے۔
طلبہ نے مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے علاوہ ڈاکٹر شری کرشن سنگھ، بابو جگجیون رام، میر قاسمؒ، خان عبدالغفار خانؒ، شہید پیر علی خانؒ، حافظ ضامن شہیدؒ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ، حیدر علیؒ، ٹیپو سلطانؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا حسرت موہانیؒ، عبادی بانو بیگم، حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ اور گلزاری لال نندا جیسے متعدد مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو موثر انداز میں اجاگر کیا۔
جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے شعبہ صحافت کے ایچ او ڈی فضل رحمٰں رحمانی نے ایک پریس بیانیہ میں کہا کہ حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی ہدایت پر مجاہدین آزادی کو یاد کرنے کی سہ روزہ مہم چلائی گئی جس میں طلبا نے پوری دلچسپی اور ذوق کے ساتھ حصہ لیا۔جس کے نتیجہ میں فکر و نظر چینل پر ویڈیو کی شکل میں تاریخی دستاویز جمع ہوئی ہے جو بہت کارآمد اور مفید ہے۔انہوں نے کہا کہ آج نوجوان نسل یہ بھی نہیں جانتی کے آزاد بھارت کی پہلی مرکزی کابینہ میں کتنے مسلم وزراء تھے اور وہ کون کون تھے اور تحریک آزادئے ہند میں ان کی کیا قربانیاں رہی ہیں؟اسی تناظر میں یہ سہ روزہ تحریک چلائی گئی۔
اس مہم کے آخری روز یعنی 15 اگست کو جامعہ رحمانی کی دیدہ زیب اور پروقار عمارت کے سامنے خوبصورت میدان میں ایک شاندار اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجلاس میں بھی جامعہ کے اساتذہ و طلبہ نے شاندار،معلوماتی اور پر معز خطاب کے ذریعہ مجاہدین آزادی کی یادوں کو تازہ کیا اور ان کی روشن خدمات اور قربانیوں پر مؤثر روشنی ڈالی۔
پرچم کشائی کے بعد پروگرام کا آغاز علامہ اقبالؒ کے سدابہار اور پسندیدہ ترانہ”سارے جہا سے اچھا ہندوستاں ہمارا“سے ہوا۔ اس کے بعد تقریری سلسہ کا آغاز جناب مولانا سیف الرحمٰن صاحب ندوی استاذ جامعہ رحمانی مونگیرنے کیا۔ انہوں نے تحریک آزادی میں حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی قربانیوں پر جامع روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں پر اس ملک کی زمین تنگ کردی، چنانچہ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے حالات کے پیش نظر ہندوستانی مسلمانوں کی مادی اور دینی بقا کے لیے کئی شہروں میں مدارس کے قیام کی تحریک چلائی اور اس کی شروعات دارالعلوم دیوبند کے قیام سے کی۔ اسی دارالعلوم کے بارے میں ان کے شاگرد نے فرمایا کہ حضرت الاستاذ نے 1857ء کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اس ادارہ کو قائم کیا تھا۔
دوسرے مقرر کی حیثیت سے جناب مفتی جنید احمد صاحب قاسمی نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی ناقابل فراموش کردار پر شاندار اور پرمغز خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے ہندوستان میں انگریزی اقتدار کا تختہ الٹنے کے لیے تحریکیں شروع کیں۔سنہ 1916ء میں گرفتار کر کے انھیں مالٹا میں قید کر دیا گیا۔ انھیں 1920 میں رہا کیا گیا، اور خلافت کمیٹی کی طرف سے انھیں ”شیخ الہند” کے خطاب سے نوازا گیا۔ انھوں نے تحریک عدم تعاون کی حمایت میں فتوے لکھے اور مسلمانوں کو تحریک آزادی میں شامل کرنے کے لیے ہندوستان کے مختلف حصوں کا سفر کیا اور مختلف قسم کی صعوبتیں برداشت کیں جس کے نتیجہ میں ہی ہمیں آزادی ملی ہے۔
مولانا کے بعد جامعہ رحمانی کے طالب علم مولوی محمد ضیاء الدین رحمانی نے آزادیئ ہند کے لیے قربانی دینے والے علما کرام کا تذکرہ کرتے ہوئے شاندار خطاب کیا اور اساتذہ و طلبہ سمیت عمائدین شہر کی خوب دادو تحسین وصول کی۔
ان کے بعد جناب ڈاکٹر مولانا محمد شہاب الدین ندوی ازہری استاذ حدیث جامعہ رحمانی، مونگیر نے جنگ آزادی میں علمائے کرام کے کردار پر جامع خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ علما کرام نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی بیویوں کو بیوہ کیا، بچوں کو یتیم کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں جس کے صدقہ میں ہمیں آزادی ملی ہے۔انہوں نے فرمایا کہ مدارس اسلامیہ نے صرف تعلیمی میدان ہی میں کارکردگی نہیں پیش کی بلکہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں بھی ان مدرسوں کی خدمات بڑی روشن ہیں۔
مولانا کے بعد جامعہ رحمانی کے شعبہ صحافت کے ایچ او ڈی صحافی جناب فضل رحمٰں رحمانی صاحب کو ایک ایسے مجاہد آزادی اور آزاد بھارت کی پہلی مرکزی کابینہ میں دو مسلم وزرا میں سے ایک جناب رفیع احمد صاحب قدوائیؒ پر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی جنہیں تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے۔انہوں نے رفیع احمد قدوائیؒ کے آزدی سے قبل کے سیاسی سفر پر تاریخ کے حوالہ سے مختصر روشنی ڈالی اور پھر تحریک آزادیئ ہند میں آپ کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بے شمار مجاہدین آزادی ہیں جنہیں ہم نے بھلا دیا۔ایک منظم سازش کے تحت وقتاً فوقتاً اور رہ رہ کر ایسے ناموں کو تاریخ سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی کوششیں کی جاتی رہیں گی لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان جیالوں اور بزرگوں کی قربانیوں کو اجاگر کریں۔ ان کے اوپر مضامین و مقالات لکھیں، کتابیں تصنیف کریں اور ریسرچ کر کے مختلف پلیٹفارمز کے ذریعہ ان کی خدمات کو منظر عام پر لاتے رہیں۔انہوں نے فرمایا کہ جب 1857ء کی جنگ آزادی کو پہلی جنگ آزادی قرار دئے جانے کے لیے مسودہ تیار کیا گیا اور اسے دستاویزی شکل دی جا رہی تھی تب اسی خانقاہ رحمانی کی سرزمین سے حضرت امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی صاحب رحمانیؒ نے ایک تاریخی سیمینار منعقد کر کے مضبوط آواز اٹھائی اور حکومت کو اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کیا۔
ان کے بعد جناب مولانا رضاء الرحمٰن صاحب رحمانی استاذ جامعہ رحمانی مونگیر نے حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ پر انتہائی معلوماتی اور جامع خطاب کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ مولاناؒ مجاہد آزادی کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط عالم دین بھی تھے۔ انہیں قرآن، فقہ، علم الکلام، علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔وہ ایک عظیم خطیب، زبردست صحافی، عالی مرتبت مجتہد، اور عظیم قومی رہنما تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کے جتنے مخالف تھے اتنے ہی متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ ان کی نظر میں آزادی وطن کے حصول اور اس کی بقا کے لئے ہندو مسلم اتحاد ہی نسخہ کیمیا تھا۔
مولانا کے بعد مولوی محمد ارشد رحمانی متعلم جامعہ رحمانی مونگیر نے تحریک آزادء ہند پر پرجوش خطاب کیا اور تمام مجاہدین آزادی کو خراج تحسین پیش کی۔
پروگرام کے اختتامی مرحلے میں جناب مفتی ریاض احمد صاحب قاسمی نے جنگ آزادی میں خانقاہ رحمانی کے کردار پر مفصل،جامع اور معلوماتی خطاب کیا۔انہوں نے فرمایا کہ خانقاہ رحمانی نہ صرف تحریکات کا مرکز رہا ہے بلکہ یہ بنفس نفیس ایک تحریک کا نام ہے۔اِسی تحریک کے نتیجہ میں حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ صاحب رحمانی نور اللہ مرقدہ نے آزادی کی لڑائی میں پوری مضبوطی کے ساتھ بے لوث اور مخلصانہ شرکت فرمائی اور طالب علمی کے زمانے میں میرٹھ، مظفر نگر، سہارنپور ضلع کے کوآرڈینیٹر کے طور پر کمان سمبھالی اور آزادیئ وطن کی خاطر آپ دو دفعہ جیل گئے اور بڑی ہمت کے ساتھ آزاد ہند کے کارواں میں نمایاں طور پر شریک رہے اور یہ سلسلہ سنہ 1947 ء تک جاری رہا۔
پروگرام کی کامیاب نظامت جناب مولانا خالد صاحب رحمانی نائب ناظم تعلیمات جامعہ رحمانی مونگیر نے کی۔دوران نظامت انہوں نے بھی جستہ جستہ بڑی معلوماتی گفتگو کی۔انہوں نے واضح انداز میں فرمایا کہ غدار کسی فرقہ سے منسلک ہو یا کچھ بھی اس کا نام ہو سچ یہی ہے کہ غداروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ہم سبھوں نے مل کر اس ملک کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔
اخیر میں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب رحمانی نے تمام علماء کرام کی قیمتی اور معلوماتی بیانات کو دلوں میں جگہ دینے اور اس پر عمل کرنے کی نصیحت و تلقین کی۔ حضرت مولانا کی دعاء کے ساتھ ہی پروگرام اختتام پزیر ہوا۔
جناب مولانا محمد عارف صاحب رحمانی جنرل سکریٹری جامعہ رحمانی مونگیر نے پروگرام کا لائحہ عمل تیار کیا اور پروگرام کی شاندار ترتیب دی وہیں مولانا عبدالعلیم صاحب رحمانی ازہری نے انتظامات کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دی۔