بدلتی ہوئی کانگریس: اور اٹھتے سوالات

سیف الرحمٰن

بیورو چیف ملت ٹائمس

2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں حکومت میں آنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے بارے میں کہا جانے لگا تھا کہ اُس کے خلاف کوئی اپوزیشن زندہ نہیں بچا ہے اور یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ اس نے حکومت کا غلط استعمال کرکے ملک سے اپوزیشن کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہے- اُن پر لگنے والے ان الزامات کے پیچھے کہیں نہ کہیں سچائی بھی نظر آئی ہے کیونکہ ملک سے سب قدیم اور اپنی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی انڈین نیشنل کانگریس سے ملک کو ‘مکت’ کرانے کی بات کرکے کہیں نہ کہیں اس بات کا صاف اشارہ کردیا تھا کہ اُنکا مقصد ‘اپوزیشن مکت بھارت’ بنا کر ایک ملک ایک پارٹی کے نظریے کو عملی جامہ پہنانا ہے اور یہ دیکھنے کو ملا کہ اس میں نہ صرف ملک کی مین اسٹریم میڈیا اور حکومتی ایجنسیوں نے بھاجپا کے ایک اتحادی کا کردار نبھایا بلکہ خود اپوزیشن جماعتیں بھی پارلیمنٹ سے لیکر سڑک تک کی خاموشی اور کمزور انتخابی پالیسیوں و تقسیم ووٹ کی غلطیوں کے ذریعے اس مشن میں بھاجپا کی مددگار ثابت ہوتی نظر آئی ہے اور یہ یقین سب کو ہونے ہی لگا تھا کہ اب شاید کئی دہائی تک ملک کو ڈکٹیٹر شپ کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ جمہوریت میں اپوزیشن نہ ہو تو حکومتیں ڈکٹیٹر شپ کا راستہ ہی اختیار کر لیتی ہے – یہ یقین نہ صرف عوام و تجزیہ کاروں کو ہونے لگا تھا بلکہ خود بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی اس بات کا خیال پیدا ہوگیا تھا کہ اب ایک زمانے تک اپوزیشن سے خالی حکومت انکے قبضے میں رہیگی لیکن بھاجپا کا ایک مثبت پہلو یہ رہا کہ یہ خوش فہمی کبھی اُسے خواب خرگوش میں نہیں ڈال سکی اور انکے قائدین و کارکنان نے آرام کی نیند میں نہ پڑ کر ہمیشہ ہی متحرک ہی نظر آئے ہیں جس سے یہ جھلکنے لگا تھا کہ اب اس ملک میں انتخابات شاید بس ایک رسم ہی بن کر رہ جائے – مگر گزشتہ چند مہینوں سے بلکہ قریب دو سالوں سے سیاسی ماحول میں الگ طرح کی حرارت نے جنم لینا شروع کردیا ہے جسمیں ایک طرف او بی سی سیاست کا دوبارہ سے نہ صرف زندہ ہوتا نظر آنا بلکہ پیریار جیسے مفکرین کے نظریات کے رنگ کے ساتھ متحد ہوتے ہوئے نظر آنا اور منڈل بنام کمنڈل کے نعرے کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تو وہیں دوسری طرف جھارکھنڈ سے ہیمنت سورین کی قیادت میں جارحانہ آدی واسی سیاست کا عروج تو وہیں ملک بھر میں خاص کر گجرات،راجستھان،مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک اور اُتر پردیش میں دلتوں کے درمیان نظریاتی سماجی تحریکوں کا بڑھتا اثر ہے- ان تینوں نکات کے ساتھ ایک اور اہم بات جس نے ہندوستانی سیاست کے درجہ حرارت کو بہت تیز کردیا ہے ساتھ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی و اُنکی حمایت کرنے والی ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم آر ایس ایس کو متفکر بھی کردیا ہے- وہ ہے ملک کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے اندر نظر آنے والی مثبت تبدیلیاں, کیونکہ یہ کانگریس وہ ہے جس نے آزادی کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ عرصوں تک تنہا اقتدار کو سنبھالا ہے اور آج بھی کئی صوبوں میں حکومت کر رہی ہے تو وہیں کئی صوبوں میں دوسری سب سے بڑی یعنی تنہا اپویشن پارٹی کی حیثیت رکھنے والی سیاسی جماعت ہے ساتھ ہی اس بات کی حیثیت بھی رکھتی ہے کہ آج بھی ملک کے قریب 40 فیصد لوک سبھا حلقوں میں وہ بھاجپا کو مقابلہ دینے والی اصل اپوزیشن جماعت ہے- یہی وجہ ہے کہ عام سماجی کارکنان اور سول سوسائٹی کے ارکان نے ان 07 سالوں میں ہمیشہ یہ کوششیں کی ہے کہ کانگریس اپنے رویّے میں تبدیلی لائے تاکہ ملک میں جمہوریت قائم رہے کیونکہ ہر بڑے سے بڑے کانگریس مخالف انسان کا بھی یہ ماننا رہا ہے کہ دوبارہ ملک میں اگر تبدیلی اقتدار ہوگی جو تبدیلی ایک جمہوری ملک میں ہوتے رہنا چاہیے تو یہ تبدیلی کانگریس کے ذریعے یا کم از کم اُس کے ساتھ کے ساتھ ہی ممکن ہوگی – اور اب یہ تبدیلی کانگریس میں ہوتے نظر آنے لگی ہے جس کی ایک اہم کڑی وہ رہی جب کہ پارٹی نے سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھ کر کہ کی اس موجودہ ووٹ بینک کی سیاست کے وقت میں اُس کے پاس سے اُس کا بنیادی ووٹ بینک اعلیٰ ہندو طبقات اور مسلمان ووٹ بینک کھسک چُکا ہے کیونکہ اعلیٰ ہندو طبقات نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے برہمن وادی افضلیت والی سیاسی پالیسی کو اپنی مکمّل حمایت دے دی ہے تو وہیں بھاجپا کو ہرانے کے پالیسی اور کانگریس حکومتوں کی اقلیتوں کے معاملے میں کی گئی بڑی بڑی غلطیوں کی وجہ سے مسلم ووٹ بینک نے ریاستوں کے مقامی سیاسی جماعتوں سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے لہٰذا کانگریس نے اپنا ووٹ بینک بنانے کیلئے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں او بی سی کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ لیکر بھاجپا کی 2014 سے لیکر 2019 تک کی او بی سی کو سادھ کر حکومت کرنے والی پالیسی کو زبردست دھچکا دیا ہے تو اس کے ساتھ ہی پہلے پنجاب میں ایک دلت لیڈر ‘چننی’ کو وزیر اعلیٰ بنا کر اور اب اپنے بڑے دلت چہرہ ‘مللکارجن کھڑگے’ کو پارٹی کا قومی صدر کا اُمیدوار جس میں اُنکا قومی صدر بننا تقریبا طے مانا جاتا ہے بنا کر ایک تیر سے کئی نشانہ لگایا ہے جسمیں ایک مقصد سیاسی قیادت سے تقریباً محروم ہوتے جا رہے دلت ووٹ بینک کو اپنانا ہے تو وہیں دوسرا مقصد بظاھر شفّاف نظر آنے والے اندرونی انتخاب کے ذریعے غیر گاندھی صدر بنا کر اپنے آپ کو ایک جمہوری نظام والی عوامی سیاسی جماعت کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش بھی ہے جسمیں وہ تقریباً کامیاب بھی نظر آ رہی ہے کیونکہ جو ڈرامہ ان دنوں کانگریس کے اندرونی انتخاب کے سلسے میں دیکھنے کو مل رہا ہے اُس نے ملک بھر کی دلچسپی خوب لوٹی ہے – اس طرح کی دلت و او بی سی ووٹ بینک والی سیاسی پالیسی اور اندرونی جمہوریت کے دکھاوے یا اندرونی جمہوریت کے قیام کی کوشش کے ساتھ ہی کانگریس نے ایک اور بڑا قدم بھی اٹھا کر ملک بھر کی نظر اپنی جانب کھینچ لی ہے اور وہ ہے بھاجپا آئی ٹی سیل و مین اسٹریم میڈیا کے پروپیگنڈوں کے ذریعے پپو کے طور پر بدنام کردیے گئے اپنے نوجوان قائد راہل گاندھی کی قیادت میں 3570 کیلو میٹر کا پیدل یاترا شروع کرنا جس میں شروع سے ہی لوگوں کو انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کی آگ لگانے والا مہاتما گاندھی کا دانڈی یاترا اور خود ماضی میں کانگریس کی ڈکٹیٹر شپ جیسی حکومت کو کمزور کرکے سماجوادی سیاست کے قیام میں اہم کردار نبھانے والے چندر شیکھر کی ‘پیدل یاترا’ نظر آنے لگا تھا- اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بات صحیح بھی ثابت ہونے لگی ہے کیونکہ اب تک جب کہ اس ‘یاترا’ نے قریب ایک ماہ کا عرصہ گزار لیا ہے اور اپنے سفر کے تیسرے صوبے میں قدم رکھ چکا بے اس یاترا نے اس میڈیا کو مکمّل طور پر اپنے کوریج کیلئے انکے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبور کیے رکھا ہے جس نے گزشتہ چند سالوں میں ہر طرح کی اپوزیشن کے تمام سوالوں کو مکمّل طور پر نظر انداز کرکے رکھا تھا بلکہ زیر اقتدار پارٹی کی ترجمان بنی بیٹھی رہی ہے- اس ‘یاترا’ نے میڈیا کے ساتھ زیر اقتدار پارٹی کو بھی اپنے اوپر چرچا کیلئے مجبور کردیا جس میں اُس راہل گاندھی کے ٹی شرٹ کے اوپر سیاست کیلئے وہ مجبور ہوگئے جس کے بارے میں یہ مذاق بنایا کرتے تھے کہ اس کو تو سیاست آتی ہی نہیں ہے اور اسے تو سیاست سے دلچسپی بھی نہیں ہے- یہی نہیں بلکہ یہ ‘یاترا’ میڈیا، زیر اقتدار پارٹی اور عوام کی مکمل دلچسپی اپنی طرف کھینچنے کے ساتھ ان سوالات کو بھی بحث میں لانے میں کامیاب ہوتی نظر آئی ہے جو کہ ملک کے حقیقی سوال کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے کہ منہگائی،بے روزگاری اور اقوام ہندوستان کے درمیان غریبی امیری و نفرت کی بڑھتی کھائی- جسکی ایک اہم مثال دو دنوں پہلے بھاجپا کی مادری تنظیم آر ایس ایس کے قومی جنرل سیکریٹری دتترے ہوسبلے کا غریبی، بے روزگاری اور عدم مساوات پر سخت بیان دینا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مسئلوں پر بحث نے کس طرح جگہ بنا لی ہے- یقیناً ان تبدیلیوں سے نہ صرف کانگریس کو دوبارہ نئی توانائی ملتی اور راہل گاندھی کا ہر دلعزیز لیڈر بن کر ہوتا اُبھار نظر آ رہا ہے بلکہ مضبوط اپوزیشن کی واپسی اور آنے والے 2024 کے لوک سبھا میں تبدیلی اقتدار کا اشارہ بھی ملتا دکھ رہا ہے – مگر یہاں سے چند اہم سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں- جیسے کہ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کانگریس کو ان اقدامات خاص کر بھارت جوڑو یاترا سے جو نئی توانائی مل رہی ہے کیا اُس کو لیکر کانگریس اس یاترا کے بعد بھی خود کو عوام سے ملک بھر میں زمینی سطح پر حقیقی طور پر منسلک کرنے کیلئے احتجاج سیاست کو مکمّل طور پر اپنانے کا کام کریگی؟ کیونکہ اس یاترا سے کانگریس کو بس ایک نیا تعارف ملتا دکھ رہا ہے لیکن عوام سے رشتہِ مستقل عوامی احتجاجی سیاست کے ذریعے سے ہی بنایا جا سکتا ہے- اس کے علاوہ یہ سوال بھی ہے کہ لاکھوں کارکنان والی بھارتیہ جنتا پارٹی و آر ایس ایس سے مقابلہ کیلئے بوتھ کی سطح تک ٹیم کھڑا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کانگریس کی طرف سے نظر آئیگی؟ کانگریس کے گزشتہ سالوں کی سیاست کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نرم ہندوتوا کی ناکام پالیسی سے سبق لیتے ہوئے اور اس حقیقت کو مان کر کہ موجودہ لڑائی نظریے پر مبنی ہے کیا کانگریس گاندھی و آزاد کے نظریہ جمہوریت کو جارحانہ طور پر اپنا کر مضبوط نظریاتی رخ لیگی؟ اور اپنے لیڈران و کارکنان کی نظریاتی تربیت کی طرف بھی دلچسپی لیگی؟ ان سوالات کے مدنظر کانگریس کیلئے یہ بھی لازم ہو چکا ہے کہ وہ کانگریس سیوادل کو دوبارہ سے پوری مضبوطی کے ساتھ زندہ کرے. اس کے ساتھ ہی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ او بی سی کو تنظیم میں ریزرویشن دینے اور دلت صدر بنانے والی کانگریس اپنے او بی سی اور دلت لیڈران کے ذریعے سے ان سبھی سماج کی قیادت سے تعلقات اور انکے مسائل پرمسلسل آواز اٹھا کر اُنکی عوام میں پیٹھ بنانے کی سنجیدہ و مسلسل جدوجہد کر پائیگی؟ کیا کانگریس اپنے پُرانے ووٹ بینک مسلمانوں کی قیادت و اُنکی نئی نسل کے نبض کو سمجھنے کی کوشش کرکے انکے ساتھ دوبارہ رشتہِ استوار کرنے کی طرف مثبت و مضبوط اقدام کریگی؟ تمام سوالات کے ساتھ بی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو کانگریس بھارت جوڑو یاترا کرکے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کو تقسیم کر رہی ہے لہٰذا سب کو اُس کے خلاف متحد ہوکر متحدہ قومیت والا مضبوط ہندوستان بنانا چاہیے،کیا وہ کانگریس اس سچ کو مانتے ہوئے کہ کانگریس کے وزارت عظمیٰ کے چہرے پر اپوزیشن کے متحد ہونے کی اُمّید نظر نہیں آ رہی ہے مگر اگر کسی غیر کانگریسی چہرے پر اتحاد کی بات ہو تو مضبوط عظیم اتحاد کے قیام کی اُمّید جھلکتی ہے لہٰذا کیا غیر گاندھی کانگریسی صدر کی طرح ہی غیر کانگریسی وزیر اعظم اُمیدوار کو کانگریس اپنی حمایت دیکر بھارت جوڑو کا ثبوت پیش کر پائیگی؟ خاص کر ایسے وقت میں جب کہ نتیش کمار کے شکل میں ایک ایسا چہرہ بھی سامنے آتا نظر آرہا ہے جس کا کانگريس سے بھی ہمیشہ سے اچھا تعلق رہا ہے اور وہ ایک ایسے چہرے کی حیثیت بھی رکھتا ہے جس پر تمام علاقائی او بی سی لیڈرشپ والی جماعتوں کے ساتھ ہی آدی واسی، دلت و مسلم اور لیفٹ لیڈرشپ یہاں تک کہ مایاوتی، کیجریوال اور ممتا بنرجی کے بھی تیار ہو جانے کی اُمّید کی جاتی ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com