محمد فیروز کشن گنج کے پوٹھیا بلاک سے تعلق رکھتے ہیں، عمر 23/ برس ہے، دسویں جماعت کے بعد سے دہلی میں پرائیویٹ نوکری کرتے ہیں، محمد فیروز نے ہمیں بتایا کہ ان کی خواہش اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی تھی، وہ بی پی ایس سی کی تیاری کرکے اعلیٰ افسر بننا چاہتے تھے؛ لیکن ان کے سامنے دو طرح کی دقتیں تھیں، ایک تو گھریلو حالات بہت اچھے نہیں تھے، دوسرا کوئی راستہ دکھانے والا بھی نہیں تھا، فیروز نے بتایا کہ ماہانہ ٹیوشن فیس کا انتظام بھی بڑی مشکل سے ہوپاتا تھا، فیروزکا کہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اکثر ٹیچر اپنے اسٹوڈنٹس کے تئیں غیرذمہ دار ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں، نہ انہیں گائڈ کرتے ہیں اور نہ کوئی مفید مشورہ دیتے ہیں، فیروز نے بتایا کہ اس کے ساتھ پڑھنے والے اکثر ساتھیوں کے خواب تو بڑے بڑے ہوا کرتے تھے، ہم میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر؛ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ صرف خواب ہے، حقیقت وہ بھی جانتے تھے کہ دسویں پاس کرنے یا انٹر کا امتحان دینے کے بعد کمانے کے لیے دہلی اور پنجاب کا ہی رخ کرنا ہے۔
میٹرک اور انٹر کے بعد پڑھائی چھوڑ دینے کے اسباب
اس اسٹوری کو لکھنے کے دوران ہم نے درجنوں ایسے نوجوان لڑکوں سے بات کی جن کو آگے پڑھنے کی خواہش تھی؛ لیکن وہ گھریلو حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے دسویں اور بارہویں کے بعد دہلی، ممبئی اور پنجاب کمانے کے لیے چلے گئے۔ محمد اکرم، امیر حسن، مختار، صدام اور اختر حسین جو دہلی، ممبئی اور کیرل میں کام کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہمارے گھر کی حالت اتنی اچھی نہیں تھی کہ ہم اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتے، اس لیے ہمیں پڑھائی چھوڑ کر کمانے کے لیے نکلنا پڑا۔ جب ہم نے یہاں کی غربت کے اسباب پر دانشوران سے بات کی تو قاری مشکور احمد مکھیا مودھو پنچایت اور مرسلین عالم صدر الہادی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی نے بتایا کہ علاقے میں روزگار کے ذرائع کی حد درجہ قلت ہے، ضلع میں انڈسٹریز اور فیکٹریز بالکل نہیں ہیں، دکانداری اور کھیتی باڑی کے علاوہ یہاں روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، جبکہ کھیتی کا حال یہ ہے کہ اکثر دفعہ کسان بھائی سیلاب اور طوفان وغیرہ کی مار کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی لاگت بھی وصول نہیں ہوپاتی۔
تعلیم حاصل کرنے والوں کے اعداد و شمار
دو سال قبل وجود میں آنے والی ایک علاقائی تنظیم مجلس علمائے ملت کشن گنج کے صدر مولانا شمیم ریاض ندوی مسکونہ گیراماری چھترگاچھ بتاتے ہیں کہ کشن گنج ضلع میں پہلے کے مقابلے میں لوگوں میں تعلیمی بیداری بڑھی ہے؛ لیکن غربت اور سرکاری اسکولوں کی خراب حالت کی وجہ سے یہاں کے بچے اور بچیاں اپنی پڑھائی کو جاری نہیں رکھ پاتے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری تنظیم مجلس علمائے ملت نے پوٹھیا بلاک کے 15/ پنچایتوں کا سروے کیا، سروے کے مطابق پوٹھیا بلاک کے پنچایتوں میں گریجویٹ کرچکے طلبہ و طالبات کی تعداد پانچ سے سات فیصد ہے، جبکہ انٹر کرنے والوں کی تعداد دس سے پندرہ فیصداورہائی اسکول پاس کرنے والوں کی تعداد بارہ سے اٹھارہ فیصدہے۔ مجلس علمائے ملت کا یہ سروے 21/2020ء کا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پانچ دس سال پہلے کے اعداد و شمار کیا رہے ہوں گے۔یہ سروے پوٹھیا بلاک کا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بلاک کشن گنج کے ساتوں بلاکوں میں ہر اعتبار سے سب سے پیچھے ہے، تاہم دوسرے بلاکوں کی حالت بھی تعلیم کے میدان میں بہت بہتر نہیں ہے، بس اعداد و شمار میں کچھ اضافے کے ساتھ ان سبھی بلاکوں کی حالت بھی اسی جیسی ہے۔
”نیتی آیوگ“ کی ماضی قریب کی ایک رپورٹ میں کشن گنج ضلع کو بہار کا سب سے غریب ضلع قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ضلع میں بی پی ایل (غربت کی سطح سے نیچے) رہنے والے 64.75% لوگ دیکھے گئے ہیں۔ شادمان شیدانی نے ”وائی کے اے“ نامی ایک انگلش پورٹل میں شائع شدہ اپنے آرٹیکل میں ”نیتی آیوگ“کی مذکورہ رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”کشن گنج کے اہم مسائل میں ناخواندگی، بے روزگاری، غذائی قلت، زراعت پر بھاری انحصار شامل ہیں اور سیاسی قیادت کا فقدان اس کی بنیادی وجہ ہے۔“
ندیوں پر پُل نہ ہونے کی وجہ سے پڑھنے جانا مشکل
جب ہم نے لوگوں سے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہ دلا پانے کی وجہ معلوم کی تو ان کی طرف سے مختلف مجبوریاں اور شکایتیں سامنے آئیں: ٹھاکر گنج بلاک کے بھنکردواری سے تعلق رکھنے والے فیضان احمد جو موجودہ ضلع پارشد بھی ہیں انہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں کے بچے پانچویں اور آٹھویں تک تو کسی طرح گاؤں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر لیتے ہیں؛ لیکن آٹھویں اور خاص کر دسویں جماعت کے بعد بچوں کو کشن گنج یا دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، چونکہ یہ بستیاں مہانندا ندی کی دوسری جانب واقع ہیں اور کشن گنج جانے کے لیے ندی پار کرنے کے لیے کشتی کے علاوہ کوئی انتظام نہیں ہے، جبکہ برسات اور سیلاب کے موسم میں کشتی بھی چلنی بند ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ادھر کے رہنے والوں کا ہفتوں تک شہر سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار ہمیں مہانندا ندی کے کھرکھری بھیربھری گھاٹ پر پُل بناکر دے دے تو ہماری بہت سی مشکلات آسان ہوجائیں گی اور بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر جانے کی دقت نہیں ہوگی۔ فیضان احمدنے بتایا کہ یہاں کے بچوں کے لیے دسویں جماعت تک تو سرکاری اسکولوں کا نظم ہے؛ اس سے آگے کی تعلیم کے لیے ندی پارکرکے جانا مشکل ہوتا ہے، انہوں نے بتایا کہ مہانندا ندی پر پل نہ ہونے کی وجہ سے بھولمارا، کھارودہ، برچوندی، جیرن گاچھ، بندر جھولا، مالین گاؤں اور بھوگڈاور سمیت بارہ پنچایتوں کی تقریباً لاکھوں کی آبادی کو جان خطرے میں ڈال کر چھوٹی کشتی سے ندی پار کرنا پڑتا ہے، ادھر کے لوگوں کو ضلع ہیڈکوارٹر پہنچنے کے لیے ساٹھ کلومیٹر گھوم کر جانا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری اسکولوں میں جہاں چار سو، پانچ سو بچوں کا ایڈمیشن ہے، وہاں صرف دو یا تین ٹیچر ہیں، ایسے میں کیا پڑھائی ہوگی۔
لڑکیاں کیوں نہیں پڑھ پاتی ہیں؟
شیخ ٹولہ، چھترگاچھ پنچایت کے وارڈ نمبر 1میں 30/ گھروں پر محیط ایک چھوٹا سا محلہ ہے، اس محلے میں گذشتہ پندرہ سالوں میں 12/ لڑکیاں بہو بن کر آئی ہیں جن میں سے صرف ایک ہی میٹرک اور انٹر پاس ہے، اس کے علاوہ سبھی یا تو بالکل ناخواندہ ہیں یا صرف پانچویں کلاس تک پڑھی ہوئی ہیں، اسی محلے سے تعلق رکھنے والے محمد اسحاق کی اہلیہ فریدہ خاتون بتاتی ہیں کہ ہمارے والدین کو ہماری پڑھائی سے زیادہ ہماری شادی کی فکر تھی، ہم پانچ بہنیں ہیں جن میں صرف دو بہنیں ہی آٹھویں تک پڑھی ہوئی ہیں۔ مختلف سماجی کارکنان سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ کشن گنج کے اکثر علاقوں کا یہی حال ہے کہ پانچ دس سال پہلے جن لڑکیوں کی شادیاں ہوئی ہیں ان میں نوے فیصد سے زیادہ لڑکیاں ناخواندہ ہیں۔ بیلوا پنچایت سے تعلق رکھنے والے محمد ساجد ندوی بتاتے ہیں کہ ضلع کشن گنج میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رجحان پہلے بالکل نہیں تھا، انہیں گھر کا کام کاج سکھاکر شادی کرکے رخصت کردینے کو ہی اصل ذمہ داری سمجھاکرتے تھے؛ لیکن ادھر پانچ چھ برسوں سے لڑکیوں کو پڑھانے کا رجحان پیدا ہوا ہے اور عوام میں بیداری بھی دیکھنے کو ملی ہے؛ لیکن یہ بھی ناکافی ہے، اس لیے کہ اب بھی پچاس فیصد بچیاں اسکول نہیں جاپاتی ہیں اور جو پڑھتی ہیں ان کو بھی دسویں اور بارہویں کے بعد پڑھنے کا موقع نہیں دیاجاتا۔
اسکولوں میں سہولیات کی کمی:
ہم نے کشن گنج سے پانچ کلومیٹر فاصلے پر ٹیوسا گاؤں کے آدی واسی ٹولہ میں واقع ایک پرائمری اسکول کا جائزہ لیا تھا، جہاں تقریباً سوا سو بچوں کا ایڈمیشن ہے؛ جن میں سے ساٹھ فیصد بچے آدی واسی برادری کے ہیں، اس اسکول میں دو ٹیچروں کی بحالی ہے؛ لیکن اسکول کے پاس اپنی کوئی عمارت نہیں ہے، ایک ایسا کمرہ بھی اسکول کا نہیں ہے کہ بارش میں بچے اپنا سر چھپا سکیں۔ ہم نے بچوں سے معلوم کیا کہ آپ لوگوں کو پڑھائی میں کیا کیا دقتیں پیش آتی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ دھوپ لگتی ہے، بیٹھنے کے لیے کچھ نہیں ہے، بارش ہوتی ہے تو بھیگ جاتے ہیں۔
دیگھل بانک بلاک کے سماجی کارکن مفتی اطہر جاوید قاسمی نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ2022ء کے شروع میں بہار سرکار نے زمین کی قلت کی بنا پر 1885/ پرائمری اسکولوں کو مرج یا ٹیگ کردیا تھا، یہ اسکول گذشتہ دس پندرہ برسوں سے کمیونٹی ہالوں یا درختوں کے نیچے تعلیم دے رہے تھے۔ بہار کے لیے سمگر شکشا ابھیان (ایس ایس اے) کے تحت 22/2021ء کے لیے پروجیکٹ اپروول بورڈ (PAB) کے مطابق ریاستی حکومت کو ان تمام اسکولوں کی عمارتوں کی تعمیر کے لیے زمین نہیں ملی اور ان کو موجودہ حالات میں چلانا مشکل ہوگیا تھا، مفتی اطہر جاوید نے کہا کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نئے فیصلے سے بہار کے تعلیمی نظام پر کتنا اور کس حد تک اثر پڑا ہوگا۔ جب ہم نے اس بارے میں وزارت تعلیم کے افسروں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ان پرائمری اسکولوں کو سرے سے بند نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ مرج یا ٹیگ کردیا گیا ہے، جن اسکولوں کے پاس اپنی عمارت نہیں تھی ان کو قریب کے کسی اسکول میں ٹیگ یا شفٹ کردیا گیا ہے یعنی وہ عارضی طور پر اپنی جگہ سے شفٹ ہوئے ہیں، جب اپنی عمارت تیار ہوجائے گی تو اپنی جگہ پر واپسی ہوجائے گی اور جن اسکولوں کے پاس عمارت کے ساتھ ساتھ زمین کی بھی کمی تھی ان کو مرج کردیا گیا ہے، یعنی انہیں قریب کے کسی ادارے میں جوڑ دیا گیا ہے، ان میں پڑھانے والے ٹیچرز اپنے ریٹائرمنٹ تک بحال رہیں گے؛ لیکن ان کے بعد یا ان کے علاوہ مزید بحالیاں نہیں ہوں گی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ زمین نہ ہونے کی بناپر اسکولوں کا مرج کردینا انہیں بند کردینے جیسا ہی ہے۔
دیگھل بانک بلاک کے آٹھ گاچھی پنچایت سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن عبدالماجد نے بتایا کہ کشن گنج میں دو سو سے زیادہ پرائمری اسکول ایسے تھے جن کے پاس اپنی زمین تو تھی؛ لیکن تعمیرات کے نام پر ایک کمرہ تک نہیں تھا، انہیں قریب کے اسکولوں میں شفٹ کردیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ کیا سرکار کو نہیں چاہیے کہ جن پرائمری اسکولوں کے پاس اپنی زمین ہے،لیکن عمارت نہیں ہے، ان کے لیے عمارت کا بندوبست کرے؟
جائزے کے مطابق اسکولوں میں ٹیچرزکی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، ضلع بھر کے اکثر سرکاری اسکولوں کے بارے میں اساتذہ کی کمی کا شکوہ عام رہتا ہے، ہم نے جب پوٹھیا بلاک کے چھترگاچھ، رائے پور، کولتھا، پہاڑ کٹہ اور قصبہ کلیاگنج سمیت مختلف پنچایتوں کے اسکولوں کا جائزہ لیا تو پایا کہ داخلہ لینے والے طلبہ کی تعدادکافی ہے جبکہ ٹیچرز ناکافی ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسکول ٹیچرز نے بتایا کہ سرکار بحالیوں کو رک کر رکھتی ہے، اگر وقت پر تمام خالی جگہوں پر بحالیاں کردی جائیں تو بچوں کی تعلیم میں بہتری کا امکان ہے۔
کوچادھامن بلاک کے عوامی نمائندہ قاری مشکور احمد نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سیمانچل اور خاص طور پر کشن گنج ضلع کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کے لیے جہاں ایک طرف یہاں کے دانشوروں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں کی صحیح رہنمائی کریں، وہیں سرکار کو بھی اس طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے، سرکار اگر یہاں کے کسانوں کو کاشت میں سبسڈی دے، روزگار کے اسباب پیدا کرے اور یہاں کے سرکاری اسکولوں پر خاص توجہ دے تو یہ ضلع بہت جلد تعلیم و ترقی میں پیش رو ثابت ہوسکتا ہے۔
پواخالی پنچایت کے محمد اسجد راہی نے بتایا کہ یہاں کے بچوں کے میٹرک کے بعد 12ویں یا گریجویشن میں داخلہ نہیں لے پانے کی کئی وجوہات ہیں جیسے کہ تعلیمی بیداری کی کمی اور گارجین کی عدم توجہی، معاشرے کا بہتر تعلیمی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا اسی طرح کم عمر کی شادیاں، گھروں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا مزاج نہ ہونا، غربت کا ہونا وغیرہ۔
ایڈمشن اسکول میں اور پڑھائی ٹیوشن سینٹر سے کیوں؟
چھترگاچھ پنچایت کے گیراماری گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد صدام، اکرام الحق، محمد توقیر اور رئیس احمد نے بتایا کہ میٹرک یا انٹر کے لیے بچے اسکولوں اور کالجز میں داخلہ تو لیتے ہیں؛ لیکن پڑھائی کوچنگ سینٹر وں سے کرتے ہیں؛ انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ سرکاری تعلیم گاہوں میں موجودہ تعلیمی نظام کافی خستہ ہے، گارجین حضرات کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ بچے گر ان اسکول و کالجز کے سہارے رہیں گے تو ان کا مستقبل خراب ہو جائے گا، اس لیے مجبوراً بچے دوسری جانب رخ کرتے ہیں۔ پوٹھیا بلاک کے ایک مڈل اسکول کے ٹیچر نوبحال شدہ ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے مڈل اسکول میں اکثر ٹیچرز 11/ سے 12/ بجے تک حاضر ہوتے ہیں اور چھٹی سے پہلے اپنی حاضری درج کرکے چلے جاتے ہیں؛ انہوں نے بتایا کہ یہاں کے دوسرے ٹیچرز کلاس میں جاکر پڑھانے میں بھی دلچسپی نہیں لیتے؛ انہوں نے بتایا کہ یہاں ہر سرکاری ٹیچر کا اپنا ذاتی کاروبار بھی ہے، کسی نے کرانے کی دکان کر رکھی ہے تو کسی نے اپنا الگ سے کوچنگ سینٹر کھول رکھا ہے، تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ اسکول کے وقت میں بھی اپنے کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور اسکول صرف خانہ پری کے لیے آتے ہیں۔
کشن گنج کی تعلیمی پسماندگی اور اسکولوں کے خستہ حال نظام پر گفتگو کرنے کے لیے جب ہم نے ڈی ای او (ضلع تعلیمی افسر) سے رابطہ کیا اور اس سلسلے میں ملاقات کے لیے وقت طلب کیا تو اکثر دفعہ ان کا فون بند ملا، کئی بار کی کوششوں کے بعد گفتگو ہوئی تو انہوں نے کسی بھی طرح کی جانکاری دینے سے انکار کرتے ہوئے فون کاٹ دیا۔
سرکاری اسکولوں کی خراب حالت کا ذمہ دار کون؟
دیگھل بانک بلاک کے آٹھ گاچھی پنچایت سے تعلق رکھنے والے اسکول ٹیچر ماسٹر ظفر صادق ندوی نے بتایا کہ سرکاری اسکولوں کو بہت ہی اسپانسرڈ طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے، پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے اس بات کی غلط تشہیر کی گئی ہے کہ سرکاری اسکولوں سے بہتر پرائیویٹ اسکول ہوتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں بچی ہے۔رائٹ ٹو ایجوکیشن(آر ٹی ای) کو نافذ ہوئے 13 سال پورے ہو چکے ہیں لیکن موجودہ صورتِ حال میں 90 فیصدی سے زیادہ اسکول آر ٹی ای کے معیارات پر کھرے نہیں اترتے ہیں۔ اس دوران سرکاری اسکولوں کی حالت اور امیج دونوں خراب ہوئی ہے۔اس کے برعکس پرائیویٹ ادارے لگاتار پھلے پھولے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قانون ہونے کے باوجود حکومتیں اس کی ذمہ داری اٹھا پانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اب وہ اسکولوں کو ٹھیک کرنے کی اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کو بھی بند کرنے یا ضم کرنے جیسی تدبیروں پر آگے بڑھ رہی ہیں۔دراصل سرکاری اسکول فیل نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ ان کو چلانے والی حکومتوں اور ان کے سسٹم کی ناکامی ہے۔
٭ یہ رپورٹ نیشنل فاؤنڈیشن فار انڈیا (این ایف آئی) کی آزاد صحافیوں کے لئے فیلوشپ پروگرام کے تحت تیار کی گئی ہے