القاسمی وقار احمد
علامہ شبلی نعمانی (1857-1914) دقیق النظر عالم، باصلاحیت مصنف، بے مثال مودب، اور تجربہ کار مفکر تھے۔ علمی وادبی اور فنی کمالات کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کی اصلاح وترقی اور بلندی وسرفرازی کے لیے فکرمند بھی تھے؛ ان کی علمی جد وجہد اور قومی خدمات اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ وہ مسلمانوں کی تعلیم کو حد سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے؛ کیوں کہ تعلیم ہر قوم وملت کی عظمت ورفعت کا بہترین ذریعہ ہے؛ محض تعلیم ہی ایسی شے ہے، جس سے لوگوں کے عادات وخصائل مرتب ہوتے ہیں اور انہیں ترقی کی راہیں فراہم ہوتی ہیں۔
ایک عہد گزر چکا کہ جس میں مسلمان اس میدان کے شہسوار اور بادشاہ کی سی زندگی گزار رہے تھے؛ بے سروسامانی کے عالم میں، تعداد کی قلت اور اسباب و وسائل سے محرومی کے باوجود انہوں نے دنیا کو اپنے قدموں کے زیرنگیں کرلیا تھا۔
علامہ شبلی کو اپنے عہد کے مسلمانوں کی تعلیم سے بے رغبتی دیکھ کر افسوس تھا؛ انہوں نے اپنے مضمون: ‘مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم’ میں ان کے عہد زریں کے کارناموں کو یاد دلایا کہ انہوں نے اشاعت علم کا کیسا عظیم کارنامہ انجام دیا، کیا کیا علوم ایجاد کیے اور ان کو ترقی دے کر کہاں تک پہنچایا۔
علامہ شبلی کی تعلیم چوں کہ قدیم طرز کے مدارس اسلامیہ میں ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے عہد کے ماہرین علم وفن سے کسب فیض کیا تھا۔ مزید برآں جدید تعلیم یافتہ افراد سے بھی متعلق تھے؛ اس لیے جدید تعلیمی افکار ونظریات ان کے لیے اجنبی اور نامانوس نہیں تھے۔مسلمانوں کی قدیم تعلیمی تاریخ، درس ونصاب کی اصلاح وتغیرات کا مطالعہ بنظر غائر کیا تھا۔ جدید تعلیمی نظریات اور تعلیم کے نئے رجحانات ومیلانات سے بھی واقف ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ مختلف تعلیمی اداروں کی زیارت کرنے کی وجہ سے قدیم وجدید تعلیم کے نظام کی خوبیوں وخامیوں سے بخوبی آگاہ ہوگئے تھے اور ان کی تلافی کی فکر کرتے تھے۔
ان کے نزدیک قدیم طرز تعلیم پسندیدہ تھا اور اسی کو عربی مدارس میں رواج دینا چاہتے تھے، ان کی فکر تھی کہ طلبہ میں جدت واجتہاد اور ایجاد کا مادہ پیدا ہو؛ مگر وہ جدید تعلیم کے خلاف بھی نہیں تھے؛ لیکن جو لوگ قدیم تعلیم کو سرے سے ناقابل اعتنا سمجھتے تھے، وہ ان کی رائے سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے تعلیم قدیم وجدید کے عنوان سے ایک مقالہ مرتب کیا تھا، جس میں جدید تعلیم یافتہ گروہ، جو قدیم تعلیم کی ضرورت کو تسلیم نہیں کرتا تھا، اس کی تردید کی ہے، جس کا ماحصل ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کا انحصار مذہب پر ہے، اس کے بغیر ان کی قومیت قائم نہیں رہے گی؛ جب مذہب کی ضرورت لابد ہے، تو: مذہبی تعلیم قدیم تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ انگریزی کے ساتھ مذہبی تعلیم بہ قدر ضرورت ممکن ہے، تو: وہ فرماتے ہیں کہ نہ اس قدر تعلیم سے قرآن وحدیث کی حفاظت ہوسکتی ہے اور نہ اس درجہ تعلیم یافتہ اسلامی مشکل مسائل کی تشریح کرسکتے ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب اسلام اور تاریخ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے اتنی تعلیم کافی نہیں؛ بلکہ گہرائی علم درکار ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں مشرقی تعلیم کی ایک شاخ قائم ہوئی اور الہ آباد یونیورسٹی بننے کے وقت مشرقی تعلیم کی شاخ کھولے جانے کا امکان تھا؛ مگر اس کی مخالفت اس بنا پر کی جانے لگی کہ اس سے مسلمانوں کے لیے مغربی تعلیم کا دروازہ مسدود ہوجائے گا۔ ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے لکھا کہ سرسید مرحوم نے بھی کئی پرزور آرٹیکل لکھے اور واضح کیا کہ مشرقی تعلیم مغربی تعلیم کی ترقی کو روک دے گی، جو ملک کے لیے نہایت ضرر رساں ہے۔
علامہ شبلی نے کہا: اگر ہم کو یہ یقین ہو کہ مشرقی تعلیم سے مغربی تعلیم میں ذرہ برابر بھی کمی ہوگی، تو: اس تجویز سے علانیہ نفرت کا اظہار ہمارا فرض ہے۔ اپنے مدعا کے اثبات کے لیے وہ ترقی یافتہ قوموں کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یوروپ سب کچھ کر رہا ہے؛ تاہم ان میں ایک وسیع گروہ موجود ہے، جو اپنی مذہبی تعلیم اور مذہبی لٹریچر کا محافظ ہے۔ آریہ انگریزی تعلیم میں نہایت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور گروکل بھی قائم کر رہے ہیں۔ کیا اس ادارے نے آریوں میں انگریزی تعلیم کو کم کردیا ہے؟ (1)
علامہ قدیم تعلیم کی اہمیت وضرورت کے حامی ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کے بھی قائل تھے کہ تعلیم قدیم کے ساتھ جدید خیالات سے واقف ہونے اور انگریزی زبان و انگریزی علوم پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یوروپ کے مصنفین مذہب پر جو حملہ بول رہے ہیں، اگر اس سے واقفیت نہ ہوئی، تو: انگریزی خواں مسلمانوں میں ان خیالات کی اشاعت رک نہیں سکتی؛ ان کا جواب دینا علماء کا فرض ہے۔ علمائے سلف نے بھی تو یونانیوں کا فلسفہ سیکھ کر ان کے اعتراضات کا جواب دیا تھا۔ (2)
کیوں کہ جدید تعلیم کے فروغ اور دینی تعلیم سے بے اعتنائی کے نتیجہ میں ارتداد کا فتنہ سر ابھارنے لگا تھا اور اسلامی عقائد، اسلامی احکام اور اسلامی تاریخ سے ناواقفیت بہت بڑھتی جارہی تھی؛ جس کے باعث گوناگوں خطرات نظر آرہے تھے؛ کیوں کہ اس میں نہ عقائد اسلام کے تحفظ کا بند وبست تھا اور نہ ہی اس میں تاریخ اسلام کا کوئی معتد بہ حصہ شامل تھا۔ اس سے ہماری یہ منشاء نہیں کہ اس تعلیم کو روکا جائے؛ بلکہ محض یہ کہ انگریزی تعلیم کے ساتھ ہمیں مذہب کی حفاظت پر بھی اپنی تمام قوت صرف کردینی چاہیے۔ اس کی تدبیر اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے؟
علامہ قدیم تعلیم کو پسند تو کرتے ہیں؛ مگر طرز تعلیم کے متعلق ان کا نظریہ بھی یہی ہے کہ املا یعنی: لیکچر کے طرز پر تعلیم ہو اور تعلیم سے مقصود یہ ہو کہ نفس فن حاصل کیا جائے۔ متعدد فنون کی تحصیل میں الاقدم فالاقدم کا خیال ضروری ہے۔ نصاب تعلیم کے بارے میں وہ صرف ہندوستان میں رائج نصاب ہی نہیں؛ بلکہ بعض اسلامی ممالک کے نصاب کو بھی ناقص قرار دیتے تھے۔ گرچہ وہ اعلانیہ ملا نظام الدین کے درس نظامی کو قدیم نصاب پر ترجیح دیتے تھے؛ مگر اپنے تعلیمی تجربات اور مسلمانوں کی علمی تاریخ کی ابتداء وارتقاء اور تنزل سے واقفیت کے نتیجے میں اس عہد کے مدارس کے نصاب میں اصلاح وترمیم کے حامی تھے؛ بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مشرقی علوم کے شعبوں کے نصاب میں بھی رد وبدل کو ضروری سمجھتے تھے اور جن مدارس ویونیورسیٹیوں میں ان کو موقع ملا، وقت کے تقاضوں کے مطابق انہوں نے اصلاح وتبدیلی کی۔ ندوہ کے اجلاس میں فرمایا کہ:
“اسلام میں آغاز تعلیم سے طریقہ تعلیم کیا رہا، نصاب کیوں بدلتا رہا، علوم معقولات کا رواج کیسے ہوا، درس نظامیہ کی بنیاد کیوں کر پڑی اور موجودہ نصاب میں کیا کیا نقائص ہیں”؟ (3)
علامہ شبلی جو نصاب چاہتے تھے، مجموعی طور پر اس میں عربی ادب، فن بلاغت اور تنقید کے علاوہ علوم اسلامیہ: تفسیر، علوم قرآن، عقائد وفلسفہ اور اسرار شریعت سے متعلق بعض نئی کتابیں تھیں؛ جدید علوم میں انگریزی اور جدید فلسفہ وسائنس کی کتابیں۔ وہ جدید تعلیم کی تحصیل مسلمانوں کے لیے ضروری تو تصور کرتے تھے؛ مگر اس میں ایسا انہماک پسند نہیں کرتے تھے، جو ان کو دینی تعلیم سے غافل اور اپنی تاریخ وتہذیب سے بے گانہ کردے؛ اس لیے فرماتے ہیں کہ اس کے لیے صرف ایک مختصر اور جامع ومانع سلسلہ کتب دینیات کی ضرورت ہے، جس میں بسلسلہ اسکول سے کالج کے کلاسوں تک کے قابل تین طرح کی کتابیں ہوں: عقائد، فقہ، تاریخ اسلام۔
اسکول کلاسوں میں صرف فقہ ، تاریخ اسلام اور سادہ عقائد کی تعلیم ہو۔ کالج کے کلاسوں میں امام غزالی، ابن رشد اور شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ کی چیدہ تصنیفات خود عربی زبان میں پڑھائی جائیں اور سب کی ضخامت 100-200 سے زیادہ نہ ہو۔ (4) مزید برآں ان کی رائے یہ بھی تھی کہ دینیات کے نتائج امتحانات کو انگریزی تعلیم کے نتائج کی طرح لازمی قرار دیا جائے اور دو چار طلبہ کو گراں بہا وظائف دے کر ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلی درجہ کی تعلیم دی جائے۔(5)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ شبلی دین ودنیا کی خلیج پاٹنا اور قدیم وجدید کا ڈانڈا ملانا چاہتے تھے؛ کیوں کہ ان کے نزدیک موجودہ دور میں نہ محض قدیم تعلیم سے مسلمانوں کے مسائل اور ضرورتوں کا حل ممکن ہے اور نہ صرف تعلیم جدید ہی ان کے دکھ اور درد کی دوا ہے؛ دونوں کے مجموعے اور آمیزش ہی میں ان کے مسائل اور پریشانیوں کا علاج ہے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا:
“ہم نے بار بار کہا ہے اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لیے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کافی ہے، نہ قدیم عربی مدرسوں کی؛ ہمارے درد کا علاج ایک معجون مرکب ہے، جس کا ایک جز مشرقی اور دوسرا مغربی ہے”۔ (6)
مگر افسوس کہ علامہ کی یہ پکار مینا ہی میں گونج رہی ہے۔ ضرورت ہے اس پر غور کرنے کی، بالخصوص انہیں، جو ان کی فکروں کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری لے بیٹھے ہیں۔
حوالہ:____________________________
(1) مقالات شبلی، ج 3، ص: 146-147۔
(2) ایضا، ج 3 ص: 142۔
(3) حیات شبلی، ص: 304۔
(4) مقالات شبلی، ج 3، ص: 141۔
(5) ایضا۔
(6) ایضا، ج 3 ، ص: 157۔
alqasmiwaqar@gmail.com