نئی دہلی، (ملت ٹائمز)
سکھوں پر بنائے گئے جوک کے معاملے پر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالت لوگوں کے لیے اخلاقی گائڈلائن جاری نہیں کر سکتی ، یہ بے حد مشکل ہے کہ کسی مخصوص کمیونٹی کے لیے گائڈلائن بنائی جائے۔معاملے کی اگلی سماعت 27؍مارچ کو مقرر کی گئی ہے۔عدالت عظمی نے کہا کہ اگر کسی کو جوکس سے اعتراض ہے، تو وہ قانون کے مطابق معاملہ درج کرا سکتا ہے۔اگر آج عدالت کسی خاص مذہب یا ذات کے لیے کوئی گائڈ لائن جاری کرتا ہے تو کل کوئی دوسری قوم یا مذہب کے لوگ گائڈ لائن بنانے کے مطالبہ کو لے کر عدالت آ جائیں گے،ہنسی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے،کوئی ہنستا ہے، کوئی نہیں ہنستا۔عدالت نے کہا ہے کہ اگر اسکول میں کسی بچے کو کوئی شکایت ہے یا کوئی پریشانی ہے تو پرنسپل اور ٹیچر اس کا حل نکالیں گے، ایسے میں کوئی عمومی گائڈلائن نہیں بنائی جا سکتی۔سپریم کورٹ نے فوج میں رجمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوج کی رجمنٹس سے اس معاملے کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ، جب رات میں ہم سکون سے سوتے ہیں ،تو سرحد پر جوان کم از کم درجہ حرارت میں بیدارہوکر حفاظت کرتے ہیں۔دراصل، سکھوں کو لے کر بنائے جانے والے جوکس کو بند کرنے کے مطالبہ کو لے کر دائر درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔پچھلی سماعت میں عدالت نے کہا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی گائڈ لائن نہیں ہونی چاہیے ، لیکن سوال یہ ہے کہ ان گائڈ لائن کو لاگو کیسے کیا جائے گا؟معاملے میں اپنی دلیلیں رکھنے والے وکلاء اور سکھ تنظیموں سے اس سلسلے میں تجاویز طلب کرتے ہوئے بنچ نے کہاکہ ہم نے اس طرح کے جوکس اور مواد کے پیشہ ورانہ پھیلاؤ کو روکنے کی ہدایت جاری کر سکتے ہیں، لیکن ذاتی طور پر اسے روکنا آسان نہیں ہوگا۔ایک خاتون وکیل کی جانب سے دائر مفاد عامہ کی عرضی میں سکھوں کو لے کر بنائے جانے والے جوکس پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔