نئی دہلی(ملت ٹائمز؍پریس ریلیز)
گزشتہ سال عین عیدالاضحی کے موقع پر بجنور کے پیڈا گاؤں میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کے ملزمین ایشوریا چودھری عرف موسم ایڈوکیٹ کی ضمانت عرضی کو الہ آباد ہائی کورٹ نے خارج کردیا ۔اس فساد میں منصوبہ بند طریقے سے چند فرقہ پرست عناصر نے اندھا دھند گولی چلاکر مسلم اقلیت کے تین لوگوں کوبے رحمی سے قتل کردیا تھا ، اس سانحہ میں اقلیت سے ہی تعلق رکھنے والے نصف درجن افراد زخمی بھی ہوئے تھے جس میں ۶ ؍سال سے ۸۲؍سال تک کے بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔
جمعےۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر متاثرین کے لیے مقدمہ لڑنے والے وکیل ایس نارائن سنگھ و ددیگر سرکاری وکلاء کی بحث و مباحثہ کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے ۔یاد رہے کہ اس سانحہ کے کل۲۹؍ملزمین بجنور جیل میں قید ہیں، جن کا مقدمہ ضلع عدالت میں چل رہا ہے ۔اس مقدمے میں متاثرین کی جانب سے جمعےۃ علماء ہند ایک معاون کا کردار ادا کررہی ہے ، ضلع عدالت میں بھی ملزم ایشوریا چودھری کی ضمانت کی مخالفت ہو ئی تھی ، جس کے بعد عدالت نے اسے رد کردیا تھا ، پھر ملزم کی جانب سے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی۔یہاں بھی ملزم کو مایوسی ہاتھ لگی ہے ۔ملزم کے وکیل نے عدالت میں دعوی کیا کہ جس دن یہ واقعہ پیش آیا ، اس دن ان کا موکل پیڈا گاؤں میں موجود نہیں تھا ، نیز شروع میں اس کے نام پر ایف آئی آر بھی درج نہیں ہے ۔مگر متاثرین کے وکلا ء نے ویڈیو ریکارڈنگ اور دیگر ثبوتوں سے یہ ثابت کیا کہ یہ ملزم نہ صرف یہ کہ موقع پر موجود تھے بلکہ فساد اکسانے میں پیش پیش تھا۔طرفین کے دلائل پر غور کرنے کے بعد فاضل جج جسٹس سنہا نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ جس طرح سے فرقہ وارانہ تنازع کھڑا کرنے کے لیے بے خوف ہو کر دن دہارے یہ جرم انجام دیاگیا ، اس صورت میں ضمانت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اسی لیے عدالت اسے مسترد کرتی ہے۔
واضح ہو کہ مولانا محمود مدنی نے حادثے کے بعد فوری طور سے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا تھا اور وہاں کی مسلم اقلیت کے صبر و تحمل کی ستائش کی تھی کہ اس کی وجہ سے بڑا حادثہ ٹل گیا ۔ تاہم مولانا مدنی اس بات پر کافی سنجیدہ ہیں کہ شہداء اور ان کے رشتہ داروں کو انصاف ملنا چاہیے، اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ جمعےۃ ،ریاست کے ساتھ ایک معاون کے طور پر مقدمہ لڑے گی ۔جمعےۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے عدالت کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے او رامید ظاہر کی ہے کہ متاثرین کو انصاف ملے گا ۔انھوں نے کہا کہ وہ مجرموں کو سزا دلانا چاہتے ہیں ، کیو ں کہ یہی ایک طریقہ ہے جو جرائم کے حوصلے کو توڑتا ہے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ کسی بے قصور انسان کو سزا سے بچانے سے زیا دہ ضروری ہے کہ قصوروارکو سزاملے ، کیوں کہ پہلی صورت میں فائدہ ایک ذات تک محدود رہتا ہے جب کہ دوسری صورت میں انسانی وسماجی عظمت کو مجموعی طور پرجرم سے تحفظ حاصل ہو تا ہے ۔