نئی دہلی ۔ ملت ٹائمز( ایجنسیاں) اختر مسلمی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے ، انہوں نے شعوری طور پر ادب کو زندگی کا ترجمان بنایا ، ان کے کلام کا ایک خاص عنصر سوز و گدازہے اور انہوں نے کلاسک غزل کو نئے رنگ و روپ سے آراستہ کیا، انہیں بلا شبہ غزل کا شہزادہ کہا جاسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہارمقررین نے آج یہاں “اختر مسلمی: فن اور شخصیت ” پر منعقد قومی سمینارمیں کیا۔ اردو اکادمی دہلی کے سابق وائس چئرمین پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت اختر مسلمی حسن و عشق کے شاعر تھے اور تغزل کا شستہ مذاق رکھتے تھے ، ان کی غزلوں میں عصر حاضر کی ترجمانی بھی ملتی ہے ، ان کے دل میں وطن سے محبت بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی روایت پسندی کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں جدیدیت بھی پائی جاتی ہے۔ ان کا کلام فکری و فنی دونوں اعتبار سے اس لائق ہے کہ اس کو بار بار پڑھا جائے۔انیس احمد اعظمی نے کہا کہ اختر مسلمی شہزادہ غزل تھے۔ ان کی سخن فہمی کا قرض پوری اردو دنیا پر ہے جسے ہم نے ابھی ادا نہیں کیا ہے۔ یہ سمینار ایک شروعات ہے ، قبل ازیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے سمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں ا عظم گڑھ کی خدمات کافی اہم ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں کئی عظیم ادبی شخصیات پیدا ہوئیں اور اس تعلق سے یہ بڑا ہی زر خیز علاقہ ہے۔ یہاں کے معروف شبلی نیشنل کالج کو منی علی گڑھ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعظم گڑھ ایک علمی سرزمین ہے جس نے خاص طور پر ادب میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور علی گڑھ کی طرح اس کی بھی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ اس سمینار کا انعقاد انجمن طلبہ قدیم مدرستہ الاصلاح دہلی یونٹ نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے کیا۔پروفیسر اشتیاق احمد ظلی ، ڈائریکٹر شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہمارے تہذیبی سرمایہ میں ایسے لوگوں کا بھی بڑا کردار ہے جن کو دنیا نہیں جانتی ،ایسے لوگوں کا بھی اعتراف کیا جانا چاہئے۔ خیال رہے کہ اختر مسلمی کا اصل نام عبید اللہ اور آبائی وطن پھریہا(اعظم گڑھ) تھا ۔ وہ یکم جون 1928کو اعظم گڑھ کے مردم خیز گاوں مسلم پٹی میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے خود کو مسلمی لکھتے تھے۔ابتدائی تعلیم والد حافظ عطاء اللہ سے حاصل کی۔ بعد میں مدرستہ الاصلاح میں داخل ہوئے جہاں گیارہ سال کی عمر میں حفظ کی تکمیل کی اور اردو عربی فارسی زبانوں پر مہارت پیدا کی۔ انہوں نے الہ آباد میں اپنا پہلا کل ہند مشاعرہ پڑھا جس کی صدار ت اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لا ل نہرو کررہے تھے۔ان کے دو شعر ی مجموعے موج نسیم اور موج صبا ان کی حیات میں ہی شائع ہوچکے تھے جب کہ تیسرا مجموعہ جام و سنداں کلیات اختر مسلمی میں شائع کیا گیا ہے۔ مقررین نے کہا کہ اختر مسلمی نے متعدد اشاعر میں سماجی اقتصادی اور معاشی مسائل کو اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری اسے اپنا ذاتی تجربہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ان کے کلام میں بلند آہنگی، مزاج کی پاکیزگی، اسلوب کی شگفتگی ، لہجے کی نرمی اور شعور و ادراک کی جلوہ گری نظر آتی ہے جس سے دل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مدرستہ الاصلاح کا ترانہ اختر مسلمی نے ہی لکھا ہے۔اس موقع پر پروفیسر ابو سفیان اصلاحی ،ڈاکٹر شفقت اعظمی ، مولانا عمیر صدیق ندوی ، پروفیسر احمد محفوظ،ڈاکٹر محمد آصف زہری، ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی ، ڈاکٹر عرفات ظفر ، دانش فرا ہی،ڈاکٹر شازیہ عمیر،ڈاکٹر جویریہ نیرہ وغیرہ نے مقالے پیش کیے۔ اس موقع پر کلیات اختر مسلمی ، انجمن کی سالانہ میگزین نقش اور الطاف احمد اعظمی کا شعری مجموعہ چراغ شب گزیدہ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ سمینار میں تین اجلاس میں 12 مقالے پیش کیے گئے جبکہ اس کے لیے مقالہ لکھنے والوں کی تعداد 35 تک پہونچتی ہے۔ دہلی اور ملک کی مختلف یونیورسٹیوں ،اداروں اور شہروں سے اہل علم حضرات اور ادبا ء نے اس سیمینار میں شرکت کی۔ اجلاس کی نظامت اکرام الحق ، عمیر سفیان اصلاحی و اسجد اصلاحی نے کی۔