مغرب کی نقالی و تقليد کے مفید و مضر آثار (2)

مولانا انعام الحق قاسمی

مغربی ترقی یافتہ تہذیب اور دوسری جاہلی تہذیبوں سے استفادہ کی کیا صورتیں ہیں؟

اس میں شک نہیں ہے کہ ترقی کا ڈیزائن (امت مسلمہ) یعنی ہمارے نزدیک وہ نہیں ہے جو یورپیوں کے نزدیک ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم طبعی حالات کے تحت ترقی کریں اور اپنے وسائل پر بھروسہ کریں۔ اور خارجی حالات سے صرف خاص حالات میں استفادہ کریں۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ ہم کومغرب سے آنے والی ہر چیز کو مخالفت کا الزام دیا جاتا ہے۔

عثمانی اصلاحی تحریک کے بارے میں سلطان عبد الحمید اول کی یہ گفتگو حقیقت کے بہت قریب ہے۔ ان کی یہ گفتگو مبنی بر انصاف ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب سے استفادہ کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ہرشک و شبہ سے بالاترہے۔ انہوں نے قارئین پر یہ بات واضح کردی کہ مغربی تہذیب اور دوسری جاہلی تہذیبوں کے بارے میں اسلام کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ ان تہذیبوں سے استفادہ کی صورت کیا ہے؟

مغرب کی کافر و مشرک تہذیب اور دوسری غیر اسلامی تہذیبوں سے استفادہ کی تین صورتیں ہیں:

(1) ایک یہ کہ ان کی مصنوعات،صنعتی علوم، علمی تحقیقات، تجرباتی علوم، عسکری اور طبعی معارف جسے ریاضی، کیمسٹری، فزکس اور انجینئرنگ ، بایولوجی اور فلکیات سے استفادہ کریں۔ لیکن ان سے استفادہ کیلئے بھی ضروری ہے کہ جاہلی افکار و نظریات اور مفروضوں سے انہیں پاک کرکے پوری تحقیق کے بعد قبول کیاجائے اور انہیں اسلام کے صاف ستھرے قالب میں ڈھال لیا جائے۔ ان میں بعض علوم تو ایسے ہیں جو واجب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا حصول اور ان کو مغرب سے سیکھنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ ان سے مراد وہ علوم و فنون جن کی آج امت مسلمہ کو سخت ضرورت ہے۔ اوربعض ذمہ داریاں صرف اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہیں کہ ان علوم و فنون میں مسلمان کامل مہارت حاصل کرلیں۔ جیسے اسلحہ سازی کا میدان، اور عسکری نظم و نسق. ہم ان شعبوں میں مغربی علوم و فنون سے استفادہ کیے بغیر دعوت و جہاد کا فریضہ ادا نہیں کرسکتے۔ وہ تمام علوم جو مباح ہیں ضروری ہے کہ مسلمان ان کو حاصل کریں اور مسلمان اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ ان علوم میں مہارت حاصل کرکے دنیا کی امامت کا فریضہ سر انجام دیں۔

ایک اسلامی فلاحی نظام یا معاشرہ کا قیام صرف اسی صورت میں عمل میں آسکتاہے کہ مباح وسائل پوری تحقیق اور دانشمندی کے ساتھ قبول کیے جائیں۔ اگر وسائل ایسے ہوں جن کی اجازت اسلام نہیں دیتا اورجو بہت کم ہیں تو انہیں ترک کرنا اولی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ اسباب کو بروئے کار لائیں۔ ان سے استفادہ کریں ان میں انحصار کرنے کی صلاحیت حاصل کریں اور کفار و مشرکین کی دست نگری سے بچنے کی کوشش کریں۔

[۲] عبادات، عقائد، دینی تعلیمات، نظریات و افکار، فلسفیانہ آراء جیسے کائنات، زندگی کے اصول وغیرہ جن کا تعلق انسان سے ہے۔ اوروے ہیں جن کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ ان میں تقلید قطعاً جائز نہیں ہے۔ ایسے امور میں کافروں سے استفادہ کرنا باطل ہے اور کفر کے زمرے میں آتاہے۔ اگر تقلید کرنے والا ایسے نظریات کی صحت کا اعتقاد رکھتاہے اور یہ سب کچھ وہ ناسمجھی میں کررہاہے تو بھی کم از کم حرام کا مرتکب ہورہاہے۔

[۳] رہی اخلاق و کردار، آداب ومعاشرت، فکروفلسفہ اور فنون میں مغرب کی تقلید تو ایسے امور یا تو اسلام کے منافی ہونگے یا ان کے بارے میں اسلام کا کوئی صریح حکم موجود نہیں ہوگا۔ اگر ایسے امور ہیں جو اسلامی اصول و قوانین سے متعارض ہیں یا اندیشہ ہے کہ ان کو اپنانے سے کفار کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی ، جس سے شارع علیہ السلام نے روکاہے تو یہ چیز حرام ہے۔ اور اگر اسلام اس کے بارے میں خاموش ہے تو وہ چیز مباح ہے- اگر اس میں کوئی فائدہ ہے تو اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں – واللہ اعلم.

مسلمان مفکرین اور دانشوروں نے تقلید اور مغربی تہذیب سے استفادہ کی کیفیت کے بارے میں جو گفتگو کی ہے ذیل میں ہم چند علماء کی تصریحات پیش کرتے ہیں۔

مصطفی صادق رافعی کہتے ہیں:”میں سمجھتاہوں کہ عرب ممالک میں رہنے والوں کو مغرب کی تمدنی عناصر کی اندھی تقلید نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس سے استفادہ پوری تحقیق اور سوچ سمجھ کر کرنا چاہیئے۔ اور اخذ و قبول سے پہلے ہر چیز کی تحقیق کا حق ادا کرنا چاہیئے۔ تقلید طبعاً پست طبقات میں ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم اس قوم سے کچھ بھی نہ لیں۔ حسن تمدن اور خواہشات نفس ، فنون خیال اور فحاشی و عریانی کو قبول کرنے میں بڑا فرق ہے”۔

حسن البنا کہتے ہیں: “سچ تو یہ ہے کہ ہم اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہم اسلامی تعلیمات اور دینی اصول و ضوابط سے دور ہوگئے ہیں۔ اسلام اس بات سے ہرگز نہیں روکتاکہ ہم نفع بخش چیزوں کو قبول کریں اور حکمت و دانائی جہاں سے ملے ہم اسے لے لیں لیکن اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم کافر جو دین سے کچھ تعلق نہیں رکھتے کے رنگ میں رنگ جائیں اور اپنے عقائد ، اپنے فرائض ، حدود ، احکام چھوڑ کر اس قوم کے پیچھے چل دیں جنہیں دنیا نے آزمائش میں ڈال رکھاہے اور جنہیں شیطانوں نے گمراہی کے راستے پر ڈال دیا ہے”۔

ابوالاعلی مودودی کہتے ہیں:”اگر کوئی ایسی چیز ہے جو مطلوب ہے اور اس لائق ہے کہ ایک امت اسے دوسری امتوں سے لے تو وہ ہے ان کی علمی تحقیقات کے نتائج، فکری قوا کے ثمرات، ایجادات کی صلاحیت اور علمی مناہج جن کی بدولت وہ دنیا میں ترقی کی اعلی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی قوم ہو اگر اس کی تاریخ، اس کے نظم ِمعاشرت یا اس کے اخلاق میں کوئی نفع بخش درس موجود ہے تو نہ صرف یہ ضروری ہے کہ ہم اسے اس قوم سے قبول کریں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس قوم کی ترقی اور خوشحالی کے اسباب کو پوری دقت اور تفحص کے ساتھ جائزہ لیں اور جو چیز ہماری ضرورت اور ہمارے حالات کے مناسب ہو اسے لے لیں لیکن جب ہم ان بنیادی باتوں سے اعراض کرلیتے ہیں اور مغربی اقوام سے ان کا لباس، معیشت کے طریقے، کھانے پینے کے آلات لینا شروع کردیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان اقوام کی ترقی اور کامیابی کا راز انہیں چیزوں میں ہے تو ہم اپنی کم عقلی ، ابلہی اور حماقت کی دلیل فراہم کرتے ہیں۔ کیا کوئی عقل مند یہ یقین کرسکتا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں مغرب نے جو ترقی اور کامیابی حاصل کی ہےاس کی وجہ ان کی پینٹ، پتلون، ٹائی ، جوتا اور ہیٹ ہے یا یہ کہ ان کی ترقی اور تقدم کا اصل سبب چھری کانٹے کے ساتھ کھانا کھانا، سامان آرائش ، فارغ البالی و ٹوٹھ برش اور سرخی و لپ اسٹک میں مضمر ہے۔ اگر معاملہ ایسا نہیں اور ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے تو ہمارے ہاں اصلاح کی باتیں کرنے والے ترقی یافتہ لوگ صرف انہیں چیزوں پراپنا سارا زور کیوں صرف کرتے ہیں”۔

شیخ امین شنقیطی “اضواء البیان” میں مغربی تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کے موقف کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:”مکمل اور قطعی چھان بین اس بات پر دال ہے کہ مغربی تہذیب ، نفع بخش اور نقصان دہ دونوں قسم کی چیزوں پر مشتمل ہے۔ جو چیز اس میں نفع بخش ہے تو وہ مادی پہلوسے نفع بخش ہے۔ اس تہذیب کی ترقی تمام مادی میدانوں میں اتنی واضح ہے کہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ مادی لحاظ سے اس میں انسان کے لئے اتنے فوائد ہیں کہ جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس نے انسان کے لئے بہت بڑی خدمات سر انجام دی ہے لیکن اس حوالے سے کہ وہ ایک حیوانی جسم ہے۔ وہ چیز جو اس میں نقصان دہ ہے تو وہ ہے اس پہلو سے کلیتاً بے توجھی برتنا جو ہر بھلائی کی بنیاد ہے اور یقیناً اس کے بغیر دنیا میں کوئی بھلائی ہے ہی نہیں اور وہ ہے انسان کی روحانی تربیت اور اسکے اخلاق کی تعمیر و تہذیت۔

یہ بات ذکر کرنے کے بعد، جو چیز نفع بخش ہے اس سے نفع حاصل کیا جائے ۔ کہتے ہیں:

بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوالاریقط دولی کی رہنمائی سے فائدہ اٹھایا اور سفرِ ہجرت میں اس کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کیا حالانکہ وہ کافر تھا۔ اس دلیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام اور مسلمانوں کا مغربی تہذیب کے بارے طبعی موقف یہ ہے کہ مادی شعبوں میں جو انہوں نے ایجادات کی ہیں ان کو حاصل کرنے میں مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہیئے اور خالق کائنات کے بارے جو سرکشی کا ارتکاب کیا ہے اس سے بچنا چاہیے۔ اس سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی لیکن افسوس ان معاملوں میں اکثر مسلمانوں کا عمل مختلف ہے۔ وہ مغربی تہذیب سے اخلاقی بے راہ روی، دینی بیزاری،خالق کائنات کی اطاعت سے فرار جیسی چیزیں تو قبول کرلیتے ہیں لیکن ایسی تحقیقات اورایجادات سے فائدہ نہیں اٹھاتے جن میں مادی نفع ہے۔ اس طرح وہ دنیا اور آخرت دوںوں میں نقصان اٹھاتے ہیں اوریہ واضح نقصان اور خسارہ ہے۔

سید قطب شہید کہتے ہیں:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عقیدے اور منہج اسلامی کے بارے میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جس قدر سختی برتتے تھے اسی قدر تجربہ کے لئے چھوڑی گئی علمی زندگی کے کاموں میں تجربہ اور رائے میں آزادی دیتے تھے تاکہ یہ لوگ زراعت اور جنگی معاملات میں اپنی رائے اور تجربہ کا آزادانہ اظہارکرسکیں کیونکہ ایسے امور کا معاشرتی نظام کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ انسانی زندگی کے تنظیم کے ساتھ کوئی خاص ارتباط رکھتے ہیں۔ اعتقادی اور عام دنیوی امور میں فرق بالکل واضح ہے۔ منہج حیات الگ شے ہے اور خالص تجرباتی اور تطبیقی علوم الگ شے ہیں۔ اسلام جو منہج خداوندی کے ذریعے زندگی کی رہنمائی کیلئے آیاہے۔ عقل کو معرفت و آگہی کی طرف متوجہ کرتاہے اور ہر اس مادی ایجاد سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیتاہے جو اس کے مقرر کردہ منہج حیات کے دائرہ میں آتی ہے۔

اس گفتگو کے بعد انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ قلم بند فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس تورات کا کچھ حصہ دیکھا تو آپ ناراض ہوئے حتی کہ واپس لوٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واضح ارشاد ہے کہ “لاتسلوا اھل الکتاب عن شیء فانھم لن یھدوکم و قد ضلوا” اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے مت پوچھو۔ وہ تمہاری ہرگز رہنمائی نہیں کرسکیں گے، وہ گمراہ ہوگئے ہیں”

یہ ہیں اہل کتاب اور یہ ہے ان سے استفادہ کرنے کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی۔ وہ امور جن کا تعلق عقیدے ، نظریے، شریعت اور اسلامی قوانین سے ہے، ایسے امور میں غیرمسلموں سے رہنمائی حاصل نہیں کی جاسکتی لیکن باقی تمام انسانی کوششوں سے استفادہ کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں لیکن ضروری ہے کہ ان کا اسلامی منہج کے ساتھ ربط پیدا کیاجائے۔ ان کے بارے یہ اعتقاد رکھاجائے کہ اللہ تعالی نے ان علوم سے آگاہ کرکے اور کائنات کو انسان کے لئے مسخر کرکے انسان پر بڑا فضل فرمایا، لہذا ان امور سے انسان کا نفع حاصل کرنا بہترین مفاد میں ہے۔ اس سے امن و خوشحالی کو ممکن بنایا جائے اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیاجائے کہ اس نے اس معرفت کی نصیحت سے اور کائنات کی طاقتوں اور قوتوں کی مسخر کرکے ان پر فضل فرمایا۔ لہذا اس نعمت پر عبادت کرکے شکرکرنا ضروری ہے اور اس معرفت کی انسان کی مزید رہنمائی کرکے شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ تسخیر بشریت کے لئے بھلائی ہے لیکن کفار سے عقائد ، کائنات کی تفسیر، انسانی وجود کی غرض و غایت، اسلوب حیات، اسلامی قوانین اور شرائع میں رہنمائِی حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ اس چیز نے اللہ تعالی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کیا اور اس طرح کی معمولی چیز بھی اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی اور یہی وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو خبردار کیا اور اسے کفر صریح قرار دیا ہے۔”

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com