مولانا انعام الحق قاسمی
نام و نسب پیدائش اور خاندان
پیری رئیس کے بارے میں بہت کم پس منظر کی معلومات دستیاب ہیں۔ غیر مصدقہ روایت کے مطابق وہ لگ بھگ 1465ء گیلیپولی میں دردانللیس (Dardanelles) کے مقام پر پیدا ہو ئے تھے جو اس وقت عثمانی بحریہ کا ایک اہم اڈہ تھا۔ ان کے والد حاجی محمد تھے، جو اصل میں اناطولیہ صوبے کرمان سے تعلق رکھنے والے ترک تھے۔ ان کا پورا نام حاجی احمد محی الدین پیری تھا۔ رئیس ایک فوجی رینک ہے جو کپتان کے برابرہوتا تھا، لہذا نام پیری رئیس کا ترجمہ کیپٹن پیری کے طور پر ہوتا ہے۔ پیری اور ان کے والد کے ناموں میں اعزازی اور غیر رسمی اسلامی لقب حاجی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں باپ اور بیٹے نے سالانہ وقفہ کے دوران مکہ مکرمہ جا کر حج مکمل کیا تھا۔
پیری رئیس نے جوانی کی دہلیز پر پہنچتے ہی اپنے چچا کمال رئیس) جواس وقت کے ایک مشہور سمندری ماہر ملاح اور بحار تھے(کی پیروی کرتے ہوئے حکومت کے تعاون سے نجی کاروبار (بحیرہ روم میں 15ویں اور 16ویں صدی کی مسلم اور عیسائی دونوں ریاستوں میں اس وقت کا ایک عام رواج تھا) میں مشغول ہونا شروع کیا جو بعد میں عثمانی بحریہ کا مشہور ایڈمرل بن گئے ۔ اس عرصے میں اپنے چچا کے ساتھ مل کر، انہوں نے اسپین، جمہوریہ جینوا اور جمہوریہ وینس کے خلاف سلطنت عثمانیہ کی بہت سی بحری جنگوں میں حصہ لیا، جن میں 1499 ءمیں لی پینٹو کی پہلی جنگ (زونچیو کی جنگ) اور 1500 ءمیں لی پینٹو کی دوسری جنگ (موڈون کی جنگ) شامل ہیں۔ جب اس کے چچا کمال رئیس کا 1511ء میں انتقال ہو گیا (ان کا جہاز بحیرہ روم میں ایک طوفان سے تباہ ہو گیا، جب وہ مصر جارہے تھے)۔ پیری رئیس گیلیپولی واپس آگئے، جہاں انہوں نے [نیویگیشن- جہاز رانی] کے بارے میں اپنی پڑھائی پر کام شروع کیا۔
کارنامے
1516 ء میں، وہ عثمانی بحری بیڑے میں جہاز کے کپتان کے طور پر دوبارہ سمندر میں اتر گئے۔ انہوں نے مصر پر 1516-17ء میں عثمانی فتح میں حصہ لیا۔ 1522ء میں انہوں نے سینٹ جان کے شہ سواروں کے خلاف روڈس کے محاصرے میں حصہ لیا، جس کا اختتام 25 دسمبر 1522ء کو عثمانیوں کے سامنے جزیرے کے ہتھیار ڈالنے اور 1 جنوری 1523ء کو روڈس سے شہ سواروں کی مستقل روانگی کے ساتھ ہوا (شہ سوار وقتی طور پر سیسلی منتقل ہو گئے۔ اور بعد میں مستقل طور پر مالٹا چلے گئے)۔ 1524ء میں انہوں نے اس بحری جہاز کی کپتانی کی جو عثمانی عظیم وزیراعظم [صدر اعظم] پارگلی ابراہیم پاشا کو مصر لے گیا۔
1547 ء میں پیری بحر ہند میں عثمانی بحری بیڑے کے کمانڈر اور مصر میں بحری بیڑے کے ایڈمرل کے طور پر رئیس (ایڈمرل) کے عہدے پر پہنچ گئے تھے، جس کا صدر دفتر سویز میں تھا۔ 26 فروری 1548ء کو انہوں نے پرتگالیوں کو شکست دیکر عدن پر دوبارہ قبضہ کر لیا، اس کے بعد 1552ء میں مسقط پر قبضہ کر لیا، جس پر پرتگال نے 1507ء سے قبضہ کر رکھا تھا، اور اسٹرٹیجیک لحاظ سے بہت اہم جزیرہ کیش پر بھی قبضہ کرلیا۔ مزید مشرق کی طرف مڑتے ہوئے، پیری رئیس نے خلیج فارس کے داخلی راستے پر آبنائے ہرمز کے جزیرے ہرمز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی سے دوچار ہوئے، کیونکہ عثمانی شہر پر قبضہ کرنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن قلعہ پر نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے قریبی جزیرے قشم پر قبضہ کر لیا اور اپنے مال غنیمت کے ساتھ بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب پرتگالیوں نے اپنی توجہ خلیج فارس کی طرف مبذول کی تو پیری رئیس نے جزیرہ نما قطر پر قبضہ کر لیا تاکہ پرتگالیوں کو عرب کے ساحل پر مناسب اڈوں سے محروم رکھا جا سکے۔
اس کے بعد وہ مصر واپس آَئے اس حال میں ایک عمر رسیدہ آدمی جس کی عمر 90 سال کے قریب تھی۔ جب انہوں نے شمالی خلیج فارس میں پرتگالیوں کے خلاف ایک اور مہم میں بصرہ کے عثمانی والی (گورنر) کباد پاشا کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں جزیرہ ہرمز کا محاصرہ ختم کرنے اور بحری بیڑے کو ترک کرنے کا مجرم پایا گیا تھا، حالانکہ ایسا کرنے کی وجہ ان کے جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھال کی کمی اور ان کا ناکارہ ہونا بتایا جاتا ہے۔ 1554ء میں قاہرہ میں پیری رئیس کا سر قلم کر دیا گیا۔
نقشہ نگاری
احمد محیی الدین پیری ( پیری رئیس) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایک عظیم عثمانی نیویگیٹر، جغرافیہ دان اور نقشہ نگار تھے۔ وہ آج بنیادی طور پر پوري دنیا میں اپنے نقشوں اور چارٹس کے لیے جانے جاتے ہیں۔جو ان کی کتاب بحریئے (کتاب آف نیویگیشن) Kitab-ı Bahriye (Book of Navigation)میں جمع کیے گئے ہیں۔ ایک ایسی کتاب جس میں بحری جہاز کی ابتدائی تکنیکوں کے بارے میں تفصیلی معلومات کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے لیے نسبتاً درست چارٹ، بحیرہ روم کی اہم بندرگاہوں اور شہروں کو بیان کیا گیا ہے۔
انہیں نقشہ نویس کے طور پر اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب 1513 ءمیں تیار کیے گئے ان کے پہلے دنیا کے نقشے کا ایک چھوٹا سا حصہ 1929ء میں استنبول کے توپ کاپی Topkapi محل میں دریافت ہوا۔ ان کے ذریعہ نقش شدہ نقشے دنیا کی قدیم ترین ترک اٹلس ہے جو آج کی نئی دنیا کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیاہے۔ اور امریکہ کے قدیم ترین نقشوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جو اب تک موجود ہے (امریکہ کا سب سے قدیم باقی بچ جانے والا نقشہ” جوآن ڈی لا کوسا کا)” 1500ء) میں تیار کردہ نقشہ ہے)۔ پیری رئیس کا نقشہ صحارا پر سرطان کے عرض البلد پر مرکوز ہے۔
1528 ءمیں، پیری رئیس نے دنیا کا دوسرا نقشہ تیار کیا، جس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا (گرین لینڈ اور شمالی امریکہ کو شمال میں لیبراڈور اور نیو فاؤنڈ لینڈ سے لے کر فلوریڈا، کیوبا، ہسپانیولا، جمیکا اور جنوب میں وسطی امریکہ کے کچھ حصوں کو دکھاتا ہے) اب بھی زندہ و جاوید ہے۔ ان کے نقوشِ متن کے مطابق ، انہوں نے تقریباً 20 غیر ملکی چارٹ اور عالمی میپس (عرب، ہسپانوی، پرتگالی، چینی، انڈین اور یونانی) نمونے کا استعمال کرتے ہوئے اپنے نقشے بنائے تھے جن میں سے ایک کرسٹوفر کولمبس کا تھا
کتاب بحریہ
پیری رئیس کتاب بحریہ یا “بک آف دی سی” کے مصنف ہیں، جو اس دور کے مشہور نقشہ جات کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ کتاب سمندری مسافروں کو بحیرہ روم کے ساحل، جزائر، کراسنگ، آبنائے اور خلیجوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ طوفان کی صورت میں کہاں پناہ لینی ہے، اور بندرگاہوں کے درست راستے وبندرگاہوں تک کیسے پہنچنا ہے ۔ یہ کتاب پہلی بار 1521ء میں شائع ہوئی تھی۔ اور 1524-1525ء میں سلطان سلیمان اول کو تحفے کے طور پر پیش کرنے کے لیے اضافی معلومات اور بہتر طریقے سے تیار کردہ چارٹ کے ساتھ اس پر نظر ثانی کی گئی تھی۔ نظر ثانی شدہ ایڈیشن میں کل 434 صفحات تھے جن میں 290 نقشے تھے۔
اگرچہ پیری رئیس کوئی موجد نہیں تھے اور کبھی بحر اوقیانوس تک نہیں گئے تھے ، لیکن انہوں نے عرب، ہسپانوی، پرتگالی، چینی، انڈین اور قدیم یونانی ماخذ کے بیس سے زیادہ نقشے مرتب کیے جو اپنے دور کی معروف دنیا کی جامع نمائندگی کرتے ہیں۔ اس كتاب میں افریقی اور امریکی براعظموں کے حال ہی میں دریافت کیے گئے ساحل شامل تھے۔1513ء کے اپنے پہلے عالمی نقشے پر، انہوں نے یہ تفصیل بیان کی کہ ” یہ سب اراضی اور جزیروں کے نقشے کولمبس کے نقشے سے کھینچے گئے ہیں۔ اپنے متن میں، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے “سکندر اعظم کے زمانے میں بنائے گئے نقشے” کو بطور ماخذ استعمال کیا ۔ ان کا نقشہ 1512ء میں چھپنے والے ٹولیمی کے جان آف اسٹوبنیکا کے مشہور تولیدی نقشے سے ملتا جلتا ہے۔ کچھ دہائیاں قبل محمد ثانی کے ذاتی حکم کے بعد بطلیموس کے جغرافیہ کا ترکی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ نقشے کا بحر اوقیانوس کا حصہ کولمبس سے نکلتا ہے کیونکہ اس میں موجود غلطیوں کی وجہ سے (جیساکہ کولمبس کا عقیدہ تھا کہ کیوبا ایک براعظمی جزیرہ نما تھا) کیونکہ اس نسخے کو تیار کرنے کے وقت سے، اسپینی باشندے پہلے ہی دو سال سے میکسیکو میں موجود تھے۔
سلطنت عثمانیہ میں علم جغرافیہ کا عروج
دولت عثمانیہ کی عظمت ، ترقی اور قوت کے دور میں جبکہ اُس وقت یہ لوگ زندگی کے ہر شعبہ میں تفوق و منافست کے اعلی درجے پرفائز تھے، خصوصاً علم جغرافیہ میں ان کو کمال حاصل تھا۔ پیری رئیس جو سلطان سلیم اول اور سلطان سلیمان قانونی کے دورکے بہت بڑے جغرافیہ دان مانے جاتے ہیں۔ پیری رئیس عثمانی بحریہ کے قائد اور علم جغرافیہ کے بہت بڑے عالم تھے۔
یہ عظیم جغرافیہ دان عثمانی جغرافیائی ادب میں نقشہ نویسی کے علمبرداروں میں شمار ہوتاہے۔ اس میدان میں ان کے دو نہایت ہم اہم نقشے بہت معروف ہیں۔ ان میں سے پہلا نقشہ اندلس مغربی افریقہ، بحر اٹلانٹک اور امریکہ کے مشرقی ساحلوں کے بارے میں ہے، پیری رئیس نے یہ نقشہ سلطان سلیم اول کو مصر میں 1517ء میں پیش کیاتھا۔ یہ نقشہ ان دنوں اسطنبول کے توپ کاپی Topkapi محل [توپخانہ] کے میوزیم میں موجود ہے اور اس پر پیری رئیس کی مہر بھی موجود ہے۔ اس نقشے کا سائز 85×60سینٹی میٹر ہے۔
دوسرا نقشہ صرف بحر اٹلانٹک سے متعلق ہے جس میں جرلانڈو Garlando سے لے کر علاقہ جات کی تفصیلات موجود ہیں، اس کا سائز 69×68سینٹی میٹر ہے اور یہ نقشہ بھی استنبول کے توپخانہ میوزیم میں اب تک موجود ہے۔ اس بات کا تذکرہ بہت ضروری معلوم ہوتاہے کہ پیری رئیس کا تیارکردہ نقشہ امریکہ کا قدیم ترین نقشہ شمار کیا جاتا ہے۔
26 اگست 1956ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی یونیورسٹی جامعہ جارج ٹاون میں پیری رئیس کے نقشوں کے تعارف کے سلسلے میں ایک کنونشن ہوا جس میں شریک تمام جغرافیہ دانوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پیری رئیس کے امریکہ سے متعلق یہ نقشہ جات “معجزانہ انکشافات ہیں”۔
پیری رئیس کولمبس سے بہت پہلے امریکہ دریافت کرچکے تھے۔ وہ اپنی سمندری کتاب میں ایک جگہ تحریر کرتے ہیں کہ “مغربی سمندر یعنی بحر اٹلانٹک ایک عظیم سمندر ہے جو عرضاً دو ہزار میل تک پھیلا ہوا ہے، یہ بوغاز سبتہ سے شروع ہوکر مغرب کو چلاجاتاہے، اس عظیم سمندر میں ایک براعظم موجود ہے جسے براعظم انٹیلیا کہتے ہیں۔ انٹیلیا کا معنی دنیا یا امریکہ ہے۔ پیری رئیس رقم طراز ہیں کہ یہ براعظم 870ھ /1465ء میں سامنے آیا یعنی کولمبس کی دریافت سے 27 سال قبل”۔
پیری رئیس نے اپنے پیچھے ایک کتاب بھی چھوڑی جس میں حیرت افزاء معلومات پائی جاتی ہیں اور اس میں ایسے ایسے نقشے ہیں جنہوں نے امریکہ اور یورپ کے جغرافیہ دانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ان معلومات اور نقشہ جات کو موجودہ دور کے تمام علماء نے صحیح قرار دیا ہے۔
راہب جزویٹی لاین ہام جو ویسٹون میں مرکز الارصاد کے ایڈیٹر تھے، عثمانی قائد پیری رئیس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی یہ گفتگو پیری رئیس پیری رئیس کا علم جغرافیہ میں عبقریت کا پتہ دیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ” پیری رئیس کے ڈیزائن کردہ نقشہ جات اس حد تک صحیح ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے، بالخصوص اس وجہ سے کہ ان کے تیار کردہ یہ نقشے ایسے مقامات کی بھی وضاحت کرتے ہیں جو سولہویں صدی میلادی میں سامنے آئے ہیں، سب سب زیادہ حیرت افزاء بات یہ ہے کہ انہوں نے انٹارکٹیکا کے پہاڑی سلسلے کے خطوط کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنے تیار کردہ نقشوں میں ڈیزائن کیا ہے، حالانکہ 1952ء سے قبل کسی شخص کو ان انکشافات کی توفیق نہیں ہوئی، اس کا مطلب ہے کہ بیسویں صدی کے نصف ثانی تک جو چیز پردہ خفا میں تھی اور جس سے دنیا کا کوئی جغرافیہ دان واقف نہیں تھا ، پیری رئیس نے اسے پندرہویں صدی میں نقشہ پر نمایاں کرکے دکھادیا۔ ترقی یافتہ Commutates سامان کو استعمال کیے بغیر؟ یہ آخر کیسے ہوگیا؟ بہر حال عثمانی قائد پیری رئیس سے قبل یعنی سولہویں صدی میلادی تک کوئی شخص انٹارکٹیکا کے وجود سے واقف نہیں تھا کیونکہ یہ پہاڑ تاریخِ انسانی کے پورے ادوار میں برف سے ڈھکے رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انٹارکٹیکا چھٹا براعظم ہے جو زمین کے جنوبی نصف کرہ میں واقع ہے۔ پیری رئیس کی فراہم کردہ ان معلومات سے صرف راہب لاین ہام ہی حیرت زدہ نہیں بلکہ ان کے علاوہ کئی دوسرے علماء و محققین بھی ان کی معلومات کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہیں۔ زمینی اشکال کے بعض ماہرین نے سولہویں صدی میں لی گئی فضائی مرکبات کی تصویروں کا ان نقشوں کے ساتھ موازنہ کیا جوعثمانی بحریہ کے قائد پیری رئیس نے سولہویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ڈیزائن کئے تھے تو انہیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ان فضائی مرکبات کی تصویروں اور پیری رئیس کے نقشہ جات میں مکمل مشابہت پائی جاتی ہے۔
ترک بحریہ کے کئی جنگی جہازوں اور آبدوزوں کو پیری رئیس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
=======:::=======