مولانا رابع حسنی کے قائدانہ نقوش ملت کے لیے مشعل راہ ہیں آئی او ایس کے دو روزہ سمینار میں علماء و دانشوران کا اظہار خیال

انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام “مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی: شخصیت، علمی سرمایہ اور قائدانہ نقوش” کے موضوع پر دہلی میں منعقد ہونے والا دو روزہ سمینار کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا. سمینار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت سابق مرکزی وزیر جناب کے رحمان خان نے کی.
جناب کے رحمان خان نے اپنے صدارتی خطاب میں مولانا رابع حسنی کی خدمات اور خاص طور پر ملت کی قیادت کو خراج عقیدت پیش کیا. انھوں نے کہا کہ “مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ہم سب کے بزرگ تھے اور بڑی حکمت و تدبر کے ساتھ ملت کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہے تھے.”
ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی نے اپنے کلیدی خطاب میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت اور خدمات کے اہم گوشوں کی طرف اشارہ کیا. انھوں نے کہا کہ “مولانا کی زندگی اور شخصیت کا سب سے اہم پہلو فنائیت ہے. انھوں نے کبھی خود کو کچھ نہیں سمجھا اور ہمیشہ عہدوں اور کرسیوں سے دور بھاگتے رہے. لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑے مناصب اور بڑے مقامات عطا فرمائے. آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت کا مسئلہ پیش آیا تو مولانا نے بیت صاف انکار کردیا تھا، لیکن اجلاس میں شریک نہ ہونے کے باوجود ملت کے قائدین نے متفقہ فیصلہ کیا کہ مولانا رابع صاحب سے بہتر کوئی شخص موجود نہیں ہے، اس لیے ان سے بالاصرار اس عہدے کو قبول کرنے کی درخواست کی جائے. یہی معاملہ ندوۃ العلماء کی نظامت کا بھی ہوا. مولانا رابع صاحب نے بہت صاف لفظوں میں مولانا ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی کو بنائے جانے کی بات کہی تھی. لیکن مولانا عبداللہ عباس نے بڑے ہونے کی وجہ سے باقاعدہ حکم دیتے ہوئے مولانا رابع صاحب کو ندوۃ العلماء کا ناظم بنایا.”
کناڈا کے مشہور عالم دین مولانا ڈاکٹر سعید فیضی نے اپنے آن لائن خطاب میں “مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی سے اپنے استفادے کا خاص طور پر تذکرہ کیا اور کہا کہ “میں نے کئی دہائیوں تک مولانا سے علمی و عملی استفادہ کیا اور ان کی شفقتوں سے محظوظ ہوتا رہا. ان کی رحلت سے ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ ہی پُر فرما سکتا ہے. ان کے جانشین کی حیثیت سے مولانا بلال عبدالحی حسنی کی جو خدمات سامنے آرہی ہیں وہ بہت قابل اطمینان اور قابل تعریف ہیں.”
معروف اسلامی دانشور پروفیسر اخترالواسع (سابق صدر شعبہ اسلامیات جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے شخصی اوصاف اور قائدانہ نقوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ “مولانا رابع صاحب نے بالکل اسی نہج کو اختیار کیا جو ان کے مرشد مولانا علی میاں ندوی کا منہج تھا. وہ اپنے مرشد و مربی کے مثنی اور تتمہ تھے. جب تک وہ ملت کی قیادت فرماتے رہے ایک بات کا اطمینان تو ملت کے ہر شخص کو رہا کہ ملت کا وقار محفوظ ترین ہاتھوں میں ہے، ایسے ہاتھ جو کسی بھی قیمت پر ملت کا سودا نہیں کرسکتے. وہ سید احمد شہید اور مولانا علی میاں کی وراثت کے امین اور مظہر تھے اور اسی وراثت کے مظہر کے طور پر اب مولانا بلال حسنی ہمارے سامنے ہیں.”
مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند) نے اپنے خطاب میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی سے وابستہ اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی حکمت و تدبر کا خصوصی تذکرہ کیا اور کہا کہ “اس طرح کی عظیم شخصیات کی زندگیوں سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے کتنی ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ ملت کی قیادت فرمائی ہے. ہمیں مولانا رابع صاحب کی زندگی سے حاصل ہونے والے اسباق کو اپنی زندگیوں میں بسانا چاہیے.”
افتتاحی اجلاس میں خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف، پٹنہ کے سجادہ نشین مولانا شاہ آیت اللہ قادری مجیبی کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا. اس پیغام میں انھوں نے کہا کہ “حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی نگارشات اور ان کی شخصیت کے علمی و عملی نقوش، درحقیقت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی تعلیم و تربیت کے اثرات اور ان کی علمی و عرفانی زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں. وہ صحیح معنوں مولانا علی میاں صاحبؒ کے معنوی فرزند اور ان کے حقیقی جانشیں تھے. حضرت علی میاںؒ کی صحبت کا رنگ ان کی شخصیت میں نمایاں تھا، اس وجہ سے ان کی علمی و عملی زندگی کا دائرہ بھی بہت وسیع رہا. وہ اپنی شخصیت میں شیخ دائرہ بھی تھے اور سربراہ ادارہ بھی.”
افتتاحی اجلاس میں آئی او ایس سے شائع ہونے والی کتاب “محدثِ اعظمی: شخصیت، کمالات اور علمی فتوحات” کا اجراء بھی عمل میں آیا. یہ کتاب اُن مقالات کا مجموعہ ہے جو آئی او ایس کے ایک سمینار میں محدث اعظمی مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے متعلق پیش کیے گئے تھے. اجلاس کی نظامت شاہ اجمل فاروق ندوی نے بحسن و خوبی انجام دی. عدنان احمد ندوی کی تلاوت سے سمینار کا آغاز ہوا.
افتتاحی اجلاس کے بعد تکنیکی نشستوں کا سلسلہ شروع ہوا. ان نشستوں کی صدارت بالترتيب پروفیسر محسن عثمانی ندوی، پروفیسر شفیق احمد خان ندوی، پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی اور ڈاکٹر محمد ارشد نے انجام دی. چار تکنیکی نشستوں میں تیس مقالات پیش کیے گئے.
پہلے تکنیکی اجلاس میں مشہور اسلامی محقق مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی نے بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی. انھوں نے اپنے وقیع خطاب میں مولانا محمد رابع حسنی ندوی کے شخصی اوصاف و کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ “مولانا اخلاق و کردار کے جس مقام پر فائز تھے، اس مقام تک پہنچنا ہما شما کے بس کی بات نہیں ہے. بلکہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں یہ کہوں گا کہ اس معاملے میں وہ اپنے مرشد حضرت مولانا علی میاں سے بھی آگے بڑھ گئے تھے. اب ایسے لوگ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے. اس دور میں ان کی ذات ایک روشنی کے مینار جیسی تھی. ان کی زندگی میں ہمارے لیے بہت سبق موجود ہے.”
پہلے تکنیکی اجلاس میں خطبہء صدارت پیش کرتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی ندوی (سابق ڈین ای ایف ایل یونی ورسٹی حیدرآباد) نے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی دور اندیشی اور دور بینی کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ “مولانا نے سب سے لمبے عرصے تک بورڈ کی صدارت فرمائی. یہ بھی عجیب یادگار واقعہ ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری مولانا کو ان کی غیر موجودگی میں اصرار کے ساتھ دی گئی. وہ خود کو چھپانے والے اور سب سے پیچھے رکھنے والے انسان تھے، اس لیے کسی طرح اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے. انھوں نے بہت سے مواقع پر اپنی ذاتی رائے سے اس لیے تنازل اختیار کیا کہ بورڈ کا اتحاد محفوظ رہے. یہ بڑا اہم قائدانہ وصف ہے.” پہلے تکنیکی اجلاس میں ڈاکٹر تابش مہدی، ڈاکٹر محمد خالد خان عمری، مولانا طلحہ نعمت ندوی، مولانا عدنان احمد ندوی، محسن فیروز اعظمی اور مہوش فاطمہ نے مقالات پیش کیے.
دوسرے تکنیکی اجلاس کی صدارت پروفیسر شفیق احمد خان ندوی (سابق صدر شعبہ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی) نے کی. انھوں نے اپنے خطبہء صدارت میں پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ “مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی شرافت کے اس بلند معیار کے حامل تھے، جس معیار کو حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے. اس کے علاوہ وہ ایک کامیاب استاد اور بہترین منتظم بھی تھے. مجھے نہیں لگتا کہ ان کی زبان سے کبھی کسی کو تکلیف پہنچی ہوگی. عالمی رابطہ ادب اسلامی کے زیر اہتمام مولانا نے جو خدمات انجام دی ہیں ان پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے. کیوں کہ وہ پہلے دن رابطہ ادب اسلامی سے وابستہ تھے اور اپنی زندگی کے آخری دن تک اس وابستگی کا حق ادا کرتے رہے. ہمارے اسکالرز کو اس موضوع کی طرف توجہ دینی چاہیے.” اس دوسرے تکنیکی اجلاس میں پروفیسر مسعود عالم فلاحی، ڈاکٹر ندیم اشرف، ڈاکٹر شکیل احمد، ڈاکٹر روح نما پروین، محمد ثاقب، محمد منور کمال ندوی، زین الاسلام ندوی، اور راغبہ نے مقالات پیش کیے.
سمینار کے دوسرے دن تیسرا تکنیکی اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی (سابق صدر شعبہ اسلامیات مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدرآباد) نے انجام دی. انھوں نے اپنے خطبہ صدارت میں اسکالرز کو اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی. ساتھ ہی مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے کہا کہ “میں اپنی سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ مجھے مولانا کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل رہا ہے. دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی مجھے ان کی شفقتیں حاصل رہیں. ایک مرتبہ میرے سوال کے جواب میں مولانا نے فرمایا تھا کہ تعلیم کا مقصد تربیت ہے. لیکن آج تعلیم کو معاش سے جوڑ دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں تعلیم کے منافع حاصل نہیں ہوپاتے ہیں. تربیت اور معاش انسان کی دو مختلف ضرورتیں ہیں. دونوں کو اس طرح پورا ہونا چاہیے کہ ایک کی وجہ سے دوسری پر اثر نہ پڑے.” اس اجلاس میں ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر شمیم اختر، ڈاکٹر محمد ناصر، ڈاکٹر غیاث الاسلام صدیقی، محمد حسان خان ندوی، شفیع الرحمان، محمد اشفاق عالم ندوی، اور شازیہ ترین نے مقالات پیش کیے.
چوتھے تکنیکی اجلاس میں خطبہء صدارت پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ارشد (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی) نے کہا کہ “مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائد کی حیثیت سے جو خدمات انجام دی ہیں وہ بہت حکیمانہ ہیں. ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے اور انھیں تفصیل کے ساتھ منظر عام پر لانا چاہیے. مولانا کی عربی تحریریں بہت عمدہ ہوتی تھیں. البتہ ان کی بہت سی تحریروں کے جو اردو تراجم ہوئے ہیں ان پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے. جب مولانا عربیِ مبین میں لکھتے تھے تو ان کا ترجمہ بھی اردوئے مبین میں ہونا چاہیے.” اس اجلاس میں ڈاکٹر جمشید احمد ندوی، ڈاکٹر محمد وقارالدین لطیفی، ملک محمود، سعید الرحمان اور صفوان احمد ندوی نے مقالات پیش کیے.
اختتامی اجلاس کی صدارت انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کی. انھوں نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ “مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت میں اعتدال و توازن اور حکمت و تدبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا. مجھے ان سے ہمیشہ عقیدت مندانہ تعلق رہا. وہ بھی ہماری اور آئی او ایس کی سرپرستی فرماتے رہے. آئی او ایس نے اسلامی تعلیم کے میدان میں شاہ ولی اللہ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تھا تو ملک بھر سے جو نام آیا اور جس پر اتفاق رائے ہوا وہ مولانا کا نامِ نامی ہی تھا. مولانا نے اس ایوارڈ کو قبول فرما کر اس کی عزت میں اضافہ کیا. ضرورت ہے کہ نئی نسل مولانا کی تعلیمات سے بھرپور استفادہ کرے. کیوں کہ ملت کو ان صفات کی شدید ضرورت ہے جو صفات مولانا کا طرہ امتیاز تھیں.”
سمینار کا خطبہ اختتامیہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے بہت جامعیت کے ساتھ پیش کیا. انھوں نے کہا کہ “حضرت کی ذات پوری ملت کے لیے سایہ دار درخت کی حیثیت رکھتی تھی. وہ روحانی عظمت اور کردار کی رفعت کے جس مرتبے پر فائز تھے وہاں اللہ کے منتخب بندوں کو ہی رسائی ملتی ہے. فنائیت ان کا سب سے امتیازی وصف تھا. یہ مشکل ترین وصف ہے، لیکن مولانا نے اسے اپنی فطرت بنا لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دی تھی. ان کے اندر حکمت و تدبر کے ساتھ جرأت بھی تھی. بابری مسجد کے سلسلے میں ان کا یہ بیان ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ اگر خدانخواستہ بابری مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ ہمارے خلاف آتا ہے تو وہ ہمارے جسموں پر تو نافذ ہوسکتا ہے، ہمارے دلوں پر نافذ نہیں ہوسکتا.”
سمینار کے اختتام پر چار نکاتی قرارداد پیش کی گئی، جس میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی تعلیمات کو اختیار کرنے اور انھیں عام کرنے پر زور دیا گیا. سمینار کے کنوینر شاہ اجمل فاروق ندوی نے کلمات تشکر پیش کیے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com