مولانا محمود احمد خاں دریابادی
خبر آچکی کہ جموں کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے کو عدالت عالیہ نے درست قردےدیا ـ یہ دفعہ کشمیری عوام کے کہنے سے دستور میں شامل نہیں کی گئی تھی، بلکہ ڈوگرا مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے کشمیر کو ہندوستان میں شامل ہی اسی شرط کے ساتھ کیا تھا کہ اُن کی ریاست کو خصوصی درجہ دیا جائے، اس کے پیچھے اُن کے کئی ذاتی مفاد تھے، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ـ
دوسری حقیقت یہ سمجھنی چاہیئے کہ 370 کو دستور کا حصہ بنا تو دیاگیا تھا مگر دہلی کی حکومت (خواہ کانگریس ہو یا بھاجپا) کی آنکھوں میں یہ دفعہ ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ہے، ہر حکومت نے اس کو اپنے اپنے انداز میں بے اثر کرنے کی کوششیں کی ہیں، …….. افسوس تو یہ بھی ہے کہ کشمیر کی مقامی پارٹیوں نے بھی درپردہ اس میں تعاون کیا ہے ـ
یاد کیجئے دفعہ 370 کے تحت کشمیر میں گورنر نہیں ہوتے تھے بلکہ صدر ریاست ہوا کرتے تھے، وزیر اعلی نہیں بلکہ وزیر اعظم ہوتے تھے، الگ دستور تھا، پورا علاقہ سپریم کورٹ کے حلقہ اثر سے باہر ہوا کرتا تھا، ……. اپنے وقت میں کشمیر کے سب سے بڑے لیڈر مرحوم شیخ عبداللہ 370 کے تحت ہی کشمیر کے وزیر اعظم بنائے گئے تھے، مگر پھر یہ بھی ہوا کہ مرکز کی کانگریسی حکومت جس کے سربراہ شیخ عبداللہ کے خاندانی دوست جواہرلال نہرو تھے نے راتوں رات شیخ صاحب کو برطرف کرکے جیل میں ڈال دیا، شیخ برسوں جیل میں رہے، اسی درمیان 370 میں تبدیلی کرکے صدر ریاست کا عہدہ ختم کیا گیا، وزیر اعظم وزیر اعلی بن گیا، سپریم کورٹ کے حلقہ اثر میں جموں کشمیر بھی لے آیا گیا، یہ ساری تبدیلیاں بغیر شور شرابہ کے غیر محسوس طریقہ پر ہوتی رہیں، شیخ صاحب تو جیل میں تھے، کشمیر میں کانگریس کی حکومت قائم کرادی گئی، ظاہر ہے وہ مرکز کی مخالفت کیوں کرنے لگی ـ
تعجب تو اس پر ہوتا ہے کہ برسہا برس جیل میں رہنے کے باوجود پتہ نہیں کونسی نا معلوم وجوہات تھیں کہ اپنے وقت میں کشمیر کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ رہا ہونے کے بعد وزیر اعلی بننے پر تیار ہوگئے، 370 کے تحت ملنے والی دیگر کئی خصوصیات سے بھی اُن کو ہاتھ دھونا پڑا، اس پر بھی اُن کے ماتھے پر کوئی بل نہیں آیا، ظاہر ہے اب فاروق عبداللہ وعمر عبداللہ کو بھی انھیں کے نقش قدم پر چلنا ہے ـ ………… رہ گئیں محبوبہ مفتی تو خود اُن کے والد کانگریس میں تھے،ایک عرصے تک جموں کشمیر کانگریس کے صدر رہ چکے ہیں، اُنھوں نے کانگریس اس لئے نہیں چھوڑی تھی کہ 370 کی کئی اہم ذیلی دفعات کو ختم کردیا گیا تھا بلکہ بہت سی ذاتی اور سیاسی وجوہات کی وجہ سے کانگریس کو انھوں نے خیرباد کہا تھا ـ
بہر حال کانگریس رخصت ہوئی بھاجپا آئی، فرق بس اتنا پڑا کہ جہاں کانگریس آہستہ آہستہ 370 ہٹا رہی تھی، بھاجپا نے اُس کو یکلخت ختم کردیا، اگر بھاجپا نہ آتی تو دیر سویر کانگریس بھی اس کو ختم کرہی رہی تھی ـ ………. اگر دیکھا جائے تو اس میں سب سے دوغلا اور مشکوک کردار کشمیر کی مقامی پارٹیوں کا رہا ہے، کہاں تو یہ سمجھا جارہا تھا کہ اگر 370 ختم کردیا گیا تو کشمیر کی پارٹیاں ہنگامہ کردیں گی، ایسا ہوجائے گا ویسا ہوجائے گا، مگر کچھ نہ ہوا، ………. مان لیا کہ پرتشدد تحریک چلانا بالکل مناسب نہیں تھا، اس میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور دہشت گردی کا الزام بھی لگتا ہے، مگر کیا گاندھیائی فکر سے نکلنے والی کشمیر کی دونوں بڑی پارٹیاں گاندھی کے طرز پر اندولن، دھرنا، بھوک ہڑتال وغیرہ بھی نہیں کراسکتی تھیں، ……… موجودہ زمانے میں بھی عدم تشدد پر مبنی تحریکیں کامیاب ہوسکتی ہیں، شاہین باغ اور کسان اندولن اس کی مثالیں ہیں ـ
سچی بات یہ ہے کہ کشمیر کی پارٹیوں کو 370 سے زیادہ اقتدار کی ملائی سے دلچسپی ہے، اسی لئے کشمیری پارٹیوں نے 370 کو عدالت کے حوالے کردیا اور خود ان کوششوں میں لگ گئیں کہ کشمیر میں کسی بھی طرح جلد الیکشن ہوجائیں اور اقتدار ہاتھ آجائے، لنگڑا لولا ہی سہی ـ
اب ذرا یہ بھی سوچ لیجئے کہ 370 ختم ہونے کے بعد فائدہ کس کا نقصان کس کا ہے؟
ہمارے برادران وطن خوش ہورہے ہیں کہ اب ہم بھی جموں کشمیر میں جائداد لے سکیں گے، ……… یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ 370 ختم ضرور ہوگیا ہے، کئی برس ہوگئے، مگر کیا ابھی وادی کشمیر میں ایسے حالات ہیں کہ وہاں غیر کشمیری جائداد خرید کر اطمینان سے رہ سکے؟سرکار کے تمام بڑے دعووں اور یقین دہانیوں کے باوجود اب تک ہزاروں کشمیری پنڈتوں نے دوبارہ کشمیر میں جانے کی ہمت نہیں کی، جبکہ اُن کے پڑوسی انھیں بار بار بلا بھی رہے ہیں، ………. ہاں اڈانی،امبانی جیسے دھنا سیٹھ ضرور وہاں جانے کی کوشش کرسکتے ہیں،اُن کے ساتھ سرکار کی مکمل سیکورٹی ہوگی ( واضح رہے کہ مرکز میں جو بھی حکومت آئے یہ سیٹھ سب کو پھُسلالیتے ہیں) وہاں بڑے بڑے ہوٹل بن سکتے ہیں، تفریحی کمپلیکس بنائے جاسکتے ہیں مگر درمیانی طبقے کے عام لوگ فی الحال تو وادی کشمیر میں جانے کی ہمت نہیں کرسکتے، ہاں جموں میں حالات دوسرے ہیں 370 ختم ہونے کے بعد وہاں گجراتی، ماڑواڑی وغیرہ نے کافی زمینیں خریدی ہیں، دوسرے علاقے کے لوگ بھی پہونچ رہے ہیں، اگرچہ وہاں غیر مسلم آبادی زیادہ ہے، تاہم انھیں بھی اب فکر ہونے لگی ہے کہ اگر اسی طرح غیر کشمیری وہاں آباد ہوتے رہے تو ایک دن وہ اقلیت میں آجائیں گے ـ
بہر کیف 370 تو ختم ہوا، شمال مشرقی ریاستوں کو ملنے والا 371 ابھی باقی ہے، حکومتیں کتنا ہی یقین دلائیں کہ 371 کو نہیں چھیڑا جائے گا، وزیر داخلہ خوب چیخ چیخ کر اعلان کریں کہ 371 باقی رہے گا ……….. مگر حالات پر نظر رکھنے والے جان رہے ہیں کہ اُس کا بھی وقت قریب آرہا ہے، منی پور میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کچھ ویسا ہی ہے جیسا دو دہائی پہلے کشمیر میں ہوا کرتا تھا، اس لئے ……….
میں آج زد پہ ہوں تم خوش گمان مت ہونا
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں