عالم دین پر چھیڑ چھاڑ کا الزام غلط نکلا، ضمانت پر رہا جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر تحقیق کے بعد سچ سامنے آیا، علماء اور مسلم شناخت کو بدنام کرنے کی کو شش ناکام، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقدمہ کی تیاری

 نئی دہلی(ملت ٹائمز۔پریس ریلیز)

لونی کے رہنے والے مولانا محمد قاسم عرف سمیر پر باغپت جانے والی ایک بس میں چھیڑ چھاڑ کا الزام لگا کر بے رحمی سے پیٹنے کا معاملہ اس وقت بے نقاب ہو گیا جب مبینہ طور پر متاثرہ خاتون کی طرف سے گواہی دینے والا مصطفی نامی شخص اپنے بیان سے مکر گیا ، اتناہی نہیں بلکہ اس نے ایک تحریری رجو ع نامہ میں اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ ملز م کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا تھا ۔تھانہ باغپت مےں اس تحریری بیان آنے کے بعد مولانا محمد قاسم کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد مغربی یوپی سمیت پورے ملک میں یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے ذریعے مولانا ومولوی کی مطلق شناخت پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ تیز تر ہو گیا تھا ،جس سے فرقہ وارانہ حالات بگڑنے لگے تھے ۔
ان حالات کی نزاکت کو دیکھ کر جمعیۃ علماء ہند کے جنر ل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے جمعیۃ علماء باغپت کے مقامی ذمہ داروں بالخصوص مفتی محمد عباس ، حافظ قاسم وغیرہ کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملہ کی تحقیق کریں ۔ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ یہ الزام سراسر غلط ہے اور سنیتا نامی خاتون جو کھیڑا ،اسلام پور تھانہ بڑوت کی رہنے والی ہے ، اس نے مولانا محمد قاسم سے بس میں کسی بات پر تیز کلامی کے بعد اچانک بے ہودہ الزا م لگا کر مار پیٹ کی اور لوگوں کو بھی مارپیٹ پر اکسایا ، جس کے بعد عوام کی جم غفیر نے بڑی بے رحمی سے مولانا کو پیٹا ۔ نیز ویڈیو بنا کر علماء اور صلحاء کی شناخت کے حوالے سے پورے ملک میں طوفان کھڑا کیا گیا ۔ ا س معاملے میں مذکورہ خاتون کے اکلوتا گواہ کے مکر جانے نیز الٹے خاتون پر جھوٹا کیس درج کرانے کے اقرار کے بعد جمعیۃ علماء ہند ہتک عزت اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کو لے کر مقدمہ کی تیاری کررہی ہے ۔
مصطفی پسر یونس اسارا نے تھانے کو پیش کردہ تحریر میں خلاصہ کیا ہے کہ” وہ اس دن موقع واردات پر موجود نہیں تھا ، میں نے متعلقہ معاملے میں سنیتا کی بیٹی کے ساتھ تھانہ آئی پی سی تھانہ بڑوت پہنچ کر محمد سمیر کے خلاف جھوٹی گواہی دی تھی ، مصطفی جو مذکورہ خاتون سنیتا کے ساتھ گھریلو معاملہ رکھتا ہے ، اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ مولانا محمد قاسم چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں بے قصور ہیں ۔ جمعیۃ علماء کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مذکورہ خاتون اس طرح کا بے ہودہ الزام لگانے کی عادی ہے ، چنانچہ اس کے نام سے پہلے سے ہی کئی مقدمات تھانہ میں درج ہیں ۔
اس بات کی وضاحت ناگزیر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند جہاں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتی کہ عورتوں کی عزت سے کھیلنے والے کو بخشا جائے ، وہیں یہ بات بھی مہذب سماج کے لئے رسوا کن ہے کہ کوئی خاتون کسی بھی راہدار یا شریف انسان پر جھوٹا الزام عائد کرکے خود بھی رسوائی کا سامان کرے اور کسی کی عزت کو سر باز اچھالے۔ نیز علماء کی شناخت رکھنے والے کو بدنام کرنے کا ایک نقصان فرقہ وارانہ بدامنی کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے ، اس لئے ایسے معاملات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کے سچ تک پہنچے بغیر سوشل میڈیا پر بات کو آگے بڑھانا ایک غلط روش ہے ۔ اس لئے جمعیۃ علماء ہند قانونی اقدام کرنے کی تیاری کررہی ہے تا کہ خاطی کو سزا ملے ۔

SHARE