مولانا فہیم اختر قاسمی
(ناظم تعلیمات وشیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن کٹھیلا)
مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں دہر سے جن کے نشان کبھی
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بے تکان کام کرتے چلے جاتے ہیں اور کبھی مڑکر نہیں دیکھتے کہ انہیں کیا ملا اور کتنا ملا ان کا ایمان اور عقیدہ ہوتا ہے کہ کام کیجیے اور اجر کی امید اس ذات سے رکھے جو خالق عالم ہے احکم الحاکمین ہے اور جس کے دربار سے کوئی مایوس اور محروم نہیں لوٹتا ہے اخلاص ان کی پونجی اور نیک نیتی آن کا اثاثہ ہوتی ہے ان کامقصد زندگی انسانیت کی خدمت دین کی اشاعت اور ملی دردمندی قرار پاتا ہے ان کاعلم ،عمل، کمال، صلاحیت ،صرف تعمیری ، فلاحی اور نیک کاموں پر صرف ہوتی ہے زندگی کے ہرلمحہ کو گویا انہوں نے وقف کیا ہوتا ہے دوسروں کے دکھ درد ان کے مساءل ان کی ہمدردی اور دوسروں کیلئے جذبہ خیر یہی ان کی عظمت کی علامت بن جاتی ہے اور اسی میں وہ اپنی زندگی کا سکون تلاش کرتے ہیں۔
حضرت مولانا ابرار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مہتمم جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن کٹھیلا ان ہی شخصیتوں میں سے ایک تھے حضرت رحمۃ اللہ علیہ بلند ہمت اور بلند عزائم کے مالک انسان تھے حوصلہ کے ساتھ زندگی گزارنا اور نڈر وبے خوف ہوکر کاموں کوانجام دینا ان کی فطرت تھی جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن کٹھیلا ان کے بلند حوصلوں کی داستان سناتا ہے حضرت خلوص و محبت ،فکروتدبر،خوداخلاقی وخوش مزاجی ،متانت اور بردباری تحمل اور رواداری رعایت ومروت لحاظ اور پاس داری ،خرد نوازی اور خود داری میں یکتا اور منفرد تھے وہ اپنے لباس ،اور رکھ رکھاؤ میں کسی زاویے سے بڑے انسان نظر نہیں آتے تھے حالانکہ ہرصورت میں وہ بڑے تھے سادگی ،تواضع خندہ روءی اور اپناءیت کے ہزاروں منظر ہم نے دیکھا اتحاد ملت کاان میں بڑاجذبہ تھا وہ دلوں کو جوڑنے اور زخموں پرمرہم رکھنے کو ہی انسانیت و شرافت کا معیار خیال کرتے تھے آپ کو علاقے میں مرجعیت کی حیثیت حاصل تھی لوگ ہراہم معاملہ میں اپ سے رجوع کرتے اور بڑے خوش اسلوبی سے آپ اس کو حل کردیتے تھے آپ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے ارباب حل وعقد کے رکن اور جمیعت علماء ضلع مدھوبنی کے صدر تھے۔
آپ جہاں ایک طرف ملت اور سماج کے حوالے سے ایک صاحب فکر انسان تھے وہیں دوسری طرف ایک نامور اور بافیض عالم دین تھے آپ کا فیض ملک کے ہر گوشے میں پہونچا آپ کے ہزاروں شاگرد ملک کے طول وعرض میں ملک و ملت اور دین کی خدمت کررہے ہیں مدھوبنی ضلع کے ایک مشہور گاؤں کٹھیلا میں 1945 ء میں ایک متمول خوشحال گھرانے آپ کی پیدائش ہوءی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی مکتب مِیں حاصل کی اس کے بعد مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ میں داخلہ لیکر عربی سوم تک تعلیم حاصل کی 1961ء میں مشہور علمی دانش گاہ جامعہ مظاھر علوم سہارنپور میں عربی چہارم میں داخلہ لیا ایک ہی سال یہاں زیرتعلیم رہے 1962ء میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں عربی پنجم میں داخلہ لیا اور اپنے وقت کے نابغۂ روزگار علماءسے اکتساب علم اور اکتساب فیض کیا جن میں سرفہرست فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا فخر الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ہیں 1965ء میں فارغ التحصیل ہوئے فراغت کے بعد حضرت قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں نے آپ کوجامعہ میں تدریسی خدمات کی دعوت دی چنانچہ آپ اشرف العلوم کنہواں تشریف لے گئے اور 1966ءسے 1967تک صدارت تدریس کے منصب پرفائز رہ کر تدریسی خدمات انجام دیں اس درمیان شرح جامی ،کنز الدقائق اور مختصر المعانی جیسی اہم کتابیں زیر تدریس رہیں 1968 میں مدرسہ تجوید القرآن سمڈیگاجھارکھنڈ قاری مصطفی صاحب پرسونی کےاصرار پرتشریف لے گئے اور مسلسل 12,سال خدمت کی جس میں ایک سال بحیثیت صدر مدرس اور 11,سال بحیثیت مہتمم ادارہ کی ہمہ جہت خدمات انجام دیں اس عرصہ میں آپ کے جہد مسلسل کی وجہ سے پختہ عمارت کی تعمیر ہوءی معیار تعلیم بلند ہوا اور طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
1400ھ مطابق 1980ء میں مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ میں اہتمام کیلے ایک ذی استعداد تجربہ کار متحرک صالح مہتمم ومنتظم کی تلاش تھی حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نظرانتخاب آپ پر پڑی چونکہ آپ حضرت قاضی صاحب کے معتدخاص تھے چنانچہ انھوں نے آپ کو طلب فرمایا تو حضرت قاضی صاحب کے حکم اور علاقہ کے عوام وخواص کے اصرار پر تشریف لے گئے بحمدللہ آپ نے انتہائی خلوص و للہیت اور جانفشانی کے ساتھ 1416ھ تک مدرسہ کی ہمہ جہت خدمات انجام دیں اس عرصہ میں مدرسہ کیلئے کءی بیگھے اراضی حاصل کی اور تعمیری ،تعلیمی وتربیتی اعتبار سے غیر معمولی ترقیات سے ہم کنار کیا اور حضرت ہی کے دوراہتمام میں معیار تعلیم بلند ہوا اور طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا جب آپ مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ سے مستعفی ہوگئے تو حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نےآپکو دار العلوم الاسلامیہ پٹنہ کے اہتمام سنبھالنے کی پیشکش کی لیکن آپ نے ضعیف العمری اور والدین کی خدمت کی وجہ سے معذرت کردی ادھر عرصہ دراز سے آپ سے محبت کرنے والے کا اصرار رہا کہ اپنے علاقے میں لڑکیوں کو زیور علم آراستہ کر نے کیلئے ایک ادارہ قائم کیا جاءے اور ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جاءےاسی دوران ململ کاسفر ہوا وہاں لڑکیوں کاایک ادارہ ہے جامعہ فاطمۃ الزھراء وہاں کی تعلیم وتربیت کو دیکھ کر آپ متاثر ہوے تو اسی وقت سے آپ کو فکر ہوءی کہ اس طرح کاادارہ قاءم کیاجائے چنانچہ اس سلسلے میں حضرت مولانا قاسم صاحب مظفر پوری رحمہ اللہ سے مشورہ طلب فرمایا توآپ نےبھی ادارہ قائم کرنے کامشورہ دیا اور کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے چنانچہ آپ نے توکل علی اللہ 1419ھ مطابق 1998ء کو جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن کٹھیلا کی بنیاد ڈالی آپ کی اخلاص کی برکت اور شب وروز کی بے تکان محنت اور جہد مسلسل وسحر آگاہی کی وجہ سے یہ ادارہ محض مختصر مدّت میں نورانی قاعدہ سے لیکر بخاری شریف تک پہنچ گیا اس وقت ادارہ میں 650 بچے بچیاں زیر تعلیم ہیں 22 اساتذہ کرام جامعہ کی ہمہ جہت خدمات انجام دے رہے ہیں 2002 میں عارف باللہ محی السنہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ سے اصلاحی تعلق قاءم فرمایا اور ان ہی دست اطہر پر بیعت کرکےتزکیہ احسان وسلوک کے منازل طے کیے فناکےبعدزندہ ہے شان رہبری تیری
ہزاروں رحمتیں ہوں اے میر کارواں تجھ پر
اللہ حضرت کی مغفرت فرماءے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور حضرت کی خدمات کو قبول فرمائے ۔