ملت ٹائمز کے بیوروچیف سمیر چودھری تجزیاتی رپوٹ
پانچ مراحل کی ووٹنگ کے بعد اب لوگوں میں حکومت کی سازی کو لیکر بحث و مباحثہ کا دور عروج پر ہے ،حالانکہ ابھی دو مرحلوں کی ووٹنگ باقی ہے لیکن حکومت سازی کو لیکر سٹے اور شرطوں کا بازار بھی پوری طرح گرم ہے۔اس مرتبہ تجزیہ نگار جہاں مسلم ووٹروں کی تقسیم کے قیاس لگارہے ہیں وہیں وزیر اعظم کے تقاریر سے اکثریتی ووٹروں کے متحد ہونے سے انکار بھی نہیں کررہے ہیں۔ایسی صورت میں یوپی کی سیاسی صورت انتہائی نازک موڈپر پہنچ گئی ہے۔ ایک طرف جہاں خاندانی رسہ کشی کے بعد کانگریس کے اتحاد کے ساتھ سماجوادی پارٹی بغیر نیتا جی کے اکھلیش یادو کی قیادت میں میدان میں آئی تھی وہیں بی ایس پی کو متعدد علماء و ملی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ بی ایس پی نے ایکسو جبکہ کانگریس و سماجوادی پارٹی نے مشترکہ طورپر تقریباً75؍ ٹکٹ مسلم امیدواروں کو دیئے ہیں،ان پیچیدہ حالات میں مسلم اکثریتی سیٹوں کو بی جے پی اپنے لیے سوفٹ سمجھ رہی اور اسے یقین ہے مسلم اکثریتی سیٹوں پر مسلم امیدواروں کے آپسی ٹکراؤ میں اس کی راہ آسان ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے ریاست میں حکومت سازی کے خواب دیکھنے شروع کردیئے ہیں اور مزید اضافہ وزیر اعظم کی اترپردیش میں دوران الیکشن کی جارہی وہ تقاریر کافی تگڑے لگارہی ہیں جس میں انہوں نے دو فرقہ کے مابین لائن کھینچ کر شمشان ،قبرستان یا عید و دیوالی پر بجلی دینے جیسے سطحی مدعیٰ اٹھاکر فرقہ پرستی کی لکیر کو مزید طویل کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ سال 2012ء میں یوپی میں سماجوادی پارٹی کو تقریباً 29؍ فیصد ووٹ ملا تھا اور سماجوادی پارٹی 224؍ سیٹوں کے ساتھ ریاست کی سب سے بڑی پارٹی بننے میں کامیاب ہوئی تھی اور اکثریت کے ساتھ اس نے حکومت بنائی تھی،جبکہ بی ایس پی کو تقریباً26؍ فیصد ووٹ حاصل ہوا تھا اور بی ایس پی کو محض 80؍ سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا، بی جے پی کو تقریباً14؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ 48؍ سیٹیں جبکہ کانگریس کو سات سے 8؍ فیصدی ووٹ حاصل ہوا تھا اور کانگریس کو 28؍ اسمبلی نشستیں ملی تھی۔ لیکن 2014ء لوک سبھا میں یہ تمام اعداد شمار پوری طرح پلٹ گئے تھے اور نریندر مودی کے نام پر بی جے پی کو اچانک 14؍ فیصدی کی جگہ 43؍ فیصدی ووٹ حاصل ہوا تھا اور بی جے پی کو یوپی کی 80؍ لوک سبھا سیٹوں میں 73؍سیٹیں ملی تھی جس نے نریندر مودی کی وزیر اعظم بننے کی راہ کو پوری طرح آسان کردیاتھا۔ وہیں بی ایس پی کے ہاتھ خالی تھے جبکہ برسر اقتدار سماجوادی پارٹی محض اپنے خاندان کی پانچ سیٹیں بچانے میں کامیاب ہوسکی تھی ،کانگریس نے بھی ماں بیٹے کی رائے بریلی اور امیٹھی میں اپنی روایتی سیٹیں بچالی تھی۔ لیکن اس مرتبہ ریاست کے حالات انتہائی پیچیدہ ہیں اور صاف طورپر کسی بھی پارٹی کی اکثریت کو تجزیہ نگار تسلیم نہیں کررہے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ووٹ فیصد کا معمولی فرق بڑا الٹ پھیر کرسکتاہے۔ بھلے ہی تجزیہ نگار یوپی میں معلق اسمبلی کی قیاس آرائیاں لگا رہوں میں لیکن اس وقت سٹے اور شرطوں کا بازار پوری طرح گرم ہے ،جہاں پہلے مراحل میں سٹے بازاروں کی فوقیت سماجوادی پارٹی کو لیکر تھیں وہیں اب بی جے پی سٹوریاں کی فہرست میں اول نمبر ہے ۔