سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کا تاریخی فیصلہ: شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 6A کوبرقرار رکھتے ہوئے آسام میں شہریت کے لئے سال 1971 کی تعیین کو درست قرار دیا

   مولانا بدرالدین اجمل نے فیصلہ کو انصاف کی جیت، فرقہ پرستوں کی شکست قرار دیا 

نئی دہلی: (17، اکتوبر 2024): جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و سابق رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کی اکثریت کے ذریعہ رٹ پٹیشن نمبر 274/2009 میں دئیے گئے اُس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے جس میں شہریت ایکٹ 1955 میں آسام کے لئے سیکشن 6A کو بر قراررکھا ہے جو کہ آسام معاہدہ کے مطابق ہے جس کی رو سے جو بھی 25،مارچ 1971 سے پہلے پہلے آسام آگئے تھے وہ تمام لوگ اور اُن سب کی آل و اولاد ہندوستانی شہری شمار کئے جائیں گے۔مولانا نے کہا پانچ رکنی آئینی بنچ میں سے چیف جسٹس سمیت چار ججوں نے باتفاق رائے آسام اکورڈ اور شہریت ایکٹ کے سیکشن 6A کے حق میں فیصلہ دیکر آسام کے لاکھوں حقیقی باشندوں کی شہریت کے حقوق کو تحفظ فراہم کیاہے، اسی لئے یہ فیصلہ انتہائی حوصلہ افزا، انصاف پر مبنی، اورتاریخی حیثیت کا حامل ہے، نیز اُن فرقہ پرستوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے جو مسلمانوں کو باربار آسام سے نکالنے کی دھمکی دیتے آرہے ہیں۔ مولانا اجمل نے کہا کہ یہ کامیابی ایک طویل جد و جہد کا نتیجہ ہے جس کے لئے جمعیۃ علماء ہند صوبہ آسام اپنے قومی صدر حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی کی سر پرستی میں گزشتہ15 سال سے مسلسل اور مستعدی کے ساتھ مقدمہ لڑ رہی تھی،اور بالآخر آج وہ فیصلہ آیا جس میں عدالت عظمی نے فریق مخالف کے دعوی کو مسترد کرتیب ہوئے آسام کے لاکھوں مسلمان کو راحت کی سانس لینے کا موقع دیاہے۔مولانا نے سپریم کورٹ کے ججوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے جمہوری اور آئینی بالا دستی پر اعتماد بحال کرنے والا تاریخ ساز فیصلہ سنایا ہے۔ مولانا اجمل نے زور دے کر کہا کہ کہ تمام لوگوں کو اس مقدمہ اور اس پر آئے اس تاریخی فیصلہ کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اس فیصلہ کی وجہ سے آسام کے لاکھوں لوگوں کی شہریت سے خطرہ ٹل گیا ہے۔دراصل آسام میں 1979 میں ایک آندولن شروع ہوا تھا جس میں غیر ملکیوں کو آسام سے نکالے جانے کی مانگ رکھی گئی تھی، اس درمیان آسام میں نظم ونسق بُری طرح متأثر ہوا اور بالآخر 15 اگست 1985 کو آنجہانی راجیو گاندھی کی سربراہی والی مرکزی حکومت، آسام کی صوبائی حکومت اور تحریک چلانے والی تنظیموں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے ” آسام اکورڈ ” کا نام دیا گیا جس میں یہ طے پایا کہ جو لوگ بھی 25،مارچ 1971 سے پہلے آسام میں آگئے تھے خواہ وہ کہیں سے بھی آئے ہوں اور جو بھی ہو اُن سب کو ہندوستانی تسلیم کیا جائے گا۔تمام فریقوں نے اس معاہدہ پر دستخط کئے اور ایک معاملہ حل ہوگیا، اور اُس کے بعد مرکزی سرکار نے شہریت ایکٹ 1955 میں ترمیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بل لاکر سیکشن 6Aکو داخل کیا، جس میں آسام کو دیگر ریاستوں سے مستثنی کرتے ہوئے وہاں شہریت کے لئے1971کو cut-Off year قرار دیا گیا۔ مگر2009 میں ” آسام سنمیلیٹا مہاسنگھا” نامی ایک غیر معروف تنظیم نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کرکے آسام اکورڈ اور شہریت ایکٹ کے سیکشن6A کو غیر آئینی ہونے کا دعوی کرکے اسے کالعدم قرار دینے کی اپیل کی۔اس تنظیم کی مانگ تھی کہ آسام میں جو لوگ یکم جنوری 1966 سے پہلے آئے ہیں صرف ان کو ہی ہندوستانی مانا جائے جیسا کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں یہی پیمانہ ہے۔جمعیۃ علماء صوبہ آسام(م) نے عدالت عظمی میں اس مقدمہ میں فریق بنتے ہوئے اسے چیلنج کیا اور آسام اکورڈ کو برقرار رکھنے کی مضبوطی کے ساتھ وکالت کی۔واضح رہے کہ اگر اِس تنظیم کی بات کو عدالت تسلیم کر لیتی تو پھر یکم جنوری1966 اور 25 مارچ1971 کے درمیان آسام میں آئے لوگ غیر ملکی قرار دئیے جاتے جو کہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں کیونکہ بنگلہ دیش بننے میں جو اتھل پتھل ہوئی تھی اس میں ایک بڑی تعداد ادھر سے ادھر ہوئی تھی جس میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل تھے۔مگر اس میں اس صورت میں متأثر ہونے والے صرف مسلمان ہی ہوتے، کیوں کہ 2019 میں مودی سرکار کے ذریعہ پاس کئے گئے شہریت ترمیمی قانون کے مطابق جو غیر مسلم دسمبر 2014 تک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہیں ان کو انڈین شہریت دے دی جائے گی،مگر مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی سہولت نہیں ہے اسلئے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا۔مولانا اجمل نے کہا ہم ان تمام تنظیموں اور افراد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جو کسی بھی طرح اس لڑائی میں شریک رہے ہیں اور آسام کے مسلمانوں کی شہریت کے تحفظ کے لئے کوشش کرتے رہے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com