مُڑمُڑ کے نہ دیکھ مُڑمُڑ کے

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اترپردیش کے انتخابی نتائج پر تعجب‘ حیرت‘ ہنگامہ اور واویلا کیوں؟ نتائج توقعات کے عین مطابق ہی تو ہیں۔ ہاں! بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو اس قدر اکثریت حاصل ہوگی‘ ایسی کوئی اُمید نہیں تھی۔ بی جے پی کے اقتدار کا یقین تو تب ہی سے تھا جب سماج وادی پارٹی داخلی انتشار کا شکار ہوگئی۔ باپ بیٹے، چچا بھتیجے کے درمیان اختلافات منظر عام پر آنے لگے تو بی جے پی اقتدار کا یقین ہونے لگا تھا۔ بی ایس پی میں وہ دم خم باقی نہیں رہا۔ گمان تھا کہ مایاوتی کے ہاتھی پورس کے ہاتھی ثابت ہوں گے اور ویسا ہی ہوا۔ جہاں تک بی جے پی کے اقتدار پر شور شرابے اور مختلف جماعتوں اور قائدین کے خلاف الزام تراشیوں کا تعلق ہے‘ یہ بھی کوئی نہیں بات نہیں۔ جب کبھی کوئی جماعت ہارتی ہے تو اُسے تنقید کے تیر سہنے ہی پڑتے ہیں اور جو فاتح ہوتی ہے‘ مخالفین بھی اس کی سراہنا آرائی میں مصروف ہوجاتے ہیں‘ یہی دنیا کا دستور رہا ہے۔ اترپردیش کی اگر 57سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست میں یہ دوسرا موقع ہے جب بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا۔ یاد ہوگا کہ اس سے پہلے کلیان سنگھ کی بھی حکومت تھی۔
یہ ایسی ریاست ہے جہاں 9مرتبہ صدر راج نافذ رہا۔ کانگریس کا اقتدار زیادہ عرصہ تک رہا ہے اور 21میں سے 11وزرائے اعلیٰ کا تعلق کانگریس سے رہا۔ اترپردیش ایسی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے‘ کم از کم 10اضلاع اور 100اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹس فیصلہ کن رہے ہیں‘ تاہم 2014ء کے پارلیمانی اور 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی نے مسلم ووٹ بینک کے تصور کو ختم کردیا۔ امروہا، سنبھل، رام پور، بدایوں، مرادآباد، کیرانا، سہارنپور اور بجنور جیسے اضلاع میں مسلمانوں کی حالیہ الیکشن تک ساکھ تھی جو ختم ہوگئی۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں مسلم ارکان کی تعداد گھٹ کر رہ گئی۔ اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 1967ء میں 24 اور 1991ء میں 23ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ 67 مسلم ارکان اسمبلی 2012ء میں منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے 2007ء میں یہ تعداد 56تھی۔ مسلم ارکان کی تعداد میں کمی کی وجہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مسلم امیدواروں کا میدان میں اُتارنا اور مسلم رائے دہندوں کا کسی سوچ سمجھ اور شعور کے بغیر اپنے ووٹوں کا شیرازہ بکھیر دینا ہے‘ ظاہر ہے بی جے پی کی قیادت اور اس کی پولیٹیکل مینجمنٹ کمیٹی میں بہترین دماغ شامل ہیں‘ انہوں نے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ اقتدار بھی آجائے ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ تعداد میں بلکہ صدفیصد ہندو امیدوار منتخب ہوجائیں۔ بہوجن سماج پارٹی نے 102 سماج وادی پارٹی نے 69، مجلس نے 36، اور کانگریس نے 18 مسلم امیدوار میدان میں اُتارے۔ 25منتخب مسلم ارکان میں سماج وادی کے 16، بی ایس پی کے 5 اور کانگریس کے 2امیدوار منتخب ہوئے۔ اسکے برعکس بی جے پی نے کم از کم 100 ایسے حلقوں سے کامیابی حاصل کی جہاں مسلمان قابل لحاظ تعداد میں ہیں۔ اور جن 25حلقوں میں اسے شکست ہوئی وہاں بھی 1500 تا 2000 ووٹ کے فرق سے وہ دوسرے نمبر پر رہی۔
بی جے پی کی کامیابی پر آہ و بکا کرنے والے اپنے تمام تر الزامات بعض مسلم قائدین مجلس کے بشمول کچھ مسلم جماعتوں پر عائد کررہے ہیں۔ حالانکہ خود اترپردیش کے نامور علمائے کرام مشائخ جن میں مولانا سلمان ندوی، سعیدالرحمن، خالد رشید فرنگی محل، عامر رشادی، کلب جواد نے بھی مسلم ووٹوں کی تفریق میں اپنے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ رول ادا کیا۔ 80فیصد آبادی والے حلقہ دیوبند سے بی جے پی اگر کامیاب ہوتی ہے تو اس پر حیرت کیوں؟ علم و دانش کا عظیم مرکز تسلیم کیا جانے والا ادارہ دیوبند خود چچا بھتیجے کے داخلی اختلافات کا شکار ہے۔ چچا ایک طرف تو بھتیجے ایک طرف تو قوم کی رہنمائی کون کرے اور قوم کس کا راستہ اختیار کرے؟ بی جے پی سنگھ پریوار کے زیر اثر ہے اور سنگھ پریوار نے صیہونیت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہودیوں نے ڈیڑھ سو برس پہلے جو منصوبہ بندی کی تھی اس کے نتائج آج سامنے ہیں‘ کہ سب سے کم آبادی کے باوجود ساری دنیا پر اور 95فیصد ارباب اقتدار پر صہیونی اثرات ہیں۔ بی جے پی کی عمر یہی کوئی 37برس ہے مگر سنگھ پریوار کا تجربہ اُسے حاصل ہے۔ سنگھ پریوار نے برسوں سے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا محض خواب نہیں دیکھا، صرف نعرے بازی نہیں کی، صرف ہندوؤں کے جذبات سے کھلواڑ نہیں کیا بلکہ عملی اقدامات کئے۔ انہوں نے خواتین کی بھی تربیت کی‘ جنہوں نے گود میں پلنے والے بچوں کو ہندوتوا کی فکر کے ساتھ پروان چڑھایا۔ یہی بچے پولیس، عدلیہ، اور مختلف شعبۂ حیات میں ہیں‘ جو اس ملک کے سماج پر اثر انداز ہیں۔ یہ بات تلخ مگر سچ ہے کہ سنگھ پریوار اور ان کی قیادت نے اس ملک کی سرزمین میں ایسے بیج بوئے جس سے آنے والی نسلیں فیضیاب ہوں گی۔ مسلم قیادت کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے لئے اور اپنے کنبے کی فکر کی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم قیادت اور مسلمانوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ بی جے پی نے پارلیمنٹ میں دو نشستوں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ آج قطعی اکثریت کے ساتھ مرکز میں اس کی حکومت ہے۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ نوٹ بندی کے یوپی الیکشن کے نتائج پر اثرات مرتب ہوں گے‘ مگر ایسا نہیں ہوا کیوں کہ پارلیمانی الیکشن میں بھی ہندوستان کے ہندو ذات پات، طبقہ واریت کو بھول کر صرف ایک دن کیلئے ہندو بن گئے تھے‘ اور یوپی کے الیکشن میں بھی وہی تاریخ دہرائی گئی ہے۔ مسلم دلت اتحاد کے ہم نعرے لگاتے رہے‘ عوامی جلسوں میں بھیڑ کو دیکھ کر خوش فہمی کا شکار ہوتے رہے۔ اور اُدھر دلت اور برہمن ایک ہوتے رہے‘ نتائج سامنے ہیں۔
اترپردیش میں آج بی جے پی اقتدار سے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ کیوں کہ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک اترپردیش ہو یا ملک کی کوئی اور ریاست مسلم کش فسادات ہر جماعت کے دور میں ہوئے ہیں۔ اترپردیش میں مرادآباد کا بدترین فساد، ہاشم آباد، ملیانا، میں روزہ دار مسلم نوجوانوں کا پولیس جوانوں کے ہاتھوں قتل عام، بی جے پی کے دور میں نہیں ہوا۔ حالیہ مظفرنگر فسادات سماج وادی پارٹی کے دور میں ہوئے جس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ریاست کے وزیر داخلہ مسلمان تھے۔ مسلمان چاہے ہندوستان میں ہو یا دنیا کے کسی بھی خطہ میں‘ انہیں ہر دور میں آزمائشی مراحل سے گذرتا رہنا ہوگا۔ کوئی جماعت کوئی قائد مسلمانوں کا دوست نہیں۔ مسلمانوں کے لئے ٹیشو پیپر سے زیادہ نہیں‘ استعمال کیا پھینک دیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مسائل اور مصائب آتے ہیں وہ انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہم اپنے اعمال کا بھی جائزہ لیں‘ ہماری تباہی اور بربادی کے سب سے زیادہ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں۔مذہبی قیادت‘ عیش پرست،حریص، لالچی ہے۔ اللہ والوں کی دہلیز پر ارباب اقتدار حاضری دینے کے لئے تڑپتے تھے‘ اور آج جبے دستار، شایے پہن کر یہ علماء کے بھیس میں بہروپئے اور جہلاء ارباب اقتدار کی جوتیاں اٹھائے پھر رہے ہیں۔یہ بھی ہماری تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ جہاں تک مسلم قیادت کا تعلق ہے‘ ہر دور میں ہمارے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کیا گیا۔ ہمیشہ ہمیں ماضی کی بھول بھلیوں میں گھمایا پھرایا جاتا رہا کہ ہم نے صدیوں حکومت کی‘ ہم نے تاج محل حسن دیا‘ قطب مینار کی بلندی دی۔ یہ سب کچھ ہمارے اسلاف نے یا پیش روؤں نے دیا۔ موجودہ قیادت نے ہمیں کیا دیا۔ ذہنی تناؤ، مسائل، انتشار….. آخر ہم کب تک ماضی میں کھوئے رہیں گے ہمیں حال میں رہتے ہوئے اپنے مستقبل کی تیاری کرنی ہے۔ بار بار مڑمڑ کر ماضی کو دیکھنے کی عادت ترک کرنی چاہئے۔
یوپی کے الیکشن میں بی جے پی کے اقتدار کے لئے مجلس اتحادالمسلمین پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں‘ اگر مجلس میدان میں نہ ہوتی تب بھی بی جے پی کا اقتدار ہوتا۔ ویسے بھی مجلس نے 36امیدوار میدان میں اُتارے جس میں سے صرف 4امیدواروں نے اتنے تعداد میں ووٹ لئے کہ اُسے قابل ذکر کہا جاسکتا ہے۔ سات امیدواروں نے ایک ہزار سے کم‘ 22امیدواروں نے 5ہزار سے کم، 5امیدواروں نے 10ہزار سے کم ووٹ لئے۔
مجلس کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی بلاشبہ دور حاضر میں ہندوستان کے ایک قابل اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے جواں سال قائد ہیں۔ الکٹرانک میڈیا پر ان کے مدلل مباحث اور بحران سے نمٹنے، سوالات کا خوبی کے ساتھ جواب دینے کی صلاحیت سے پورا ملک متاثر ہے۔غیر مسلم بھی انہیں قابل پارلیمنٹرین تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی قیادت میں مجلس اتحادالمسلمین کل ہند سطح پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ حیدرآبادی مسلمانوں کی اکثریت کیلئے مجلس متاع عزیز ہے۔ مختلف ریاستوں کے مسلمانوں کے اصرار پر ہی مجلس نے اُن علاقوں کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیاہوگا۔
بہار، مہاراشٹرا اور اب اترپردیش کے انتخابی نتائج میں مجلس کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بیرسٹر اسدالدین اویسی کو ایک قائد کے طور پر قبول کیا گیا ہے تاہم مقامی سطح پر مجلس کوسیاستی جماعت کے طور پر نمائندہ جماعت تسلیم کرنے یا اس کی تائید کرنے کے لئے حالات، ماحول فی الحال سازگار اور مسلمان ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ مجلسی قیادت کو حالات کا سنجیدگی کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہئے۔ جب کبھی ہندوستان کے کسی گوشے سے اسد اویسی کی ستائش کے ساتھ کوئی فون آتا ہے تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے‘ سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے۔ اور اگر کوئی الزام عائد کرتا ہے تویہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ الزامات غلط ہے سر نیچا بھی ہوجاتا ہے۔ اس وقت مجلس کو اپنے آپ کو اپنے مقام پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم جگ میں اُجالا کرنے کے لئے مشعل لے کر نکلتے ہیں اور خود اپنے گھر کے اندھیرے پر توجہ نہیں دیتے اور کبھی کبھی آسمان چھونے کی خواہش میں قدموں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے۔ یہ وقت ایماندارانہ محاسبہ اور تجزیہ کا ہے۔ مسلم قیادت چاہے حیدرآباد کی ہو یا کسی اور علاقے کی‘ یہ نئے علاقوں میں اپنے جھنڈے گاڑنے کے بجائے وہاں کے مقامی مسلم قیادت کو تقویت دے تو زیادہ بہتر ہے۔ مسلم قائدین کی نٹ ورکنگ‘ ان کا اتحاد زیادہ ضروری ہے۔ اس وقت کل ہند سطح پر تمام مسلم جماعتیں اور مسلم قائدین مسلمانوں کو تو اتحاد کی تلقین کررہے ہیں مگر یہ قائدین خود متحد نہیں ہیں۔ کاش …

( مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
رابطہ :9395381226