ثناءاللہ صادق تیمی
حالیہ اسمبلی الیکشن کے نتائج سے دلبرداشتہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب دیش کا کیا ہوگا، جن لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت ہے ان کے رویے خطرناک حد تک افسوسناک ہیں اور مختلف گروہوں کے بیچ کی کھائی بڑھتی جارہی ہے. اس پورے معاملے میں مسلمانوں کی صورت حال زیادہ ہی دگرگوں ہے. ایک قسم کی سراسیمگی ہے، خوف ہے اور مستقبل کے تئیں وسوسے اور اندیشے ہیں. خود میرے اندر کا یقین بھی کمزور پڑ رہا ہے. میں انہیں تشویسناک خیالات کے کابوس میں قید تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی، سامنے ہمارے دوست بے نام خان تھے. مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ مسکرائے اور کہا: مجھے خبر تھی، تمہارا یہ رد عمل غیر متوقع نہیں ہے، جب ایمان و عمل سے رشتہ کمزور رہتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے، ہوا کا ایک جھونکا درخت سے گرے پتے کی مانند تمہارے وجود کو اڑا لے جاتا ہے. مولانا صاحب! خوف بزدلوں اور ناکاروں کا شیوہ ہے، جواں ہمت امت چیلینجیز سے ابھرنا جانتی ہے ، مقابلہ کرنا جانتی ہے، یہ کفر کی کیفیت ہے کہ ایک جھونکے سے گھبرا جاؤ. میں مانتا ہوں کہ بی جے پی کی جیت عام سیاسی جیت نہیں ہے، یہ ہندو فاشزم کی جیت جیسی لگتی ہے، یہ تفریق اور نفرت کی جیت ہے اور دیش میں بہت کچھ بدل رہا ہے لیکن میرے بھائی میرے دوست! تب بھی مسئلے کا حل ڈر، خوف یا احمقانہ جذباتیت نہیں ہے. جمہورہت میں یہ کھیل جاری رہتا ہے، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، کوئی بھی قوم تب مٹتی ہے جب وہ مٹنا چاہتی ہے. تم بڑی تعداد میں ہو، امت اقرا ہو لیکن تمہارے یہاں تعلیم کی کمی اتنی عام ہے کہ جہالت میں تم ضرب المثل ہو ، سماجی خدمت میں تمہاری کوئی حصہ داری نہیں ہے ، تم بحیثیت ایک قوم کے گیونگ کمیونٹی(دینے والا گروہ) نہیں ہو، تمہارے یہاں عملی اسپرٹ کی بہت کمی ہے اور جذباتیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے. اور جس قوم کی یہ خصوصیت ہو اس قوم کا وساوس میں گھرا رہنا کچھ تعجب خیز بھی نہیں. دیکھو! سیاسی طور پر ہنگامہ آرائی کی بجائے پالیٹیکل اکٹیویزم کو فروغ دو، اپنے پڑھے لکھے طبقے کو سیاست سے جوڑو، غنڈوں والی سیاست کارآمد ہونے کی بجائے نقصاندہ ہوتی ہے. تعلیم کو First Priority بنالو، یہی پہلی ترجیح ہو، سماجی شعور عوام کا پختہ کرو، ملت میں خیر سگالی کا جذبہ بیدار کرو، دنیا کے تئیں ان کا رویہ مثبت بناؤ پھر دیکھو آندھی تک تمہیں نہیں ہلا سکتی، یہ تو ایمان کی جانکنی ہے کہ تم خوف کی نفسیات میں جیتے ہو. تمہاری امت اس سے زیادہ تاریک اور خراب حالات سے دوچار ہوئی ہے لیکن سپر ڈالنے کا رویہ نہیں اپنایا ہے اور نہ ہی خوف میں مبتلا ہوئی ہے. اللہ پر ایمان رکھنے والی قوم خوف میں جی بھی نہیں سکتی. یہ در اصل کمزور ایمان کا شاخسانہ ہے.
خود کو بھی اور قوم کو بھی بتاؤ کہ فرد کی طرح ملتوں پر بھی برے حالات آتے ہیں، صبر کرو کہ صبر بزدلی نہیں ہے، محنت کی مقدار بڑھا دو، عزائم کی دھار تیز تر کردو، یقین جانو کہ اس ملک میں تمہارا آج تمہارے کل سے بہتر ہے اور ان شاءاللہ آنے والا کل سب سےبہتر ہوگا. اللہ سےتعلق استوار کرلو اور امت کو ایک نافع امت بنانے کی کوشش کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ بحیثیت قوم تمہیں تبھی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے جب تم خود ہی نقصان اٹھانے کو تیار ہو جاؤ.
میرے دوست کی تقریر میں درد بھی تھا اور شعور بھی . اس لیے میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا اور اللہ سے توفیق طلب کرتا رہا .