خبر درخبر (507)
شمس تبر یز قاسمی
فیس بک سوشل نیٹ ورک سائٹس میں سب سے زیادہ مقبول ، مشہور اور مرکز توجہ ہے ، فروری 2004 میں اس کی ایجاد ہوئی تھی جس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً 2 بلین ہوچکی ہے اور آئے دن صارفین کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے، 140 سے زائد زبانوں میں یہ سائٹ دستیاب ہے ، یہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی پائی جاتی ہے اور ہر کوئی اس کے ذریعہ اپنی بات دوسروں تک پہونچاتا ہے ، فیس بک کا استعمال تصاویر ڈالنے، اسٹیٹس اپڈیٹ کرنے، اپنی زندگی کی حرکات و سکنات شیر کرنے ، لائکس اور کمنٹ کرنے سے قطع نظر بڑے بڑے مقاصد کیلئے کیا جاتا ہے اور عصرحاضر کا سب سے وسیع ، طاقتور اور عظیم عوامی پلیٹ فارم بن چکا ہے لیکن اسی کے ساتھ شرپسند عناصر اور اسلام مخالف طاقتیں اظہار رائے کے نام پر اسلام کے خلاف گستاخانہ مواد کی اشاعت کیلئے بھی اسی فیس بک کا بکثرت استعمال کررہے ہیں اور روز بروز ایسے اسلام دشمنوں طاقتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو فیس بک ، ٹوئٹر ، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرات صحابہ کرامؓ اور دیگر مقدس ہستیوں کی توہین کررہے ہیں، ان کے خاکے بناکر شائع کررہے ہیں، اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پھیلارہے ہیں ، تعجب کی بات یہ ہے فیس بک انتظامیہ شکایت موصول ہونے کے باوجود ایسے معاملوں پر توجہ نہیں دیتی ہے اور مسلمانوں بے بس ہوجاتے ہیں۔
ان دنوں مملکت پاکستان میں فیس پر گستاخانہ مواد اور اہانت آمیز مواد کی اشاعت کا مسئلہ زیر بحث ہے اور وہاں کی عدلیہ اس تعلق سے بہت زیادہ حساسیت او ر بیداری کا ثبوت پیش کررہی ہے، پاکستان سپریم کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس حوالے بیحد حساس اور متفکر ہیں ، زیر بحثت ایک مقدمہ پر سماعت کرتے ہوئے وہ یہاں تک کہ چکے ہیں کہ اگر فیس بک اور سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخانہ مواد کی اشاعت کا سلسلہ بند نہیں ہوا تو وہ اس پر پابندی عائد کردیں گے، انہوں نے حکومت پاکستان سے ریفرنڈم کرانے کی بھی اپیل کی ہے کہ آیا پاکستان میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد ہونی چاہیئے یا پھر اسلام کی شان میں گستاخانہ مواد برداشت کرتے ہوئے ہمیں اس کا استعمال کرنا چاہیئے، انہوں نے بہت سختی کے ساتھ اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ فیس ہم سے پیسے بھی کماتی ہے اور ہمیں جوتے بھی مارتی ہے ، پاکستان جغرافیائی سرحد کے ساتھ نظریاتی سرحد کا بھی نام ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ جغرافیائی سرحدکی حفاظت کیلئے کڑورں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور نظریاتی سرحد کے تعلق سے کوئی فکر مندی نہیں ہے جبکہ نظریاتی سرحدیں نہ رہیں تو جغرافیائی سرحدوں کا دفاع بھی مشکل ہے۔ انہوں نے پاکستانی قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ فیس بک پر تصویر اپڈیٹ کرکے لائک اور کمنٹس ملنے سے کہیں زیادہ ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت عزیز ہے اور ان کی خاطر ہم ہر طرح کی قربانیاں بخوشی دینے کیلئے تیار ہیں، سوشل میڈیا کے بغیر ہم کل بھی زندہ تھے اور آئندہ بھی رہیں گے لیکن مذہب کی توہین کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے۔ جسٹس شوکت صدیقی کا موقف ہے کہ لبرل ازم دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک چیز ہے اور ایسا گستاخانہ مواد شائع ہونے سے مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے، بی بی سی کے مطابق انھوں نے پاکستان سیکریٹری داخلہ کو حکم دیا کہ ایسے مواد اور اس کے ذمہ داران کی نشاندہی کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکشیل دی جائے جس کے تمام شرکا آئین کے مطابق مسلمان ہونے کی شرط پر پورا اترتے ہوں۔
فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اشاعت لمحہ فکریہ ہے اور اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ فیس بک انتظامیہ اس معاملے میں تعصب سے کام لیتی ہے ،کئی فلسطینی اور عرب صحافیوں کے فیس بک پیج اور اکاؤنٹ کو محض اس وجہ سے بلاک کردیا گیا ہے کہ وہاں اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا جاتا تھا لیکن اسلام کے خلاف شائع ہونے والے گستاخانہ مواد کے بارے میں شکایت کی جاتی ہے تو اسے فیس بک کی پالیسی کے خلاف کہ کر ٹال دیا جاتاہے، اس تعلق سے پاکستان کی فکر مندی قابل ستائش ہے ، خاص طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اس جدوجہد اور اسلامی شریعت سے والہانہ لگاؤں کو ہم سلام کرتے ہیں جو سوشل میڈیا پر اہانت آمیز مواد اور خاکوں کی اشاعت کو روکنے کیلئے ایک مجاہدانہ کردار ادا کررہے ہیں ، سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اشاعت کی روک تھام میں اس سے قبل بھی پاکستان نے بیداری کا ثبوت پیش کیاہے ۔ چناں چہ 2012 میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں قابلِ اعتراض فلم ‘انوسنس آف مسلمز’ کی جھلکیاں دکھانے پر دنیا کی مقبول ترین ویڈیو سٹریمنگ ویب سائٹ یو ٹیوب پر پاکستان میں پابندی لگا دی گئی تھی اور تقریباً چالیس ماہ کی بندش کے بعد جنوری 2016 میں اسے اس وقت بحال کیا گیا تھا جب یوٹیوب نے پاکستان کا مقامی ورژن لانچ کیا تھا۔
پاکستان عدلیہ اور شوکت عزیز صدیقی کا یہ جذبہ ، حوصلہ اور نظریہ قابل صد ستائش اور لائق فخر ہے ، پاکستانی مسلمانوں اور نوجوانوں کو ان کا ساتھ دینا چاہیئے ، مذہب و شریعت سے محبت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے فیس بک کو جھکنے پر مجبور کردینا چاہیئے اور کردار و عمل سے یہ ثابت ہونا چاہئے کہ ایک مسلمان کے لئے رسول اور مذہب کے مقابلے میں کسی اور چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، جب بات آئے گی شریعت کی ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، ان کی عظمت اور شخصیت کی تو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کے استعمال کیلئے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی ادنی سا مسلمان حضورؐ کی شان میں گستاخی کو برداشت کرکے فیس بک کے استعمال کو گوارا کرسکتا ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے سی ای او اور ایڈیٹر ہیں)