خبر درخبر(508)
شمس تبریز قاسمی
اتر پردیش میں شرمناک شکست اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے فائربرانڈ شخص کے وزیر اعلی بن جانے کے بعد یہ توقع تھی کہ ہندوستانی مسلمان اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے ،کوئی نئی حکمت عملی اپنائیں گے ،اپنے حق وحقوق کے تحفظ کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کریں گے اور انتشار کے نتائج سے عبر ت اخذکرتے ہوئے اتحاد ویکجہتی کا ثبوت پیش کریں گے لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوسکا اور بابری مسجد جیسے مسئلے پر جب سپریم کورٹ کا بیان آیاکہ دونوں فریق عدلیہ سے باہر مذاکرات کے ذریعہ مسئلے کا حل کرلیں تو اعلی قیادت کے ساتھ دیگر لوگوں نے بھی اپنا اپنا ردعمل پیش کرنا شروع کردیا،اخبارات میں پریس ریلیز کی بھر مار لگ گئی ،کسی نے سپریم کورٹ کے مشورہ کو سرے سے مستردکرنے کی بات کہی ،کسی نے خیر مقدم کیا اور مذاکرات کیلئے رضامندی ظاہر کی ،ایک دانشور صاحب نے سب سے الگ راستہ اختیار کرتے ہوئے ہندو فریق کو مسجد دینے کی ہی پیشکش کردی اور اردو کے اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ مسلمان فریق بابری مسجد سے دستبردار ہوجائیں گے بشرطیکہ انہیں کچھ دوسری چیز یں دے دی جائے ،جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کو مرکزی حکومت اقلیت کا درجہ دے وغیرہ ۔ فیس بک پر بھی مختلف قلم کاروں نے بابری مسجد سے دستبرداری کی تحریک چھیڑدی ،کسی نے فقہاء کا قول پیش کرتے ہوئے کہاکہ اگر کہیں مسجد ویران ہوجاتی ہے شرعی اعتبار سے اس کودوسری جگہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لہذا بابری مسجد کے نام پر مسلمانوں کے جان ومال کو شدید خطرہ ہے اس لئے بہتر ہے کہ مسلمان کہیں اور مسجد بنالیں اور ایوددھیا میں دعویداری چھوڑدیں ، ایک صاحب نے فیس بک پر لکھاکہ مسلمان تعلیم میں سب سے زیاد ہ پسماندہ ہیں لہذا بہتر حل یہی ہے کہ حکومت سے پانچ اقلیتی یونیورسیٹی بنواکر مسجد ان کے حوالے کردی جائے ،کچھ لوگوں نے یہ لکھاکہ بابری مسجد کی جگہ پر مندر ؍مسجد کے بجائے کوئی تاریخی یا تفریحی عمارت بنادی جائے ۔
بابری مسجد کی تعمیر 1527 میں ہوئی تھی جو بغیر کسی اختلاف کے متفقہ طور پر یہ ساڑھے تین سو سالوں تک مسجد رہی ،انیسوی صدی میں اچانک اسے رام جنم بھومی قراردیکر اس جگہ کو ہڑپنے کی کوشش کی گئی اورسوئے اتفاق فریق مخالف خانہ خدا کو بت خانہ بنانے میں کامیاب ہوتارہا ،اب وہاں پر ایک عارضی مندر قائم ہے لیکن مسجد نہیں ہے ، نہ ہی وہاں پر اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے کی اجازت ہے جہاں کئی صدیوں تک اللہ تبارک وتعالی کی پرستش ہوتی رہی ،مسلمان بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوتے رہے۔
سپریم کورٹ کا روئے سخن بتارہاہے کہ عدلیہ میں مسلمان فریق کے دلائل مضبوط ہیں اور اگر آستھا کو درمیان میں حائل نہ ہونے دیاجائے تو یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا لیکن عدلیہ نے اسے آستھا کا مسئلہ قراردیکر مسجد کی زمین کو ہڑپنے کا دروازہ کھول دیا ہے ،مجھے نہیں معلوم کا فیصلہ کس کے حق میں آئے گا ،عدلیہ کے باہر مذاکرات کامیاب ہوپائے گی،کوئی ایک فریق اس سے دستبر دار ہونے پر آمادہ ہوگا لیکن اتنا ضرور ہے کہ آئندہ دنوں میں آستھا اور عقیدت کے نام پر مسلمانوں کی دیگر مساجد پر بھی حملہ بولاجائے گا ،چناں چہ پہلے صرف ایک بابری مسجد کامسئلہ تھا اب کانشی اور متھرا کا بھی مسئلہ آگیا ہے ،ممکن ہے رام جنمی بھومی کے نمائندے کسی دن ہندوستانی مسلمانوں کے عظمت رفتہ کی علامت دہلی کی شاہی جامع مسجد کو راتوں رات رام جنم بھومی قراردیکر اسے بھی ہڑپنے کی سازش شروع کریں گے، پھر عدلیہ اسے آستھا اور عقیدت کا مسئلہ قراردیکر اقلیت واکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی تجویز پیش کرے گی یا پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ مندر بنانے کی بات کی جائے گی ۔شاہ جہاں کے تعمیر کردہ تاج محل کا نام بدلنے کی بات پہلے سے ہی چل رہے ۔لال قلعہ اور دوسری عمارتوں کا تشخص بھی ختم کرنے میں کوئی وقت نہیں لگے لگااور یہ دھیرے دھیرے یہ سب ہورہاہے ،اسلامی شناخت اور آثار ونقوش کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مسجد سے دستبردار ہوجانے کے بات کرنے والے دانشوارن اور نوجوان نہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں ،میں ایسی باتیں کرنے والوں کیلئے سودے باز،اسلام دشمن ،غدار ،منافق ،سرکاری ایجنٹ اور خونی پنجہ جیسے الفا ظ استعمال کرنے کا ہر گزروادار نہیں ہوں ،مجھے پتہ ہے کہ ان کی یہ باتیں بھی مسلمانوں سے ہمدردی پر مبنی ہیں کیوں کہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ بابری مسجد ہندوستانی سیاست کا سب اہم اور گرما گرم موضوع ہے ، اس نام پر مسلمان جان ومال کا بے دریغ نقصان کراچکے ہیں،دسیوں فسادات اس کی وجہ سے ہوچکے ہیں لیکن یہ بات بھی ذہن نشیں کرلینی چاہیئے کہ بابری مسجد سے دستبردار ہوجانے کے بعد بھی ہماری بقیہ مساجد محفوظ نہیں رہیں گی،نہ ہی کوئی شرط پوری کی جائے گی ،نہ ہی اس نام پر مسلمانوں کو کچھ دیا جائے گا ، یادرکھئے یہ ہندوستان ہے جہاں کب کس کھیت کو مندر بنادیا جائے،کس مسجد کو کسی بھگوان کا جائے پیدائش قراردے دیاجائے اورپیپل کے درخت کو زمین سمیت قبضہ کرکے مندر بنادیاجائے کچھ نہیں کہاجاسکتاہے،بات آستھا اور عقیدت کی آجاتی ہے اور پھر عدلیہ بھی ہاتھ جوڑ لیتی ہے ،بابری مسجد کے معاملے کو بھی آستھا سے جوڑکر سپریم کورٹ نے فریقین پر آپسی بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی ذمہ داری ڈال دی ہے جو ناممکن ہے ،بہر حال عدالت میں زیر سماعت مقدمہ کاتعلق اراضی کی ملکیت سے ہے کہ آیا جہاں بابری مسجد واقع ہے وہ زمین کس کی ملکیت ہے ؟بابری مسجد کی جو صدیوں پہلے بنائی گئی تھی یا پھر راجنم بھومی کی؟ جس کا دعوی گزشتہ اسی سال قبل کیا گیا،مسجد اور مندر کی تعمیر کا مسئلہ بعد میں پیدا ہوگا اس لئے خانہ خداکی حقوق او رتحفظ کی جنگ ہمیں اپنی بساط کی مطابق ہر حال میں لڑنی ہوگی ،جمہوری ملک میں جمہوری انداز کو اپناتے ہوئی ہمیں آخری وقت تک مسجد کی تعمیر کی کوشش کرنی ہوگی ،سپریم کورٹ انصاف کی آماجگاہے اور وہی آخری میدان جنگ ہے ،اس لئے ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم آخری وقت تک مسجد کی بازیابی کی جنگ لڑتے رہیں اور مدلل و مضبوط انداز میں اپنا موقف پیش کریں،قطع نظر اس سے کہ فیصلہ موافق آتاہے یا مخالف بہر دوصورت ہماری فتح ہوگی ،اگر فیصلہ موافق آتاہے تو نور علی نور اگر مخالف آتاہے تو بھی ہماری شکست نہیں ہوگی اور انصاف کی آماجگاہ سے دنیا بھر میں یہ پیغام جائے گا کہ ہندوستان میں آستھا کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا حقائق کا گلا گھونٹا گیا ،اقلیتوں کی مسجد پراکثریتی طبقہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں قبضہ دلا دیا گیالیکن اگر مقدمہ لڑنے سے قبل ہی آپ مسجد سے دستبردار ہوجائیں گے،ہمت اور حوصلہ ہار جائیں گے تو پھر آنے والی نسل آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی تاریخ میں ضمیر فروش او ر سودے باز قیادت کی تعبیر استعمال کی جائے گی ساتھ ہی دیگر خانہ خانہ کوبھی بت خانہ میں تبدیل کرنے کی روایت شروع کردی جائے گی ۔
(ملت ٹائمز)