گالی گلوچ

عبدالولی زاہد سواتی
زبان کا بیہودہ اور غلط استعمال گالی کہلاتا ہے اسلام میں بدزبانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن ہمارے سماج میں اس کا استعمال ایسے ہیں جیسے لوگوں نے فحش گوئی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہو کچھ لوگ طیش میں آکر اپنے کو گالیاں دیتے ہیں زبان درازی بہت ہی بری عادت ہے اور اکثر لڑائی کا باعث بنتی ہے جبکہ اسلام نے ہمیں اچھے اخلاق کی طرف توجہ دینے اور بری اخلاق سے منع کیا ہے اور ناجائز گفتگو نہ کرنے کا حکم دیا ہے اللہ تعالی نے تو معبودان باطلہ کو بھی گالی دینے سے منع فرمایا ہے دیکھیئے سورت الانعام ایت نمبر 108 ترجمہ اور وہ مشرکین جو اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہیں تم انہیں گالی مت دو کیونکہ پھر وہ جہالت میں حد سے گزرتے ہوئے اللہ کو گالیاں دینے لگے گے، لیکن کچھ بدبخت اللہ کو گالیاں دینے سے نہیں گھبراتے جیسے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم مجھے گالیاں دیتا ہے اور میری تکذیب کرتا ہے حالانکہ اس سے لائق نہیں کہ میری تکذیب کرے اس کا مجھے گالی دینا تو یہ ہے کہ اس کا کہنا ہے کہ میری اولاد ہے اور اس کا میری تکذیب کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالی مجھے دوبارہ زندہ نہیں کریگا جس طرح اس نے مجھے پہلے پیدا کیا تھا (بخاری 3193) اور نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے اور وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں میرے ہاتھ میں تمام معاملات ہیں رات میں سے دن کو میں ہی پھیرتا ہوں (بخاری 4824) جھوٹے خداؤں کا انکار ضروری ہے لیکن ان کو گالی دینا درست نہیں شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے جو اس سے گمراہ کرنے کیلئے مختلف اور متعدد جال بچھاتا ہے لیکن اس کو بھی گالی دینا درست نہیں ہاں اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیئے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آیا تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقینا وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے (حم سجدہ 34) ہنسی آتی ہے مجھے حضرت انسان پر کاربد تو خود کرے لیکن لعنت کریں شیطان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکلامی کرنے والے کو آگاہ فرما دیا راویت ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق وگناہ ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے (بخاری 4066) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار باتیں ایسی ہیں کہ وہ جس انسان میں ہو وہ خالص منافق ہی ہے یا اگر چار خصلتوں میں ایک بھی ہو تو وہ منافقت کی نشانی ہے یہانتک کہ اس سے باز نہ آجائے 1 جب بات کریگا تو جھوٹ بولے گا 2 جب وعدہ کریگا تو اسکی خلاف ورزی کریگا 3 جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کریگا 4 اور جب اس کا کسی سے جھگڑا ہو گا تو گالیاں دے گا (بخاری 2459) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کوئی آدمی اپنے والدین کو کیسے گالی دیتا ہے فرمایا جب کوئی شخص کوئی انسان کسی دوسرے کے والدین کو گالیاں دیتا ہے تو اسکے بدلے میں لوگ اس کے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں (مسلم 243) ہمیں گالی گلوچ کی بجائے سنت نبوی کو عام کرناچاہیئے اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے جاہل تو جاہل پڑھے لکھے بھی بدکلامی کے بغیر بات کرنا بے لطف سمجھتے ہیں چھوٹے چھوٹے بچے جن کو کلمہ تو شائد نہ آتا ہو لیکن گالیوں میں بہت ہی ماہر نظر آتے ہیں اس میں بچوں کا کوئی قصور ہی نہیں ہے یہ سب والدین کے پرورش کا نتیجہ ہے بچارے والدین کی بھی مجبوری ہے اگر بدکلامی نہ کریں تو شیطان ناراض ہو جائیگا میرے بھائیوں ایک طرف شیطان اور دوسرے طرف رحمان شیطان کہتا ہے گالیاں دو زبان کا غلط استعمال کرو اللہ تعالی فرماتے ہیں اچھی بات کرو آپ کس کو راضی کرتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے میں آپ سب کو ایک علاج بتاتا ہوں آپ اپنے اندر صبر کا مادہ پیدا کریں اگر آپ کو کوئی گالی دے رہا ہے تو جواب میں کچھ نہ کہو جیسا کہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک یہودی گالیاں دے رہا تھا پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے دونوں خاموشی سے سن رہے تھے بالاآخر صدیق اکبر نے اس یہودی کو جواب دے دی تو حضور وہاں سے چل دیئے صدیق اکبر نے سوچا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے وہ بھی آپ کے پیچھے نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! جب تو خاموش تھا تو فرشتہ آپ کی طرف سے اس یہودی کو جواب دے رہا تھا لیکن جب آپ نے جواب دیا تو فرشتہ وہاں سے چلا گیا تب میں بھی روانہ ہوا ایک اور علاج کہ جو بندہ آپ کو گالیاں دے رہا ہو آپ اس کو صرف اتنا کہہ دیجئیے گا کہ آپ نے جو کچھ بولا ہے اللہ اس کا اجر آپ کو عطاء کریں تو پھر دیکھیئے کہ وہ کیسے آپ کی منت سماجت کرتا ہے۔
اللہ عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔

SHARE