الزام کسی اور کے سر کیوں نہیں جاتے

ہر بار ہم ہی ہیں ہدف سنگِ ملامت

الزام کسی اور کے سر کیوں نہیں جاتے
مسعود جاوید
اتر پردیش کے انتخابات کے نتائج اور اس کے بعد وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے مسلمانان هند خاص کر یوپی اور قرب وجوار کے مسلمان ایسا لگتا ہے کہ مایوسی اور ایک حد تک خوف کی کیفیت میں هیں اور یہ ایک فطری ردعمل ہے . ان حالات سے کس طرح نبردآزما ہوں اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے آراء پیش کی جارہی ہیں . کچھ دانشوروں کی رائے هے کہ مسلمان اب صرف اور صرف تعلیم کی طرف توجہ دیں . تعلیم اور خاص طور پر اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جدوجہد بلا شبہ قابل تعریف مشورہ ہے مگر یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے مکمل طور پر لاتعلق ہو جائے. مزید برآں کچھ روشن خیال حضرات کی رائے میں هر قسم کی پریشانی کی وجہ دین ، ملا مولوی اور دینی مدارس ہیں . وه خود هی کہتے بهی ہیں کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق محض % 3 مسلم بچے مدرسوں میں پڑھتے هیں جس کا مطلب یہ ہوا % 97 بچوں پر کام کا میدان میسر ہے آپ ان % 3 کو بهول جائیں وه اچها برا جس طرح چلارهے هیں چلانے دیں (گرچہ میں خود مدارس کے نصاب میں عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تبدیلی کی وکالت کرتا رہا ہوں) بہر حال جب مدارس اور علماء مسلمانوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتے . تو اس کا بیڑہ آپ حضرات اٹها لیں اور قوم سے سچی محبت کا ثبوت دیں. تعلیم نسواں اور انگریزی تعلیم کی ممانعت جیسے پرانے مسائل اور آراء کی آڑ میں خود کو نہیں چهپائیں اور خواہ مخواہ علماء کو مطعون نہ کریں. ہر زمانے کے کچھ مخصوص حالات ہوتے ہیں جس کے مد نظر کچھ باتیں اس طرح کی کرنی هوتی هے. گاندهی جی نے بهی انگریزی صنعت کی کئی چیزوں کا بائیکاٹ کیا تها کیا وه اب بهی هے ؟.
اب رهی بات تعلیم کی ، تو 1857 کی جنگ آزادی (جسے انگریزوں نے غدر کانام دیا تو هم بهی سچے غلام هونے کی ثبوت کے طور پر اس آزادی کی لڑائی کو بغاوت اور غدر ہی لکهتے اور پڑھتے هیں) میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو اور بالخصوص دین پر خطره منڈلانے لگا تو مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ مسلمانوں کے دین کی حفاظت کے لیے 21 مئی 1866 کو دیوبند میں ایک مدرسہ قائم کیا . آج بر صغیر ہند کے مسلمانوں پر ان کے اس احسان عظیم کا نتیجہ ہے کہ شاید ہی کوئی گاؤں قصبہ شہر ایسا هو جہاں کم از کم ایک مدرسہ یا مکتب نہ هو. ناقابل شمار مدارس کا یہ جال پورے هندستان پر محیط هے یہ اور بات هے کہ غیر منظم هے اور ان میں بہت کچھ اصلاح کی ضرورت ہے.

اس کے بعد پنڈت دیانند سرسوتی نے بهی انگریزوں کے اس خفیہ مشن کو محسوس کیا اور ان کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے پنڈت هنس راج نے لاهور (موجوده پاکستان) میں 1886 میں دیانند اینگلو ویدک اسکول D.A.V c قائم کیا جہاں عصری تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم دی جاتی هے اور اس کا بهی جال پورے هندستان میں پهیلا ہوا هے . یہ واحد غیر سرکاری تعلیمی سوسائٹی هے جس کے 750 تعلیمی ادارے هیں جن میں 50000 پچاس هزار سے زائد تعلیمی اور غیر تعلیمی عملہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں. اور تقریبا بیس لاکھ طلبا و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں.

اس سے قبل سرسید احمد خان رحمۃاللہ علیہ (آج ان کی 119 ویں یوم وفات هے اس موقع پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں) نے 1875 میں مسلمانوں کو عصری تعلیم اور سائنس سے آراستہ کرنے کے لیے مدرسہ العلوم مسلمانان هند ، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا جو اب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی هے . مگر صد افسوس دیوبند اور ڈی اے وی کی طرح اس کا جال پورے ملک میں نہیں بچهایا جا سکا . پچھلے دنوں ایک مثبت پیش قدمی یہ هوئی کہ اس کے تین برانچ ؛ ایک ملپپورم کیرلا میں دوسرا مرشداباد مغربی بنگال میں اور تیسرا کشن گنج بہار میں قائم ہوئے .
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا حال بهی اس معاملہ میں اے ایم یو سے کچھ مختلف نہیں ہے. یہ دونوں ادارے شاید فخریہ طور ہر یہ کہتے ہوں کہ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگا یا جائے کہ هر سال ان کے نویں اور گیارہویں وغیرہ میں داخلہ کے لئے کم وبیش 35- 40 هزار درخواستیں موصول ہوتی هیں جن کے لئے صرف 400-800 سیٹ هیں . اگر ڈی اے وی کے نہج پر بارہویں تک کی تعلیم کے لئے ان کی شاخیں هوتیں یا ان کی سرپرستی میں یا ان سے ملحق یا کسی بهی طرح کا کوئی نظم ہوتا تو یہ پینتیس هزار بچے در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جاتے . امر واقعہ یہ هے کہ فاونڈیشن کی طرف توجہ دینے کی بجائے هم کالج بهی نہہں سیدهے سیدهے یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے آواز اٹهاتے ہیں . ڈی اے وی ابھی بهی اسکول ہے یونیورسٹی نہیں . بنیاد اگر مضبوط هو هندستان اور هندستان سے باهر بے شمار مواقع هیں .
اور آخر میں ایک بات انتخابات کے نتائج آنے کے بعد لوگوں نے اویسی اور ملاءوں کو کوسنا شروع کردیا اور دیوبند کو بهی نشانہ بنایا. پہلی بات تو یہ واضح کردوں کہ دارالعلوم کا موقف همیشہ سے یہ رها هے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے حق میں کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں هوگا. وهاں کے طلباء کو هدایت دی گئی هے کہ انتخابی سرگرمیوں میں تعلیمی سال کے دوران حصہ نہ لیں . نشانہ بناتے کی وجہ غالبا روشن خیال لوگوں کی حقائق سے واقفیت کی کمی رہی هو یا انہیں هر داڑهی ٹوپی اور شیروانی والا دارالعلوم کا نمائندہ نظر آتا هو اور تیسری وجہ یہ هو سکتی هے کہ جمیعہ العلماء کے ذمے دار وں کے بیانات کو دارالعلوم پر محمول کیا هو. جمعیہ العلماء ایک سیاسی پارٹی هے اور اسے یہ جمہوری حق حاصل هے کہ اپنے لوگوں سے اپیل. کرے کہ کس کو ووٹ کریں . رہی بات اویسی کی تو اسے بهی جمہوری حق حاصل ہے کہ آزادانہ انتخابات لڑے آپ کو پسند آئے یا نہ آئے . پھر یہ کہ سماجوادی کا مسلم امیدوار 4500 ووت لایا اور بہوجن 4000 اور اویسی 400 اور بی جے پی 6000 کل ووٹ سے جیت گیا تو اس میں هارنے کا سارا الزام اس پی اور بی اس پی پر لگےگا نہ کہ اویسی اور مسلمان ووٹروں پر. اگر بہار کی طرح یہاں بهی گٹھ بندھن هوتا تو منظر شاید کچھ اور ہی ہوتا۔

masudjaved2@gmail.com